دہرے ویلیوایشن کے نفاذسے ملک کی تعمیراتی صنعت کو شدید نقصان ہورہا ہے
انٹرویو : نعیم الدین، غلام مرتضیٰ
تصاویر: عمران گیلانی
تعارف: ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز آف پاکستان (آباد) کے چیئرمین محسن شیخانی معروف بلڈر ابوبکر شیخانی کے بیٹے ہیں ، ان کا شمار ’’آباد‘‘ کی نوجوان قیادت میں کیا جاتا ہے اور انہوں نے بلڈرز ور ڈیویلپرز کے مسائل کو حل کرنے کیلئے بہت جدوجہد کی ہے ۔ اس حوالے سے وہ اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں ، انہوں نے تعمیراتی صنع کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے بہت زیادہ کاوشیں کی ہیں۔ محسن شیخانی حنا ہاؤسنگ پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر ہیں اور انہوں نے متعدد بہترین رہائشی پروجیکٹس تعمیر کیے ہیں۔ روزنانہ پاکستان نے محسن شیخانی سے خصوصی بات چیت کی جس کا احوال قارئین کی نذر ہے۔
بزنس پاکستان : موجودہ حکومت نے پراپرٹی کے حوالے سے جو نئی پالیسی مرتب کی ہے، اس کے ملک کی تعمیراتی صنعت پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں ؟
محسن شیخانی : بجٹ کے اعلان کے بعد جائیداد کی فیئرمارکیٹ ویلیو کے حوالے سے نئے اقدامات عمل میں لانے کی بات چلنے لگی۔ جائیداد کی فیئر مارکیٹ ویلیو اور حقیقی مارکیٹ ویلیو میں بہت زیادہ فرق تھا ، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے اور یہ فرق گذشتہ 65 سال سے چلا آرہا ہے۔ ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ جائیداد کی خریدوفروخت حقیقی ویلیو کے مطابق ہونی چاہیے لیکن ان تمام اقدامات کو مرحلہ وار کرنے کی ضرورت ہے ایک دن میں آپ تمام چیزوں کو یکدم بدل نہیں سکتے ہیں ان میں بتدریج تبدیلی لائی جانی چاہیے۔ حکومت نے دیکھا کہ ریئل اسٹیٹ مارکیٹ بہت اچھی جارہی ہے صرف ڈیفنس اور کلفٹن جیسے پوش علاقوں میں ان رہائشی علاقوں کا تناسب صرف5 تا 7 فیصد ہے۔ حکومت نے جو نئے ٹیکس مذکورہ پوش علاقوں پر عائد کئے انہی ٹیکسوں کا اطلاق پورے پاکستان پر بھی کردیا جس کی وجہ سے حکومت نے پورے ملک کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے بیرون ملک مقیم پاکستانی ، پاکستان میں پیسہ اس لیے بھیج رہے ہیں تھے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے حالات بتدریج خراب ہوتے جارہے ہیں ، دہشتگردی کی وجہ سے بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی کی عزت و تکریم میں واضح کمی واقع ہوئی ہے اور آنے والے وقتوں میں انہیں اپنے ملک میں آنا پڑے گا جس کی وجہ سے بیرون ملک مقیم افراد پیسہ اپنے ملک بھیج رہے ہیں۔ جن ممالک میں پاکستانی کام کررہے ہیں وہاں کے سخت قوانین کی وجہ انہیں یکمشت پیسہ بھیجنے میں پہلے ہی شدید پریشانی کا سامنا ہے ، اگر ان کو ہم اپنے ملک میں بھی ڈرا دیں گے کہ ان کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا تو وہ بھاگ جائیں گے اور یقیناًدوسرے آپشنز پر غور کریں گے ۔ بالعموم پاکستان اور بالخصوص کراچی کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کا برا حال تھا کیونکہ یہاں اغواء برائے تاوان، بھتہ اور امن و امان کے مسائل عروج پر تھے۔ آج سے دو سال قبل آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی وجہ سے ملک بھر میں اور خصوصاً کراچی میں امن و امان کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے ، جس میں حکومت کی پالیسیوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ بلکہ یہ فوج اور رینجرز کی وجہ سے ممکن ہوا یہی وجہ تھی کہ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں بھی بہتری آئی لوگوں نے سکون کا سانس لیا ، لیکن حکومت نے مذکورہ نئے ٹیکسوں کا اطلاق کر کے لوگوں کو دوبارہ پریشانی میں مبتلا کردیا۔ حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان سے سرمائے کا انخلاء ہوا جو لوگ پاکستان میں ریئل اسٹیٹ پر سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے بیرون ملک ریئل اسٹیٹ پر سرمایہ کاری کرنی شروع کردی جس کی وجہ سے وہاں ریئل اسٹیٹ کا کاروبار مستحکم ہوا اور جائیدادوں کی ویلیو میں بھی واضح اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ دبئی اور یوکے میں پراپرٹی پر ٹیکسوں کا اطلاق 2 تا 5 فیصد کے تناسب سے کیا جاتا ہے جو یہاں پر عائد کردہ ٹیکسوں سے بہت زیادہ کم ہے اس لیے لوگ یو کے ، ملائیشیا اور دیگر ممالک میں جائیدادیں خریدتے ہیں۔
بزنس پاکستان : سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، ایف بی آر اور دیگر متعلقہ اداروں سے آپ کو کیا شکایات ہیں؟
محسن شیخانی : وفاقی حکومت کے دہرے ویلیو ایشن کے نفاذ سے ملک کی تعمیراتی صنعت کو شدید نقصان ہورہا ہے۔ اس دہرے نظام کی وجہ سے تعمیراتی سرگرمیوں میں 6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جس کے باعث ڈیویلپرز کو 100 ارب روپے کے مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے تعمیر کردہ رہائش منصوبے ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر ویلیو ایشن کے اس دہرے نظام کو مؤخر نہ کیا گیا تو ایسوسی ایشن کے ممبران اپنا کاروبار بند کردیں گے اور ایف بی آر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ دوسری جانب ایس بی سی اے انفراسٹرکچر کے نام پر گذشتہ 3 سالوں سے بیٹرمنٹ چارجز وصول کررہا ہے جس کی مالیت اب تک 6 ارب روپے ہوچکی ہے لیکن ان چارجز کو کہیں بھی انفراسٹرکچر کیلئے استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔ ڈیویلپرز اپنی رہائشی اسکیموں میں خود پیسے لگا کر یہ کام کررہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بیٹرمنٹ چارجز میں کئی گناہ اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی تعمیراتی منصوبے التواء کا شکار ہوگئے ہیں۔ ڈی سی نظام میں بہتری لانے کے بعد اس کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کراچی ، لاہور اور وفاقی چیمبر آف کامرس سے بھی رابطے کئے ہیں ۔ جب ویلیو ایشن کا یہ نیا نظام متعارف کروایا جارہا تھا ، ’’آباد‘‘ کے وفد نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی تھی اور اس نظام کے نقائص کے بارے میں انہیں آگاہ کیا تھا ، ہم نے پہلے بھی اس نظام کی مخالفت کی تھی اور اب بھی اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ ایچ بی ایف سی کے قرضہ جات کو بھی سیاسی طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو اس ادارے سے بلاامتیاز قرضے ملنے چاہئیں اور اس ادارے کو سیاست چمکانے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف نہیں ہاں البتہ ہماری انڈسٹری کے حوالے سے ہی اختلافات ہوتے ہیں ۔ ہمیں حکومت سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے۔ اپنے کاروبار کے حوالے سے ہمارا واسطہ وفاقی اور صوبائی اداروں سے رہتا ہے۔ ہمارا ان سے یہ اختلاف ہوتا ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ وہ ایسی پالیسیاں متعارف کروائیں جن میں کرپشن کا عنصر غالب نہ ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ پورا پیٹ بھر کر کھارہے ہوں تو آپ ٹیکس دینے کے قابل ہونگے اور اگر آپ اپنا آدھا پیٹ بھر رہے ہوں تو پھر ٹیکس کیسے ادا کرسکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک کی ہاؤسنگ میں 12 لاکھ گھروں کی کمی ہے، پہلے تو اس کمی کو پورا کیا جائے۔ تعمیراتی صنعت وہ شعبہ ہے جس کی مدد سے ملک کے حالات کو بہتر کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب گھر بنیں گے تو متعلقہ صنعتیں بھی چلیں گی ، جس سے لوگوں کو روزگار میسر آئے گا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ تعمیراتی صنعت دراصل ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ہماری حکومت اس بات کو سمجھنے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک کے بہتر مستقبل کیلئے تعمیراتی صنعت کو فری ہینڈ دیا جائے اس کے علاوہ کچی آبادیوں کو بڑھنے سے روکا جائے اور اس کی جگہ لوگوں کو فلیٹ اسکیم دی جائے اور اس حوالے سے باہمی مشاورت سے 50 تا 100 سال کا ماسٹر پلان مرتب کیا جائے۔ کراچی ڈیویلپمٹ اتھارٹی نے ابتداء میں اچھی رہائشی اسکیمیں متعارف کروائیں یعنی ہر طبقے کے لیے رہائشی اسکیم متعارف کروائی اور بڑی منصوبہ بندی سے ان پر عملدرآمد کروایا جو ایک اچھی پیشرفت تھی اسی لیے آج سے 12 تا 18 سال قبل کچی آبادیوں کی تعداد صرف 17 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 50 فیصد ہوچکی ہے ان کچی آبادیوں کو سیاسی طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں تحفط دیا جاتا ہے اور ملک میں دہشتگردی کی جڑیں انہیں کچی آبادیوں میں پنپتی ہیں ۔ اگر بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے ان کچی آبادیوں کو رہائشی اسکیموں میں تبدیل کردیا جائے تو امن و امان کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
بزنس پاکستان : عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کے معاشی اقدامات کی بہت تعریف کی ہے اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
محسن شیخانی : اگر کوئی ملک آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے مطابق چلتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں اُس ملک کا مفاد ہو نہ ہو لیکن آئی ایم ایف کا مفاد بہرحال ہوتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک یا گھر کو اپنے حساب سے چلانا ہے کسی اور کے حساب سے نہیں چلانا ہے۔ آئی ایم ایف ایک طرح کا فنانسر ہے وہ ہمیشہ چاہے گا کہ اس کا پیسہ کس طرح محفوظ رہے ، اس کو اس سے غرص نہیں ہے کہ قرض لینے والے ملک کے مفاد میں کیا ہے ۔ میں یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن چیزوں کو دکھایا جاتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے ۔ میرے خیال میں بہت زیادہ شرح سود پر قرضے حاصل کیے جارہے ہیں ، جو ملکی مفاد میں نہیں۔ اس وقت ہم اپنے ملک کے اثاثہ جات کی گارنٹیاں دے رہے ہیں اور اداروں کو گروی رکھتے جارہے ہیں۔ اس طرح سی پیک بھی قرضے لے کر تعمیر کی جارہی ہے جس کو ہم نے واپس کرنا ہے۔ لوگوں کو حقائق سے آگاہ کیا جانا چاہیے انہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ قرضوں کا تمام پیسہ عوام کے ٹیکسوں سے ہی واپس کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں تمام معاشی و اقتصادی معاملات میں شفافیت اور وطن پرستی کا عنصر شامل ہونا چاہیے۔