کیا کپتان کو کھلاڑی شرمندہ کراتے رہیں گے؟
ہاں آئی جی اسلام آباد نے یہ غلطی تو کی کہ ایک وفاقی وزیر کا فون نہیں سنا، لیکن اس سے بھی بڑی غلطی سینیٹر اعظم سواتی نے کی کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ وزیراعظم سے کہہ کر آئی جی کو تبدیل کرا دیا۔ اب ایسے جلد بازی کے کاموں کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو اس کیس میں نکلا۔ سپریم کورٹ نے آئی جی کو تبدیل کرنے کا حکم معطل کر دیا اور سخت ریمارکس بھی دیئے۔ نئے پاکستان کا تصور ایسے ریمارکس سے کرچی کرچی ہو جاتا ہے جو چیف جسٹس ثاقب نثار نے دیئے۔انہوں نے کہا یہ ہے وہ نیا پاکستان جس میں وزیراعظم کے زبانی حکم پر آئی جی کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ مَیں نے چند روز پہلے بھی اپنے کالم میں لکھا تھا کہ بعض اوقات کپتان پر ترس سا آنے لگتا ہے۔
ان کے اردگرد جو لوگ موجود ہیں، انہیں اس بات کی تو پڑی ہوئی ہے کہ ان کا ذاتی کروفّر نمایاں رہے، لیکن انہیں یہ فکر نہیں کہ وزیراعظم عمران خان حکومت کا امیج بہتر بنانے کے لئے کتنے پاپڑ بیل رہے ہیں۔ وہ سادگی و انکساری کے ساتھ ایک ایک قدم اٹھا رہے ہیں۔ اُدھر وزراء ہیں کہ روزانہ ہی کوئی نیا چاندچڑھا دیتے ہیں۔ اعظم سواتی تو پہلے بھی عمران خان کے لئے مسائل پیدا کرتے رہے ہیں، مگر اس بار تو انہوں نے حد ہی کر دی ہے۔ ایک معمولی سا معاملہ جسے وہ انا کا مسئلہ بنائے بغیر آسانی سے حل کر سکتے تھے، نجانے کسگھمنڈ میں یہاں تک لے آئے کہ پوری حکومت کے لئے شرمندگی و ہزیمت کا باعث بن گئے۔ کیا وزراء میں کامن سینس کی کمی ہے یا پھر وہ وزارتیں ملنے کی وجہ سے عقل و شعور سے بے گانہ ہوتے جا رہے ہیں۔
اگر وزیر کے کسی فارم ہاؤس کے ساتھ غریبوں کی کوئی بستی ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کا خیال رکھے، ان کے مسائل حل کرے، لیکن یہاں تو ایک بھینس کے فارم ہاؤس میں گھسنے کی پاداش میں غریبوں کا جینا حرام کیا گیا، جب انہوں نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق تھوڑی مزاحمت کی تو پولیس کو حکم دیا گیا کہ وہ انہیں نشان عبرت بنا دے۔ اب یہ تو ثابت ہو گیا کہ پولیس اب نئے پاکستان کی ہے، جس کے بارے میں عمران خان بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ جب پولیس نے خلاف قانون کام کرنے سے انکار کیا تو اعظم سواتی نے آئی جی کا قبلہ درست کرنے کی ٹھانی۔ لگتا ہے آئی جی یہ جان چکے تھے کہ معاملہ کیا ہے؟ اس لئے انہوں نے ان کا فون سننے سے اجتناب کیا، جس پر انہوں نے وزیراعظم کو کہہ کر آئی جی کا تبادلہ کرا دیا۔
اب لاکھ یہ کہا جائے کہ آئی جی کو تبدیل کرنے کی سمری پہلے سے تیار تھی یا نئے آئی جی کی تقرری کے لئے انٹرویوز بھی ہو چکے تھے، اس بات سے تو اٹارنی جنرل نے بھی سپریم کورٹ میں انکار نہیں کیا کہ تبادلہ وزیراعظم کے زبانی حکم پر کیا گیا۔اگر سمری کافی دنوں سے تیار تھی تو تبادلہ اس کے تحت کیوں نہیں کیا گیا؟ وزیراعظم عمران خان کے زبانی حکم سے لگتا ہے کہ اعظم سواتی نے انہیں اپنی مظلومیت کی کچھ ایسی داستان سنائی کہ ان کا دل پسیج گیا اور انہوں نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ہی کو حکم جاری کر دیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ ماضی کی ساری کہانیوں کو بیان کرنے والے آخر کیوں اس قسم کی کہانیوں کو جنم دے رہے ہیں؟
کیا وزیراعظم عمران خان کو علم نہیں تھا کہ سندھ میں آئی جی کی تبدیلی کتنے عرصے تک وجہ نزاع بنی رہی۔ کیا وہ خود اپنے جلسوں میں اس کا ذکر نہیں کرتے تھے کہ سندھ میں آصف علی زرداری ایک ایماندار پولیس افسر کو ٹکنے نہیں دے رہا اور پولیس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ پھر ابھی تازہ تازہ واقعہ ڈی پی او پاکپتن کا پیش آیا ہے، جس پر سپریم کورٹ نے سخت ایکشن لیا اور ذمہ داروں کو معافی مانگنا پڑی۔ پھر یہ اندھا دھند قسم کا تبادلہ کیوں کیا گیا، اس کے قانونی و ضابطے کے تقاضے کیوں پورے نہیں کئے گئے ؟کیا وزیر اعظم عمران خان واقعی ایسے لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں جو حکومت بننے کے بعد خود کو مغل بادشاہ سمجھنے لگے ہیں؟ کیا اعظم سواتی کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ اپنی ذاتی لڑائی میں پوری حکومت کو ملوث کر دیں۔
آئی جی نے فون نہیں سنا تھا تو خود ان کے دفتر چلے جاتے۔ اس ملک میں کتنے فیصد لوگ ہیں جو آئی جی کو براہ راست فون کر سکتے ہیں۔ یہاں تو عام آدمی کو علاقے کا ایس ایچ او دستیاب نہیں ہوتا۔ آئی جی تو ایک خواب و خیال ہے۔ پھر ایسی کون سی قیامت آ گئی تھی کہ فوراً ہی مسئلہ حل کرانا تھا۔ آئی جی نے فون نہیں سنا تھا تو سیکرٹری داخلہ سے بات کر سکتے تھے۔ وزیر مملکت داخلہ شہر یار آفریدی کو کہہ سکتے تھے۔ یہ سیدھا آئی جی کو تبدیل کرانے کا نسخہ انہوں نے کس خمار میں استعمال کیا؟ اندھے کو بھی پتہ تھا کہ اس طرح کا تبادلہ موجودہ حالات میں قابل قبول نہیں ہوگا، مگر اعظم سواتی کو اس کی کچھ خبر نہیں تھی۔ وہ اپنے کپتان کو بھی انا کی آگ میں جھونک کر شرمندہ کرا بیٹھے۔
مَیں اس امر کی بھی کئی بار نشاندہی کر چکا ہوں کہ موجودہ حالت میں بیورو کریسی اور پولیس کو مادر پدر آزادی نہیں دی جا سکتی، کیونکہ اس میں اتنی کمٹ منٹ نہیں کہ عوام کی توقعات پر پورا اتر سکے۔ ٹخنوں تک کرپشن میں ڈوبی ہوئی اس بیورو کریسی کو اگر یہ چھوٹ دے دی گئی کہ اس سے نہ تو کوئی پوچھ سکتا ہے اور نہ تبدیل کر سکتا ہے تو پھر فرعونیت کے مظاہرے کچھ اور بھی زیادہ نظر آئیں گے۔ بنیادی طور پر آئی جی اسلام آباد کی یہ غلطی ہے کہ انہوں نے ایک وزیر کا فون نہیں سنا۔ یہ بھی انانیت کی ایک شکل ہے۔ انہیں فون سننا چاہئے تھا، بھلے وہ ان کا کام نہ کرتے۔
اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جو پولیس افسر ایک وفاقی وزیر کا فون نہیں سنتا ،وہ عام آدمی کے مسائل کہاں سنتا ہو گا؟ایک طرف وزیراعظم عوام کو پاکستان سٹیزن پورٹل کے ذریعے اپنے تک رسائی دے رہے ہیں اور دوسری طرف آئی جی وفاقی وزیر تک کا فون سننے سے انکاری ہیں۔ یہ بھی تو ایک دو عملی ہے۔ چیف جسٹس خود کئی معاملات میں دیکھ چکے ہیں کہ سرکاری افسران کس طرح عوام کی اذیت کا سامان پیدا کرتے ہیں اور با اثر نیز مالدار لوگوں کو سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ لانڈھی جیل کراچی میں قتل میں سزائے موت کے مجرم شاہ رخ جتوئی کی شاہانہ زندگی کو چیف جسٹس نے خود پکڑا، سپرنٹنڈنٹ جیل کو معطل کیا جو اگلے دن بحال ہو گیا۔
خلقِ خدا کو جس قدر عذاب میں بیورو کریسی، پولیس اور چھوٹے بڑے سرکاری کارندوں نے مبتلا کر رکھا ہے،اس سے کون لا عِلم ہے۔ اِس لئے اگر ہم نے موجودہ حالات میں عوامی نمائندوں کو سرکاری افسروں کے لئے اچھوت بنا دیا تو عام آدمی کی داد رسی کے لئے متبادل نظام کیا ہے؟ ہر شہری کی خواہش ہے کہ ہمارے سرکاری دفاتر اذیت گھر نہ بنیں، ان کے لئے راحت کا سامان پیدا کریں۔ وہ اپنے مسائل کے حل کی خواہش لے کر سرکاری محکموں میں جائیں تو ان سے غلاموں جیسا سلوک نہ کیا جائے۔ تھانوں میں ان کی داد رسی کی جائے۔ ظالم کے ساتھ مل کر ان کی زندگی اجیرن نہ کی جائے، مگر یہ سب کچھ تو تبھی ہوگا جب دفتروں اور تھانوں میں بیٹھے ہوئے سرکاری اہلکار خود کو آقا سمجھنا چھوڑ دیں گے۔
پاکستان میں سرکاری افسروں کے لئے سزا ہوتی کیا ہے، ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ، ان پر یہ خوف بھی ہٹا دیا گیا تو پھر کون سا ایسا طریقہ ہے جو انہیں عوام کی خدمت پر مجبور کر دے گا۔ عمران خان کے خیر خواہوں نے انہیں پہلے بھی باور کرایا تھا اور اب اس واقعہ کے بعد بھی ان کے لئے پیغام یہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت پچھلے معیارات پر نہیں چل سکتی۔ تحریک انصاف کو مینڈیٹ ملا ہی اس بات کا ہے کہ وہ پرانے نظام کے جبر سے عوام کو نجات دلائے گی، لیکن اگر اعظم سواتی جیسے وزراء اپنی ذاتی زندگی کے مسائل بھی حکومت کی طاقت سے حل کرنے کی راہ پر چل نکلیں گے تو یہی سمجھا جائے گا کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔
اس واقعہ کی اہمیت یہ نہیں کہ آئی جی کو بدلنے کا فیصلہ معطل کر دیا گیا، بلکہ اس کی اصل اہمیت یہ ہے کہ ایک وفاقی وزیر نے انتہائی معمولی سے جھگڑے کو اپنی وزارت کے غرور میں اتنا طول دیا کہ حکومت کی ساکھ داؤ پر لگ گئی۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامی عمران خان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اعظم سواتی کو وزارت سے برطرف کیا جائے، کیونکہ ان کی وجہ سے تحریک انصاف کے اصولی موقف کو شدید ضرب لگی ہے۔میرے نزدیک عمران خان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے وزراء کا اپنی زبان پر کوئی کنٹرول نہیں، نہ ہی انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ انہوں نے کیا بولنا ہے اور کیا نہیں بولنا۔۔۔
مثلاً اگر اعظم سواتی اس واقعہ پر اپنی زبان بند رکھتے اور اپنے غلط کام کو درست ثابت کرنے کے لئے بودی اور الٹی سیدھی دلیلیں نہ دیتے تو کم از کم عمران خان اور پارٹی کی لاج رہ جاتی۔ ایک طرف سپریم کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا جا رہا تھا کہ آئی جی کی ناقص کارکردگی کے باعث ان کی تبدیلی کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا گیا تھا تو دوسری طرف اعظم سواتی پکار پکار کر کہہ رہے تھے آئی جی نے بار بار فون کرنے کے باوجود کال نہیں سنی، جس پر مَیں نے ان کی شکایت کی،اب اس انداز سے تو حکمت کا وہ تاثر قائم نہیں ہو سکتا جس کی عوام امید لگائے بیٹھے ہیں، کیا عمران خان اور ان کے وزراء اس واقعہ سے کوئی سبق سیکھیں گے یا اسے ہوا میں اڑا دیں گے؟