پرویز خٹک کی ’’شعلہ بیانیاں ‘‘اپنے وزیر کی تلاشی پر سیخ پا ہو گئے
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
معلوم نہیں یہ پشاور سے اسلام آباد آنے والے کے پی کے وزیر سے اسلحہ اور ممنوعہ مشروب برآمد ہونے کا اثر تھا یا 2 نومبر کے دھرنے کے سلسلے میں درپیش چیلنج نے اعصاب چٹخا دیئے تھے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک باقاعدہ دھمکیوں پر اترے ہوئے اور اپنے پٹھان ہونے کا تذکرہ بھی اس انداز میں کر رہے تھے جیسے کسی کو اس بارے میں شبہ ہو۔ ان کے دھمکیوں کے اس انداز کا تذکرہ تو وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا اور کہا کہ ایک صوبہ وفاق پر حملہ آور ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس بار دھرنے والوں نے پاکستان سکرٹریٹ کے اندر داخل ہونے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ آج اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو اصالتاً طلب کر رکھا ہے، گزشتہ روز ان کے وکلاء نے عدالت میں بعض یقین دہانیاں تو کرا دی تھیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر چودھری نثار علی خان کے پاس یہ اطلاعات ہیں کہ دھرنے والے پاک سیکرٹریٹ کے اندر گھسنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور پرویز خٹک جو شعلہ بار زبان استعمال کر رہے ہیں اس کے بعد امن کی یقین دہانیوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ’’دھرنا ون‘‘ کے موقع پر بھی تو نہ صرف ایسی یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں بلکہ تحریری معاہدہ بھی کیا گیا تھا جس کا پاس نہ کیا گیا اس لئے ان تجربات کی روشنی میں ضروری ہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ شہر کی حفاظت کے بارے میں فول پروف انتظامات کرے اور امن کی دہائی کو سیاسی حکمت عملی کا حصہ قرار دے۔ ویسے عمران خان اور تحریک انصاف کے دوسرے رہنماؤں کے بیانات کو دیکھا جائے تو وہ یقین و اعتماد کی اس قوت سے محروم نظر آتے ہیں جو ان لوگوں کے چہروں اور گفتگو میں جھلکتی ہے جنہیں اپنی کامیابی کا یقین ہوتا ہے۔ ایک طرف تو وہ بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ دھرنا ان کا آخری احتجاج ہے جس کا مطلب وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد کسی احتجاج کی اس لئے ضرورت نہ رہے گی کہ جس حکومت کے خلاف وہ احتجاج کر رہے ہیں وہی نہیں رہے گی آج بھی انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم مستعفی ہوگئے تو ان کا احتجاج جشن میں بدل جائے گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ کہنے کی ضرورت کیا ہے کہ اگر انہیں جیل میں ڈالا گیا تو وہ واپس آکر اپنا احتجاج وہیں سے شروع کردیں گے جہاں ختم ہوا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جب تک زندہ ہیں اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ اب ایک طرف اتنی لمبی پلاننگ ہے بلکہ ’’لائف لانگ پلاننگ‘‘ ہے گویا باقی ماندہ زندگی وہ احتجاج میں ہی گزارنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اعتماد کا یہ عالم ہے کہ ان کے خیال میں دھرنے سے پہلے ہی وزیراعظم کا استعفا آ رہا ہے اور وہ احتجاج کو جشن میں تبدیل کرنے کا میڈیا کے ذریعے اعلان کر رہے ہیں۔ استعفے کا خیال اس سوشل میڈیا سے آیا ہوگا جہاں ہر قسم کی تھڑا گپ شپ ہو رہی ہے اور معروضی اور زمینی حقائق سے بے خبر لوگ جو دل میں آتا ہے پوسٹ کر رہے ہیں۔ پروگراموں کی یہ بوقلمونی بتاتی ہے کہ وہ دھرنے کی کامیابی کے بارے میں بہت زیادہ پرامید نہیں ہیں اگر انہیں دھرنے کی کامیابی کے امکانات کم نظر آئے تو عین ممکن ہے وہ یہ اعلان کردیں کہ اس وقت کارکنوں کی بڑی تعداد میں گرفتاری کی وجہ سے دھرنا ممکن نہیں اس لئے پروگرام ملتوی کر رہے ہیں اور نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کریں گے۔ ایسے سب امکانات آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی پیشی کے بعد واضح ہو جائیں گے۔ راولپنڈی میں شیخ رشید احمد نے لال حویلی کے باہر جس جلسے کا اعلان کر رکھا تھا اس میں پہنچنے کیلئے عمران خان بھی بڑے پریقین تھے لیکن جب انہیں اندازہ ہوا کہ وہاں نہ تو جلسہ ہو رہا ہے اور نہ شیخ رشید احمد خود وہاں پہنچ پائیں گے تو انہوں نے وہاں جانے کا ارادہ ہی ملتوی کردیا اب وہ تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ بنی گالہ میں ہیں اور باہر نکل کر میڈیا سے گفتگو میں پرانی باتیں پرانے لہجے میں دہرا دیتے ہیں۔ دوسری جانب حکومت کی تیاریاں ہیں جن پر لے دے تو بہت ہو رہی ہے لیکن ان سے حکومت کا یہ عزم ضرور جھلکتا ہے کہ اب کی بار پرانی موجیں نہیں ہوں گی اور کوئی رسک بھی نہیں لیا جائے گا غالباً اسی لئے عمران خان کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ 2 نومبر تک اسلام آباد سے باہر رہیں اور دھرنے والے دن ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں ’’نازل‘‘ ہوں لیکن انہوں نے یا تو اس تصور سے اتفاق نہیں کیا یا پھر انہیں اس میں کچھ خطرات نظر آئے کیونکہ اتوار کو انہوں نے ہزارہ جانا تھا وہ وہاں بھی نہیں جاسکے۔ وزیر داخلہ آج اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس میں حکمت عملی کا دوسرا حصہ بیان کریں گے اور اپنے ان اقدامات پر مختصر روشنی ڈالیں گے جو انہوں نے ’’دھرنا پلس‘‘ کو ناکام بنانے اور شہر کو کھلا رکھنے کیلئے کر رکھے ہیں۔
عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہرالقادری نے چند روز پہلے دھرنے میں شرکت کا اعلان کیا تھا لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے اب ان کی اپنی شرکت کا تو امکان نہیں‘ البتہ ان کی جماعت کی ’’ٹوکن نمائندگی‘‘ ضرور ہو جائے گی۔ اسلام آباد میں جو فضا بن چکی ہے اس کے ہوتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد سے بھی ’’تحریک قصاص‘‘ کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔