ہتھیار اور پلے ہوئے گھوڑے تیار رکھو
1950ءمیں حکومت نے رضا کار تنظیم کا آغاز کیا۔ ہماری رہائش ربانی روڈ پر پرانی انار کلی کے تھانے کے پاس تھی۔ ایک دن انسپکٹر شیروانی نے اپنے علاقہ سے نوجوانوں کو تربیت کے لئے جمع کرنے کا کام شروع کیا۔ وہ ایسے 30، 40 نوجوانوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے جن کی تربیت کر کے ایک مضبوط رضا کار گروپ بنایا جائے۔ یہ نوجوان صبح سویرے تھانہ پرانی انار کلی میں جمع ہوتے۔ وہاں سے انسپکٹر شیروانی اس دستے کو لیفٹ رائٹ کراتے ہوئے یونیورسٹی گراﺅنڈ لے جاتے، جو تربیت مقصود تھی اس کا سلسلہ دو سال تک چلتا رہا۔ یہ 30،40 نوجوان ایسے ہی چاق و چوبند تھے جیسے پولیس یا فوج کا سپاہی ہوتا ہے میرے بڑے بھائی عبدالغفار بھی اس رضا کار رستہ میں شامل تھے۔ مَیں1948ءسے سنٹرل ماڈل سکول میں پڑھ رہا تھا۔ وہاں 1951ءمیں حکومت کا ایک حکم آیا کہ لڑکوں کو فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جائے گی۔ ریڈ کراس کی طرف سے انسٹرکڑ آتے تھے اور وہ منتخب طلباءکو فرسٹ ایڈ کی تربیت دیتے تھے اس گروپ میں مَیں بھی شامل تھا۔ جب تربیت مکمل ہو گئی تو باقاعدہ ریڈ کراس تنظیم کی طرف سے ہمیں سرٹیفکیٹ دیئے گئے۔
1952ءمیں سنٹرل ماڈل سکول میں چند فوجی افسران آئے اور انہوں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کو جی او سی لاہور جنرل اعظم خان کا پیغام پہنچایا کہ میٹرک کے طلباء(نویں اور دسویںجماعت) کو فوجی تربیت دی جائے گی۔ آغاز اس طرح ہوا کہ ایک دن میڈیکل کور کے چند ڈاکٹرز آ گئے۔ طلباءکو ہال میں بنیان نیکر میں جمع کر دیا گیا اور ان کا میڈیکل ٹیسٹ شروع ہو گیا۔ اس عمل کو دو دن لگ گئے۔ جو لڑکے ٹریننگ کے لئے سلیکٹ ہوئے ان کی لسٹ بن گئی۔ اس کے بعد فوجی درزی آئے اور وردیوں کے سائز لینے شروع کئے۔ جب وردیاں سل کر آ گئیں تو لڑکوں کو ہال میں جمع کر کے ہر ایک کی فوجی وردی دی۔ ایک طرف جرابوں اور فوجی بوٹوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ لڑکوں کو کہا گیا کہ اپنے اپنے سائز کی چیزیں نکال لیں۔ اس کے ساتھ ہی کیپ، بیلٹ غرض مکمل یونیفارم دے کر آرڈر ملا کہ کل سب لڑکے یونیفارم پہن کر آئیں گے۔گراﺅنڈ میں جی او سی جنرل محمد اعظم آپ سے خطاب کریں گے۔
اگلے روز سکول کے وقت پر لڑکے تیار ہوئے۔ پہلی دفعہ آرمی یونیفارم پہنی۔ شوز بڑے بھاری تھے۔ تیار ہو کر محسوس کیا کہ یونیفارم سج رہی ہے۔ اپنا آپ خود کو بھی اچھا لگ رہا ہے۔ سمارٹ سمارٹ سا احساس ہے گھر کے ہر فرد کو گھوم گھوم کر اپنا آپ دکھا رہے ہیں۔ اس تبدیلی پر لڑکے سب خوش بھی ہیں اور حیران بھی۔ سکول آگئے فوجی انسٹرکٹر آئے۔ لڑکوں کو لائن آپ کیا اس ٹرینگ کے بارے میں بریفنگ دی جنرل محمد اعظم صاحب تشریف لائے۔ اس ٹریننگ کے اغراض ومقاصد بیان کئے قوم کا ہر جوان فوجی ہونا چاہے۔ ایسا وقت آ سکتا ہے کہ ان نوجوانوں کو کبھی اپنی فوج کے شانہ بشانہ لڑنا پڑے، لہٰذا تربیت ضروری ہے۔ اس ٹریننگ کورس کا نام JCC ہے (جونیئر کیڈٹ کور)پورے فوجی انداز کے ساتھ یہ کورس دو سال جاری رہا۔ کیڈٹس کو پوری فوجی تربیت دی گئی۔ یہ پہلا گروپ تھا جس کو جنرل محمد اعظم صاحب کی خواہش کے مطابق تیار کیا گیا۔ یہ پہلا گروپ تجرباتی بنیاد پر تیار کیا گیا تھا۔ تربیت میں جو خامی کمی رہ گئی اس کو دوسرے گروپ میں دور کرنا تھا۔
1953ءمیں JCC کا دوسرا گروپ ٹریننگ کے لئے تیار کیا گیا۔ پچھلے گروپ کی خامیاں اس گروپ میں دور کرنا بڑا مقصد تھا۔ میرا چناﺅ اس گروپ کے لئے ہوا۔ یہ گروپ پہلے سے بہت زیادہ نظر آیا۔ سکول انتظامیہ انسٹرکڑز اور جنرل محمد اعظم صاحب خود اس گروپ سے بہت مطمئن اور خوش تھے۔ جنرل اعظم صاحب نے فیصلہ کیا کہ اس گروپ کا ایک مہینہ کا کیمپ جی او سی ہاﺅس کے ساتھ لگے گا۔ وہاں میجر عنایت صاحب گروپ کی نگرانی خود کریں گے اور کبھی کبھی ہاﺅس سے باہر آ کے گروپ کی انسپکشن کریں گے۔ بڑی محنت اور خوبصورتی کے ساتھ JCC کے اس دوسرے گروپ کی ٹریننگ مکمل ہو گئی۔ تکمیل کی باقاعدہ تقریب ہوئی۔ سمارٹ گروپ لائن اپ ہے سنٹرل ماڈل سکول کے ہال میں ٹوٹل فوجی ماحول ہے لڑکوں کی محنت اور لگن کو سراہا گیا۔ دوسرا گروپ تربیت کے اعتبار سے بہت کامیاب رہا۔ تمام کیڈٹس کو ٹریننگ مکمل کرنے پر مبارکباد دی گئی ، پھر بتایا ہمارے پاس دو میرٹ سرٹیفکیٹ ہیں، پہلا بیسٹ کیڈٹ کے لئے۔ پورا گروپ ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہا ہے کہ دیکھیں کس کا نام لیا جاتا ہے۔
بیسٹ کیڈٹ ....خسرو خان
بڑی تالیاں بجیں اور خسرو خان نے اپنا میرٹ سرٹیفکیٹ وصول کیا۔ دوسرا میرٹ سرٹیفکیٹ ہے۔ سب سے زیادہ سمارٹ کیڈٹ کے لئے، پھر سب دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں کہ اب کس کا نام پکارا جاتا ہے۔ سسپنس کے بعد نام آیا عبدالخالق۔الحمدللہ1948ءسے 1954ءتک سنٹرل ماڈل سکول سے کئی امتیازی اسناد لے کر فارغ ہوا۔1970ءمیں میرا بھتیجا مقبول احمد کالج میں تھا۔ وہاں نیشنل کیڈٹ کورNCC کے تحت فوجی تربیت شروع ہوئی کیڈٹس کو چھاﺅنی میں بلوچ رجمنٹ کی بیر کس میں رکھا گیا۔ نومبر1971ءمیں تربیت مکمل ہوئی۔ دوران تربیت میں بھی کبھی کبھی بھتیجے کو ملنے جاتا رہتا تھا۔ وہاں ان کے انسٹرکٹرز، کیپٹن اور میجر سب ہی سے ملاقات ہوئی تھی۔ تربیت کے بعد لڑکے فارغ کر کے واپس بھیج دیئے گئے۔ نومبر کے ہی آخری ہفتہ میں کیڈٹس کو دوبارہ کال کر لیا گیا۔
دسمبر1971ءکو بعد دوپہر پاک بھارت جنگ شروع ہوئی۔ رات کو میں کیڈٹس کے ٹریننگ سنٹر پر بھتیجے اور دیگر نوجوانوں کی خیریت معلوم کرنے گیا تو معلوم ہوا تمام کیڈٹس کو گنڈا سنگھ والا بارڈر پر پنجاب رجمنٹ کے ساتھ ریزرو میں رکھا گیا ہے۔ کیڈٹس اسی مقصد کے لئے تیار کئے گئے ہیں ان کی ٹریننگ مکمل ہوتے ہی ان کی ضرورت پڑ گئی۔ لڑکوں کو فوجی تربیت دینے کا یہی مقصد ہے کہ بوقت ضرورت فوج کی نفری میں اضافہ کریں۔
دو تین دن کے بعد میں نے گنڈا سنگھ والا جانے کا قصد کیا۔ ابھی قصور سے دور ہی تھے کہ فوج نے ہمیں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ ہمیں کہا گیا کہ آ گے میدان جنگ ہے فوج آپ کی خاطر لڑ رہی ہے۔ انہیں لڑنے دیں اور ان کے غالب آنے کی دعا کریں ہم واپس آ گئے۔ سیز فائر ہو گئی۔ ہم پھر گنڈاسنگھ والا کے لئے نکلے اور ان کیڈٹس تک جا پہنچے۔ پنجاب رجمنٹ کی جس کمپنی کے ساتھ یہ کیڈٹس تھے اس کمپنی نے دریائے ستلج کے پار کافی دور تک بھارتی سر زمین پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ بھارت کا سب سے مضبوط مورچہ قیصر ہند ہمارے فوجیوں کے پاﺅں تلے روندا جا چکا تھا۔ عجیب منظر تھا۔ جوش و جذبہ میں بے اختیار مُنہ سے نعرہ تکبیر بھی بلند ہوا۔ جنرل محمد اعظم خان نے کیڈٹ کور کی جو بنیاد1952ءمیں رکھی تھی ،20 سال بعد اس ٹریننگ کا فائدہ سامنے آیا۔
پہلے قوم کو زندہ رکھنے کے لئے ٹریننگ بھی دی جاتی تھی۔14 اگست اور 23 مارچ کو فوجی پریڈ کر کے قوم میں ایک ولولہ پیدا کیا جاتا تھا۔ اب نہ ایسی تربیت کا تصور ہے۔ نہ فوجی پریڈ قوم مردہ نظر آتی ہے ہم اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ دوسری قومیں ہمیں ڈرانے دھمکانے سے باز نہیں آتیں۔ اپنے ہی بندے مارنے کے لئے ہمیں اکساتی ہیں۔ do more کا مطالبہ کرتی ہیں اور ہم بے بس بے کس نظر آئے ہیں کیڈٹس تیار ہوتے رہتے تو ملک میں جتنی فوج ہوتی اتنے ہی تربیت یافتہ کیڈٹس بھی ہوتے۔ اپنی بقا کے لئے ہر پاکستانی کو مادر وطن کی عزت و آبرو بچانے کے لئے محب وطن فوجی بننا پڑے گا۔
اگر ایسا نہ ہوا تو دہشت گردوں کی فصل کو پروان چڑھنے سے روکنا مشکل ہو گا۔مَیں جون1999ءمیں بیت اللہ شریف سے ظہر کی نماز پڑھ کر باہر آ رہا تھا۔ ایک بنگالی دکاندار نے مجھے آواز دے کر بلایا۔ کہنے لگے آپ پاکستانی ہیں۔ سیاچن پر آٓپ کی گرفت مضبوط ہے۔ بھارت سے 1971ءکا بدلہ لے لینا اللہ معافی دے ہمارے تو اپنے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔ہم کس کس سے بدلہ لیں۔ جب سے یہودیوں کو حکم ربی پر مدینہ منورہ سے نکالا گیا ہے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف مستقل سازشیں کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک و قوم کو ایک تکون نے گھیرا ہوا ہے۔ اسرائیل پلان بناتا ہے امریکہ سرمایہ لگاتا ہے بھارت ہمارے ملک میں ہنگامہ آرائی کے لئے تربیت کرتا ہے اس طرح ان تینوں شیطانوں نے ہمیں اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے۔ اس حصار کو توڑنے کا قرآن مجید نے ہمیں تیر بہدف نسخہ دیا ہوا ہے۔ اس نسخہ پر عمل ہو جائے تو ہماری اس نرغہ سے نجات اور ان طاقتوں پر غلبہ ہرگز مشکل نہیں۔
قرآن کریم کے دسویں پارے میں سورة انفال رکوع 4 آیت 60 میں یہ نسخہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔اور ان کافروں کے لئے ہتھیار اور پلے ہوئے گھوڑے جس قدر تم سے ہو سکے تیار رکھو۔ ان کے ذریعے سے تم ان پر رعب جمائے رکھو جو اللہ کے اور تمہارے دشمن ہیں۔ اور ان کے علاوہ دوسرے کافروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے۔ اللہ ہی ان کو جانتے ہیں۔ اور اللہ کے راستے میں تم جو بھی خرچ کرو گے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کوئی کمی نہ ہو گی۔اللہ کرے ملک و قوم اس طرف آ کر فلاح پا لے اللہ کریم مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو (آمین)