پنجاب پولیس اور عوام

پنجاب پولیس اور عوام
پنجاب پولیس اور عوام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پولیس کے رویوں کی بات کی جائے تو عوام کے ذہن میں فوراً منفی تاثر ابھرتا ہے، کسی سے بھی پولیس کے بارے میں بات کریں فوراً اس کی زبان پر پولیس والوں کے کرپٹ ہونے کے الفاظ رواں ہو جاتے ہیں، غرضیکہ ہر کوئی پولیس پر تنقید کرتا نظر آتا ہے اور پولیس کے خلاف شکایات کا لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے۔ ان شکایات کے برعکس اگر پولیس کے اوقاتِ کار کی طوالت اور ذمہ داریوں کو دیکھا جائے تو ہر ذی شعور کو اس بات کا اداراک ہے کہ پولیس جتنا کام کوئی اور محکمہ نہیں کرتا ۔ کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں جس کی آپ کو یا د آئے، وہ آپ کا سچا دوست ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ جب کوئی حادثہ یا نا خوشگوار واقعہ پیش آتا ہے، تو مشکل کی اس گھڑی میں وہ پولیس کو ہی اپنی مدد کے لئے پکارتے ہیں،کیونکہ انہیں اِس بات کا بخوبی علم ہے کہ اور کوئی محکمہ پہنچے نہ پہنچے، پولیس ضرور میری مدد کو آئے گی۔پولیس اہلکار اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر، ہرطرح کے حالات میں مدد کو پہنچتے ہیں۔ پولیس پر میڈیا اور عوام ہمیشہ تنقیدہی کرتے ہیں،لیکن کسی نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جو کام کرتا ہے، غلطی بھی اسی سے ہوتی ہے، چونکہ پولیس سب سے زیادہ کام کرتی ہے، لہٰذا غلطی کا امکان بھی دیگر محکموں سے زیادہ ہے۔


خوشی ، غمی ، عید سمیت دیگر تہواروں، تعلیمی اداروں، مارکیٹوں،مذہبی محافل، جلوسوں میں عوام کی حفاظت کے لئے شدید ترین موسم میں بھی طویل ڈیوٹیاں دینے والے پولیس اہلکاروں کا ٹی وی شوز اورسٹیج ڈراموں میں جس طرح مذاق اُڑایا جاتا ہے، کیا یہ ہمیں زیب دیتا ہے؟ اور شکایت پھر بھی پولیس والوں سے کہ وہ ہمیں عزت نہیں دیتے۔بھائی عزت تو کسی کو عزت دے کر ہی ملتی ہے۔ ایسے پروگرام دیکھ کر ان کے گھر والے کیا کہتے ہوں گے کہ جن لوگوں کی حفاظت کے لئے آپ جان بھی دیتے ہیں،وہ آپ کی عزت کرنے کی بجائے تمسخر اُڑاتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کسی مہذب معاشرے میں کسی سطح پر یونیفارم فورس کا مذاق اڑانے اور انہیں اس طرح ذلیل کرنے کا سوچا بھی جا سکتاہے ؟


موسم کی شدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خاص طورپر موسم گرما میں50 ڈگری درجہ حرارت میں باوردی کانسٹیبل بلٹ پروف جیکٹ اور 30کلو کی گن اُٹھائے جب چھتوں اور سڑکوں پر کھڑے ہو کر فرائض کی ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں، توکیا معاشرے کے کسی فرد نے کبھی اس اہلکار کے چہرے پر فرض کی ادائیگی کے پیچھے اس کی آنکھوں میں چھپی اس حسرت کو پڑھنے کی کوشش کی ہے کہ آج عید پر اس کے بچے کتنی شدت سے اس کا انتظار کر رہے ہوں گے؟کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ تفریحی مقامات پر جب بچے اپنے والدین کے ہمراہ سیرو تفریح میں مشغول ہوتے ہیں تو کچھ فاصلے ان کی سیکیورٹی کے فرائض ادا کرنے والا کانسٹیبل گھر جا کر اپنے بچوں کو کس طرح بہلاتا ہو گا؟کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ جن اداروں میں ان کے بچے اچھے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں،اس ادارے کی چھت پر کھڑے اہلکار اپنے بچوں کوان اداروں میں تعلیم دلانے کا سوچ بھی سکتے ہیں۔ تمام تر معاشرتی بے حسی ، نفرت ، تنقید،تمسخر اورشدید ترین نقطہ چینی کے باوجود پنجاب پولیس فرائض کی ادائیگی میں دن رات مصروف عمل ہے۔ دیگر حکومتی اداروں کی کارکردگی کا پولیس سے موازنہ کیا جائے تو عام آدمی کو بھی اندازہ ہوجائے کہ محکمہ پولیس دیگرمحکموں سے کئی گنا بہتر انداز میں کام کر رہا ہے۔موجودہ آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا نے عوام کی سہولتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور پولیسنگ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے محکمے میں بہت سے اقدامات کا آغاز کیا ہے، جن میں سنٹرل پولیس آفس لاہور میں پولیس کمپلینٹ سنٹر 8787کا قیام، جوہفتے کے سات دِنوں میں چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے۔ اس سنٹر میں عوام پولیس کے غلط رویئے ، ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونا، تفتیش میں تاخیر اور کرپشن سے متعلق اپنی شکایات ایس ایم ایس یا کال کے ذریعے درج کروا سکتے ہیں۔


قتل کی تفتیش کو تیز کرنے کے لئے صوبے بھر میں ہومی سائیڈ یونٹس کا قیام ، سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کے لئے ڈولفن فور س اورپولیس ریسپانس یونٹ کی پٹرولنگ اور پنجاب کی باؤنڈریز کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے دریائی اور بین الصوبائی چیک پوسٹوں، ہائی ویز اور دیگر شاہراہوں پر سفر کو محفوظ بنانے کے لئے پیٹرولنگ پولیس سے مزید فعال انداز میں کام لینے کے لئے ان کو متعلقہ ڈی پی اوز کے سپرد کرنا، چند ایسے ہی قابلِ تعریف اقدامات ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت پنجاب کی طرف سے صوبے بھر میں جاری ترقیاتی پراجیکٹس پر کام کرنے والے چینی اور دیگر غیر ملکی ماہرین کی سیکیورٹی کے لئے سپیشلائزڈ پروٹیکشن یونٹ (SPU) کا قیام، ریٹائرڈ پولیس افسران ، اعلیٰ شخصیات اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس کے ساتھ Unauthorizedگاڑیوں اور عملے کی واپسی اور واپس کئے گئے عملے میں خانسامے، لانگری، ڈرائیور، مالی، خاکروب اور درجہ چہارم کے دیگر ملازمین کی پولیس لائنزمیں تعیناتی،صوبے بھر میں افسروں کی تعیناتی،ترقی اور دیگر تمام دفتری معاملات میں میرٹ کو ترجیح دینا، مجرموں کی گرفتاری اور صوبے بھر میں ہونے والی وارداتوں کے بارے میں 24گھنٹے مانیٹرنگ کے لئے Beat Books کی تشکیل، تفتیشی عمل کو تیز کرنے اور بروقت انصاف کی فراہمی کے لئے پہلی بار سپیشلائزڈ انوسٹی گیشن یونٹس کا قیام، جس میں سر دست ہومی سائیڈ سیل کی تشکیل،کرائم سٹریٹ کے خاتمے کے لئے لاہور میں ترکی ماڈل ڈولفن پولیس کا قیام، دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کی تشکیل نو اور افسروں کی جدید ترین تربیت اور 1500کارپورلز کے تین بیجز کی پاسنگ آؤٹ،پنجاب پولیس کی تاریخ کے سب سے بڑے 504خواتین پر مشتمل بیج کی پاسنگ آؤٹ، پولیس فورس کے رجحانات جانچنے،ان کی پروفائلنگ اور سٹریس مینجمنٹ کے لئے پہلی بار سائیکالوجسٹوں کی بھرتی بھی پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوئی ہے۔


پنجاب پولیس میں بھرتیوں کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے سسٹم کو آؤٹ سورس کر دیا گیاہے اور تمام بھرتیاں این ٹی ایس کے ذریعے کی جا رہی ہیں۔ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کو مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے، جس نے ہر قسم کی Malpractice کاتقریباً خاتمہ کیا ہے۔ افسروں اور اہلکاروں کے احتساب کے لئے انٹرنل اکاؤنٹیبلٹی کا ایک سخت ترین سسٹم بنایا گیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کے 5بڑے شہروں میں سی ٹی ڈی تھانوں کا قیام، ٹریفک انتظامات کو بہتر کرنے کے لئے صوبے بھر میں ٹریفک ڈیپارٹمنٹ کی تشکیل نوء اور تمام شہروں میں وارڈن سسٹم شروع کرنے کا فیصلہ، صوبے بھر میں ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والوں اورڈرائیونگ لائسنسوں میں جعل سازی کو روکنے کے لئے قربان لائن لاہور میں کمپیوٹرائزڈ لائسنس آٹومیشن سسٹم لگایا گیا ہے،جو براہِ راست 36 اضلاع کے ساتھ منسلک ہے۔ اضلاع میں پولیس افسروں کی 24/7موجودگی کو یقینی بنانے اور بجٹ کو کنٹرول کرنے کے پیشِ نظرویڈیولنک آرپی او کانفرنس کا سلسلہ جاری ہے۔دوسرے صوبوں سے ملحق پنجاب باؤنڈریز پرجدید ترین کمپیوٹرائزڈچیک پوسٹوں کا قیام، خواتین کے خلافHarassmentکی روک تھام کے لئے انکوائری کمیٹی کا قیام، ضربِ عضب، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے صوبے میں موجود 14ہزار مدرسوں کی جیوٹیگنگ کرنا، نفری کی مورال بوسٹنگ اور ویلفےئر کے لئے پہلی بار سینئر افسروں کی بجائے چھوٹے افسروں اور اہلکاروں کے ذہین بچوں کے لئے پولیس ویلفےئر سے تعلیمی فنڈزکا اجراء،چھوٹے افسروں اور اہلکاروں کو میڈیکل سہولتوں کی فراہمی اور دوران ڈیوٹی شدید زخمی ہونے کی حالت میں آپریشن اور دیگر طبی سہولتوں کے لئے ہسپتالوں میں میڈیکل ڈیسک کا قیام، دہشت گردوں، سنگین مجرموں اور اشتہاریوں کے خلاف دوران ڈیوٹی غیر معمولی جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرنے والے افسروں اور اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے مستقل بنیادوں پر کیش ریوارڈا ور تعریفی اسناد کی تقسیم کا سلسلہ جاری، پنجاب بھر کے 202تھانوں میں فرنٹ ڈیسک کا قیام ، پنجاب پولیس کی ویب سائٹ کی اپ گریڈیشن اور تمام لاوارث لاشوں، دہشت گردوں،اشتہاریوں اور گھروں میں کام کرنے والی ریکارڈ یافتہ خواتین کی تصاویر اور کرائم کے بارے میں مکمل تفصیل کی ویب سائٹ پر دستیابی بھی تبدیلی کی طرف اہم پیشرفت ہے۔


میڈیا کی اہمیت اور افادیت کا احساس کرتے ہوئے میڈیا کے نمائندوں کومعلومات کی بروقت فراہمی کے لئے ڈی پی آر برانچ آئی جی آفس میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس میڈیا سیل DPR کی نگرانی میں قائم کیا گیا ہے ڈی پی آر برانچ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب عامر ذوالفقار خان جیسے قابل اور پیشہ وارانہ اہمیت کے حامل آفیسر کو ذمہ داریاں دینا آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کا موزوں اور بر وقت فیصلہ ہے،جس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں ۔ ڈی پی آر برانچ بغیر کسی تعطیل کے 24/7 اپنا کام کر رہی ہے، جس سے نہ صرف محکمہ پولیس کی کارکردگی اور امیج میں بہتری آئے گی،بلکہ صحافیوں کوبھی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بہت آسانیاں ہوں گی۔ درست معلومات کی بروقت عدم دستیابی کے باعث انہیں، جن مسائل کا سامنا تھا اس میں کافی حد تک آسانی ہو گی۔ پنجاب پولیس کے 700 سے زائدشہیدوں کی قربانیاں اور ان کے خاندانوں کا مستقل کرب اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب پولیس ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لئے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتی اورانہی قربانیوں اور فرائض کی جرات مندانہ ادائیگی کا ہی نتیجہ ہے کہ اعداد و شمارکے مطابق صوبے میں دہشت گردی اور قتل کی وارداتوں کا گراف نیچے آرہا ہے۔

مزید :

کالم -