اپوزیشن جماعتوں کا مذاق اڑانے والے سیاسی نابالغ اپنی تاریخ سے بے خبر ہیں

اپوزیشن جماعتوں کا مذاق اڑانے والے سیاسی نابالغ اپنی تاریخ سے بے خبر ہیں
اپوزیشن جماعتوں کا مذاق اڑانے والے سیاسی نابالغ اپنی تاریخ سے بے خبر ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

کسی کا دل چاہے تو اس پر خوش ہو لے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ابھی قائم نہیں ہوسکا اور مولانا فضل الرحمن کی طلب کردہ اے پی سی میں نواز شریف آرہے ہیں اور نہ ہی آصف علی زرداری، لیکن اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس کا انعقاد بہرحال ہوگا اور اس میں مسلم لیگ (ن) کا وفد بھی آئے گا اور پیپلز پارٹی کا وفد بھی شرکت کرے گا۔ جن لوگوں کا مفروضہ یہ ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری چونکہ نہیں آرہے، اس لئے یہ کانفرنس سرے سے ہی ناکام ہوگئی اور اس کے انعقاد سے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوگا، انہیں غالباً سیاسی تاریخ کا کماحقہ‘ علم نہیں ہوگا۔ ماضی میں بہت سی ایسی تحریکیں اٹھیں جو شروع شروع میں بظاہر ناکام نظر آتی تھیں اور ان کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا۔ ایک زمانے میں جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ان کے حقیقی بھائی سردار بہادر خان تھے، تو فیلڈ مارشل صاحب یہ کہہ کر اپوزیشن کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے کہ میری مخالفت کرنے والوں کے پاس تو اپنا قائد حزب اختلاف بھی نہیں ہے اور وہ بھی مجھے انہیں ادھار دینا پڑا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی سردار بہادر خان ہیں جنہوں نے ایک بار قومی اسمبلی میں یہ مصرع پڑھ دیا تھا ؂
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا
تو ان کے حوالے سے یہ بہت معروف ہوگیا تھا اور آج بھی جب پاکستانی سیاست کے عہد رفتہ کو آواز دی جاتی ہے تو یہ کانوں میں گونجنے لگتا ہے، لیکن فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ ننھی منی اپوزیشن جو ان کے خندہ استہزا کا شکار رہتی تھی اور جس کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ میں کس سے بات کروں اپوزیشن کے پاس تو کوئی لیڈر ہی نہیں ہے۔ وہ بعض لیڈروں کا نام لے لے کر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور اپنے بنائے ہوئے نظام پر بہت فخر کیا کرتے تھے، لیکن یہی اپوزیشن جس کے پاس کوئی لیڈر نہیں تھا، وہی قدم بہ قدم آگے بڑھتی رہی اور چند ہی برس بعد جب ایوب خان کا تخت اقتدار ڈولنے لگا تو پھر وہ انہی لیڈروں سے بات چیت پر مجبور ہوئے۔ ایوب خان کی بلائی گئی گول میز کانفرنس کا زمانہ یاد کریں یہ وہی اپوزیشن لیڈر تھے جن کے ساتھ وہ بیٹھنے پر مجبور ہوئے۔ حتیٰ کہ شیخ مجیب الرحمن کو جواگرتلہ سازش کیس میں گرفتار تھے، رہا کرکے مغربی پاکستان لایا گیا اور یہاں انہوں نے کانفرنس میں شرکت کی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے اس گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ بھی کر دیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ بائیکاٹ اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے اشارے پر کیا گیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایوب خان، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر کوئی ایسا نظام وضع کرنے میں کامیاب ہوں، جس میں ان کا کوئی کردار نہ ہو، وہ اپنا کھیل کھیل رہے تھے اور بالآخر انہیں اس میں یہ کامیابی حاصل ہوئی کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنا بنایا ہوا آئین بھی منسوخ کر دیا اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ اگر ایوب خان سیاست دانوں کے ساتھ معاملات طے کرنے میں کامیاب ہو جاتے اور یہ کانفرنس سبوتاژ نہ ہوتی تو شاید ہم اپنی قومی زندگی کے سب سے بڑے سانحہ سے بچ جاتے اور ملک دولخت نہ ہوتا۔
پاکستان میں سیاست کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اس میں رنگا رنگی بھی بہت ہے، جو لوگ ایوب خان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اور انہیں ایشیا کا ڈیگال قرار دیتے تھے اور جن کا خیال تھا کہ ایوب خان کو تو پاکستان کا بادشاہ ہونا چاہئے اور اس خیال کا اظہار وہ کھلے عام کرتے تھے لیکن نہ تو ایوب خان کی بادشاہت قائم ہوسکی اور نہ ہی ایوب خان کا متعارف کرایا گیا نظام آگے بڑھ سکا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے اس مثالی نظام کے تارو پود اپنے جانشین کے ہاتھوں بکھرتے دیکھے جس کے بارے میں وہ اکثر یہ استفسار بھی کیا کرتے تھے کہ لوگ آخر میرے اتنے اچھے نظام کے خلاف کیوں ہوگئے ہیں، جو لوگ آج کی اپوزیشن کو طعنے دیتے ہیں، وہ بہت جلد محسوس کریں گے کہ جب وقت آئے گا یہی اپوزیشن جماعتیں ان سے سنبھالے نہیں سنبھلیں گے، جو لوگ آج اس حکومت کے گھن گا رہے ہیں، وہ جنرل پرویز مشرف کی تعریف میں بھی زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے اور انہیں دس بار وردی میں منتخب کرانے نکلے تھے لیکن ان کے اس عزم پر فطرت مسکرا رہی تھی کہ دس بار تو کجا عملاً وہ ایک بار بھی انہیں وردی میں منتخب نہ کراسکے اور جس چیف جسٹس کو اس لئے راستے سے ہٹایا گیا تھا کہ ان کے پاس وردی کا کیس نہ لگے وہی چیف جسٹس بالآخر پرویز مشرف اور ان کے پورے جاہ و حشم کو لے کر بیٹھ گیا، اس لئے جو لوگ آج کی اپوزیشن کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہ ابھی سیاسی بلوغت سے کوسوں دور ہیں، ان کے لئے مشورہ ہے کہ ’’حذر اے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں‘‘ انہیں نہ تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا کوئی علم ہے اور نہ انہیں یہ اندازہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں متحد ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگاتیں، اگر زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں تو 77ء کے الیکشن کو سامنے رکھ لیں، یہ الیکشن ذوالفقار علی بھٹو نے قبل از وقت کرا دئیے تھے، چونکہ انہیں انٹیلی جنس اداروں نے اطلاع دی تھی کہ اپوزیشن جماعتیں بکھری ہوئی ہیں، وہ متحد نہیں ہوں گی اور وہ آسانی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ جیت جائیں گے، لیکن ادھر الیکشن کا اعلان ہوا ادھر نو جماعتیں قومی اتحاد کے نام سے متحد ہوگئیں۔ انہوں نے ایک ہی نشان کے تحت الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بہت سے ساتھی بلامقابلہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے اور قومی اتحاد نے ان انتخابات کے خلاف ایسی شاندار تحریک چلائی جو بھٹو کے اقتدار کو نہ صرف خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئی بلکہ انہیں اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے، اس لئے سیاسی نابالغوں کو اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ نواز شریف اے پی سی میں نہیں جا رہے اور آصف علی زرداری بھی دور رہیں گے۔ ویسے تو تحریک انصاف اب تک خود ہی اپنی اپوزیشن آپ کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس لئے مخالف جماعتیں کچھ نہ بھی کریں تو مضائقہ نہیں لیکن یہی جماعتیں کسی وقت حکومت کے لئے خطرہ بن جائیں گی، یہی وہ چراغ ہیں جو جلیں گے تو روشنی ہوگی۔

مزید :

تجزیہ -