واقعات کے بیان میں تخیل کی رنگ آمیزی
مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:35
ڈاکٹر انور سدید کی رائے میں جذبات،احساسات،واقعات اورمشاہدات کے الفاظ سے اندازہ ہوتاہے کہ رپورتاژ میں مصنف کی ذات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس لحاظ سے مصنف کے جذبات اور نقطہ نظر بہت اہمیت رکھتے ہیں کہ اس واقعے کو ہم مصنف کی نظر سے دیکھتے ہیں ایک ہی واقعے سے مختلف لوگ مختلف اثرقبول کرتے ہیں۔ اس لیے مصنف کی ذات رپورتاژ کا بنیادی مرکز ہوتی ہے۔
رپورتاژ کی ایک اور اہم خصوصیت صداقت ہے جو ویسے تو کسی نہ کسی تناسب میں تمام اصناف نثر میں ہوتی ہے لیکن رپورتاژ نگار کے لیے لازم ہے کہ واقعات کو اپنی صحیح حالت میں پیش کرے اور واقعات کے بیان میں تخیل کی رنگ آمیزی نہ کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں مصنف کے جذبات و احساسات نہ ہوں لیکن واقعات کے بیان میں اصل حقائق ہی مدنظر رہنے چاہیئں۔
واقعات کے ساتھ رپورتاژ میں کردار بھی فرضی نہیں بلکہ حقیقی ہوتے ہیں۔ محترمہ طلعت گل کے مطابق:
”رپورتاژ نگار کے علاوہ دوسرے کردار بھی حقیقی اور اہم ہوتے ہیں یہ بھی رپورتاژ نگار کی طرح واقعے کے عینی شاہد ہوتے ہیں افسانے کی طرح غیر حقیقی کرداروں کی رپورتاژ میں کوئی جگہ نہیں۔ “
لیکن کردار نگاری رپورتاژ نگار کا مقصد نہیں بلکہ کردار کے ذریعے واقعات کا بیان ہوتا ہے۔ رپورتاژ میںکردار واقعے کے پیچھے ثانوی اہمیت رکھتے ہیں۔
تاریخ کا تعین رپورتاژ میں بہت ضروری ہوتا ہے مصنف کو واضح کرنا چاہیے کہ وہ یہ تحریر کس زمانی عرصے میں لکھ رہا ہے۔
رپورتاژ میں واقعے کے رونما ہونے کے فوراً بعد لکھنے کی شرط بھی ضروری ہے واقعے اور تحریر کے درمیان فاصلہ اسے رپورتاژ بننے سے روکتا ہے۔ مثلاً سجاد ظہیر کا مضمون ”یادیں“ ان کی زمانہ طالب علمی کی یادیں ہیںلیکن اصل یادوں اور تحریر ”یادیں“ کے درمیان فاصلے کی بناءپر نقاد اسے رپورتاژ قرار دینے میں تامل کرتے ہیں۔ اگر اسے رپورتاژمان لیا جائے تو تحقیقی طور پر اردو کا پہلا رپورتاژ کہلائے گا جو1940ءمیں لکھا گیا۔ رپورتاژ کی اہم خصوصیت جذبات اور جزئیات نگاری بھی ہے۔اگر کسی واقعے کے بنیادی باتیں بغیر جذبات اور جزئیات کے لکھ دی جائیں تو یہ اخباری رپورٹ سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )