محمد شاہ رنگیلا
دنیا کی تاریخ ایسے سینکڑوں ہزاروں کرداروں سے لتھڑی پڑی ہے جن کے بارے میں سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے ۔ آپ دنیا کی قدیم تہذیبوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو معلوم ہوگا دنیا میں ہر تہذیب کو شروع میں نیک اور سمجھدار بادشاہ ملے جنھوں نے ملک میں میرٹ ، عدل اور مساوات قائم کی جس کے نتیجے میں ملک نے ترقی کی اور وہ ملک معاشی خوشحالی کے دور میں داخل ہو گئے۔ لیکن پھر اچانک ایک دن ملک میں کوئی نہ کوئی ایسا حکمران آیا کہ اس نے اپنے پاگل پن اور انا کو دستور، قانون اور آئین کی شکل دے دی اور وہ ملک اور وہ تہذیب بادشاہ کے پاگل پن کے ہاتھوں فنا ہو کر رہ گئی۔
تاریخ میں ہزاروں ایسے حکمران ملیں گے جو اپنے پاگل پن کے ساتھ حکومت کرتے نظر آتے ہیں۔پوری دنیا میں بیسویں صدی تک بادشاہت ہوتی تھی اور بادشاہ قانون کا درجہ رکھتے تھے اور جب یہ درجہ کسی غیر متوازن اور پاگل شخص کے ہاتھ میں آتا تو وہ لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرتا تھا جو محمد شاہ رنگیلا نے ہندوستان کے ساتھ کیا۔
محمد شاہ رنگیلا کا اصل نام روشن اختر تھا ۔ وہ شاہجہان اختر کا بیٹا اور شاہ عالم بہادر شاہ اول کا پوتا تھا۔ سید برادران نے اسے جیل سے رہا کرواکر 17ستمبر 1719کو تخت پر بٹھایا۔ اس نے اپنے لئے دین محمد شاہ کا لقب پسند کیا لیکن الٹی سیدھی حرکات و سکنات کی وجہ سے اس کا نام محمد شاہ رنگیلا مشہور ہوگیا۔وہ ایک عیش طبع ، غیر متوازن شخص تھا جو چوبیس گھنٹے نشے میں دھت رہتا تھا اور رقص ،فحاشی اور عریانی کا دلدادہ تھا۔ وہ قانون بنانے اور قانون توڑنے کے مرض میں بھی مبتلا تھا۔ وہ ایک ایسا پارہ صفت انسان تھا جو اچانک کسی شخص کو ہندوستان کا اعلیٰ ترین عہدہ سونپ دیتا تھا اور جب چاہتا تھا وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے جیل بھجوا دیتاتھا۔
محمد شاہ رنگیلا کی اوٹ پٹانگ حرکتوں اور اول فول باتوں پر اس کے اس عظیم کارنامے پر تمام معزز وزراء ، دلی کے شرفاء اور وقت کے علماء اور فضلاء وا ہ واہ کہہ کر بادشاہ سلامت کی تعریف کیا کرتے تھے۔ وہ بیٹھے بیٹھے اچانک حکم دیتا کہ کل تمام درباری زنانہ کپڑے پہن کر آئیں گے اور فلاں فلاں وزیر پاؤں میں گھنگھرو باندھے گا اور وزراء اور درباریوں کے پاس انکار کی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ دوسرے دن تمام دربار خواجہ سراؤں کی زینت لگتا تھا۔
محمد شاہ رنگیلا جب دربار میں آتا تو اعلان کردیتا تھا کہ جیل میں جتنے بھی مجرم قید ہیں تمام کو آزاد کردیا جائے اور اتنی ہی تعداد میں مزید لوگ جیل میں ڈال دیئے جائیں۔ چونکہ بادشاہ کا حکم ہوتا تھا اس لئے سپاہی شہروں میں دوڑ پڑتے اور راستے میں جو بھی شخص ملتا اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے 27سالہ دور حکومت میں دلی میں کم و بیش ہی کوئی شخص ملتا تھا جس نے جیل کی ہوانہ کھائی ہو۔
محمد شاہ رنگیلا وزارتیں تقسیم کرنے اور خلعتیں پیش کرنے کا بھی شوقین تھا۔ وہ روز پانچ نئے لوگوں کو وزیر بناتا تھا اور سو پچاس لوگوں کو شاہی خلعت پیش کرتا تھاجبکہ اگلے ہی دن یہ وزارتیں اور خلعتیں واپس لے لی جاتی تھیں۔
محمد شاہ رنگیلا کا ایک بہت ہی لاڈلا گھوڑا تھا جس کو اس نے وزیر مملکت کا سٹیٹس دے رکھا تھا۔ وہ گھوڑا شاہی خلعت پہن کر وزراء کے ہمراہ دربار میں موجود رہتا تھا۔ سلطنت مغلیہ کے زوال کا پہیہ جو اورنگ زیب عالمگیر کے بعد سے چلنا شروع ہو چکا تھا اس کا سدباب محمد شاہ رنگیلا کے 27سالہ طویل دور حکومت میں کیا جاسکتا ہے۔مگر بدقسمتی کہ بادشاہ کی عیش پسندی اور بے فکری کے سبب نظم و نسق کی ذمہ داری وزراء کے کاندھوں پر تھی ۔ ان کی سیاسی چشمک نے ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار کرکے رکھ دیا تھا۔
نظام الملک آصف جاہ جو ایک مخلص امیر تھا ،نے حالات پر قابو پانے کی بہت کوشش کی مگر جب اس نے دیکھا کہ حالات اس کے قابو سے بھی باہر ہیں تو وہ بھی مایوس ہو کر دکن واپس چلا گیا۔ مرہٹوں اور سکھوں کی بغاوت جسے اورنگ زیب عالمگیر نے کچل کر رکھ دیا تھا دوبارہ سر اٹھانے لگی لیکن محمد شاہ رنگیلا ان پیش رفتوں سے بے خبر عیش و عشرت میں وقت گزارتا رہا۔
محمد شاہ رنگیلا اور نادرشاہ کے درمیان 1739کو کرنال کے مقام پر جنگ ہوئی جو دہلی کے شمال میں تقریباً 110کلومیٹر پر واقع ہے ۔ محمد شاہ رنگیلا کے پاس اس و قت ایک لاکھ سے زائد فوج تھی جبکہ نادرشاہ صرف 55ہزار کی فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا۔ محمد شاہ رنگیلا کو اس کی ناتجربہ کاری اور کمزور جنگ کی حکمت عملی کے سبب شکست فاش ہوئی۔ آج بھی جب تاریخ محمد شاہ رنگیلا تک پہنچتی ہے تو اس کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔