میراشہید بھائی
تحریر: بشریٰ ملک
بھائی سراپہ شفقت ہوں تو بہنوں کے لئے ان سے انمول رشتہ کوئی نہیں ہوتا۔لیفٹیننٹ کرنل اکرام الحق شہیدکی بہن ہونے کے ناطے میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے اپنے بھائی کی بے پناہ محبتوں اور شفقتوں نے بے پناہ قوت عطا فرمائی ہے۔مجھے اپنے بھائی کی شہادت پر فخرہے۔کوئی ایسا دن یا پہر ایسا نہیں جب میں بھائی کویاد نہ کرتی ہوں ۔ان کی یادوں نے مجھے شہدا ئے وطن سے محبت کا جذبہ عطا کیا ہے بھائی نے اپنی زندگی مادر وطن پر قربان کی ہے۔
میرے بھائی لیفٹیننٹ کرنل اکرام الحق نے 16مارچ 2013کی صبح چلاس کے قریب شاہراہ قراقرم پر ٹریفک کے ایک حادثے میں جام شہادت نوش کیا تھا۔ 2012میں سانحہ گیاری کے بعد یہ دوسرا بڑا حادثہ رونما ہوا تھا کہ جس نے پوری قوم کو مغموم کر دیا۔ چترال سے گلگت جاتے ہوئے شاہراہ قراقرم پر واقع ثمر نالہ کے قریب ایک بس گہری کھائی میں گر گئی تھی اور اس میں سوار 23افسران اور جوان شہید ہو گئے۔
کرنل اکرام الحق نے اس علاقے کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیا تھا ۔اس شیردل افسر نے اکیلے بھی دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور ہمہشہ جزبہ شہادت سے سرشار ہوکر لڑتے رہے۔کرنل اکرام 12جون 1967 میں خوبصورت وادی ہنزہ کے گاؤں علی آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان نے پاکستان کی آزادی کے لئے بے حد قربانیاں دی ہیں۔ انکےوالد فرمان علی آزادی کے مجاہد تھے اور اس ہر اوّل دستے میں شامل تھے کہ جس نے 1947میں ڈوگرہ فوج پر آزادی کے حصول کے لئے پہلی گولی چلائی اور عَلَم بغاوت بلند کیا۔ بھائی نے اپنے اسلاف کی روایات کو آگے بڑھایا اور 1991میں 83پی ایم اے لانگ کورس کے ذریعے افواج پاکستان میں کمیشن حاصل کیا۔ مہم جوئی کے زیراثر اپنی طبیعت کی بدولت 1999میں پاک فوج کی مایہ ناز کمانڈو فورس سپیشل سروس گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ بطور کمانڈو بہت سے خطرناک آپریشنز میں حصہ لیا اور بہادری کے جوہر دکھائے۔2011میں بطور کمانڈنگ آفیسر جنوبی وزیرستان میں تعینات ہوئے۔ وزیرستان میں تعیناتی کے دوران اپنی یونٹ کے ساتھ بہت سے آپریشنز میں حصہ لیا اور خطرناک دہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔ انکی صلاحیتوں اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں دہشت گردی کے خلاف خصوصی ٹاسک فورس کا انچارج بنایا گیا اور پاکستان کے انتہائی شمال مغرب میں سرحد پار افغانستان سے جاری دہشت گردوں کے حملوں کو روکنے کا اہم فریضہ سونپا گیا۔ کرنل اکرام نے ان فرائض کی انجام دہی کے لئے دن رات کام کیا اور ہمیشہ آگے بڑھ کر اپنے جوانوں کی قیادت کی۔
شہید کرنل اکرام نے پسماندگان میں ایک بیوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔ ہماریوالدہ عزم و حوصلے کا عظیم پیکر ہیں۔ والدہ خوش بخت ہیں کہ ان کے تینوں بیٹوں نے افواج پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ کرنل اکرام کے بڑے بھائی امتیاز الحق بطور کرنل ریٹائر ہوئے۔ جبکہ چھوٹے بھائی میجر فرید الحق (AEC)آج کل PMAمیں تعینات ہیں۔کرنل اکرام کے ایک بھتیجے لیفٹیننٹ نوید احمد نے کارگل جنگ کے دوران جام شہادت نوش کیا۔ لیفٹیننٹ کرنل اکرام کی نماز جنازہ میں میجر جنرل ثناءنیازی‘ جو بعد میں خود بھی شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو گئے‘ نے بھی شرکت کی اور بطور خاص کرنل اکرام کے گھر گئے۔ جنرل نیازی نے شہید کرنل اکرام کی جرا¿ت و بہادری کی بے حد تعریف کی۔ چند ماہ کے بعد خود جنرل ثناءاللہ نیازی بھی دہشت گردی کے ایک واقعہ میں شہید ہو گئے۔ شہید کرنل اکرام کو فوجی اعزاز کے ساتھ گلگت میں ا ن کے آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
شہید کرنل اکرام بہت رحم دل اور غریب پرور انسان تھے۔ وہ بطور خاص شہداءکے گھر جاتے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے۔ وہ اپنے جوانوں میں گھل مل جاتے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے حتیٰ کہ سفر کرتے وقت بھی انہوں نے اپنے جوانوں کا ساتھ نہ چھوڑا اور جوانوں کے ساتھ ایک ہی بس میں سوار ہو کر چھٹی جانے کو ترجیح دی۔وہ باحوصلہ تھے اور جوانوں کے ساتھ ہر مشکل کام میں ان کا ساتھ دیتے اور انہیں تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔
لیفٹیننٹ کرنل اکرام الحق شہید نے اپنی شہادت سے کچھ وقت پہلے اپنے ایک جانباز لانس نائیک شرافت دین کی شہادت پر بڑا ولولہ انگیز خطاب کیا تھا جو آج بھی وادیوں میں پاکستان کی سالمیت کا نعرہ بن کر گونجتا اور وطن کے بیٹوں کو ان کی جرا توں پر سلام کا مدعا بیان کرتا ہے۔لیفٹیننٹ کرنل اکرام الحق شہید اس جانباز کی شہادت پر اسکے گھر دو بار گئے اور اس سے قبل بھی وہ اسکے ساتھ اگلے مورچوں میں جاتے رہے ۔لانس نائیک کی شہادت پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نہیں انہیں خاص طور پر شہید جانباز کے گاو¿ں بھیجا اور انہوں نے نماز جنازہ کے بعد جو خطاب کیا اس میں کہا”میرے دوستو،میرے بھائیو،میرے بزرگو۔اسلام علیکم ۔ہر انسان نے ایک روز موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن بعضوں کی موت بڑی عظمتوں والی ہوتی ہے۔پاک فوج کا ہر جوان ایسی موت کا طلب گار ہے۔جب ہم پاک فوج میں بھرتی ہوتے ہیں تو پاسنگ آو¿ٹ پریڈ سے پہلے قسم پریڈ لیتے ہیں۔اس پر یڈ میں ہم اپنی قوم اور ملک سے وفاداری کا حلف لیتے ہیں۔ہم اپنے آپ سے وعدہ کرتے ہیں،اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اپنی جان اپنے ملک و قوم پر قربان کردیں گے۔بحثیت فوجی ہماری زندگی پہلے دن سے آخری دن تک اللہ کی امانت ہوتی ہے۔زندگی کے جتنے دن بھی ہیں ،یہ غنیمت ہوتے ہیں ۔جب موت آتی ہے تو یہ موت شہادت کی موت کہلاتی ہے۔ایک ابدی حیات۔آج لانس نائیک شرافت دین شہید ہوا ہے تو کل ہم بھی فرض ادا کرتے ہوئے اس عظیم رتبہ کو حاصل کریں گے۔انشاءاللہ۔اللہ کریم نے شہید کو بڑا درجہ دیا ہے۔اللہ کا وعدہ ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے مگر ہمیں اسکا شعور نہیں۔اس کو رزق ملتا ہے اور اللہ اپنے وعدے میں سچا ہے۔لانس نائیک اب اللہ کے پاس ہے اور زندہ ہے ،ابدی زندگی کے لئے زندہ ہوگیا ہے۔اگرچہ ہم کو اسکی موت پر غم ہے اسلئے کہ ہمارا دوست،ہمارا رفیق،ہمارا ہمدرد بھائی ہم سے جداہوگیا لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ وہ اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگیا ہے اور ایک بڑے درجہ میں چلا گیا ہے۔آپ کو اپنے اس جانباز کی شہادت پر فخر ہونا چاہئے ۔آپ کے گاو¿ں کی زمین پر وہ شہید سورہا ہے جس کی قبر پر پاک فوج کا جھنڈا لہراتا رہے گا اور پاک فوج اس جانباز پر فخر کرتی رہے گی“
اس وقت جب وہ خطاب کررہے تھے ایک نور سا انکے گرد پھیلا ہوا تھا اور انہیں ایک عظیم موت کی نوید دے رہا تھا۔پاک فوج کو لیفٹیننٹ کرنل اکرام الحق شہید جیسے ہر افسر پر فخر ہے ۔وہ بہنوں کا مان اور وطن کی شان ہوتے ہیں۔