فلسطین۔خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
فلسطین کا مسئلہ بھی عجب مسئلہ ہے۔شیطان کی آنت کی طرح پیچیدہ اور طویل یا اسے پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔سات اکتوبر2023ء کو حماس کی بریگیڈ نے اسرائیل کی متھ کو توڑ دیا۔انہوں نے شاید گھبرا کے یہ کیا۔صدی کے قریب ہونے کو آیا کہ انہیں زیر نگیں کیا گیا اس کے بعد خصوصاً جمال ناصر کی شکست کے بعد سے اب تک انہیں مسلسل تضحیک اور ذلت کا سامنا ہے۔خاص طور پر غزہ کے لوگوں کو جن کا کوئی ملک نہیں،جن کے پاس کوئی فوج نہیں۔ڈیوڈ کیمرون نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا تھا اور یہ درست بھی ہے،جن لوگوں کے پاس سمندر ہو مگر وہ بھی اپنا نہ ہو۔ان کی گیس،پانی، بجلی سب اسرائیل کے ہاتھ میں ہو۔ ان کی شہ رگ کیا تمام رگیں اس کی آہنی گرفت میں ہوں،جن کی روزی اس کے قبضہ میں ہو جسے اس نے قبض کیا ہو اور دنیا انہیں بھلا چکی ہو تو وہ اور کیا کریں گے۔سات اکتوبر2023ء کو نیتن یاہو ابھی اقتدار میں آیا ہی تھا کہ یہ واقعہ رونما ہو گیا۔ نیتن یاہو نے یہودہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اس نے اسے یہ سنہری موقعہ عطاء کیا۔اس نے فوراً مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر یونٹی بنا لی تاکہ کوئی تنقید نہ کر سکے، پھر اس نے تمام بین الاقوامی قانون توڑتے ہوئے غزہ کے ساتھ جنگ کا اعلان کر دیا۔پہلے اس نے اتنی شدید بمباری کی کہ کوئی عمارت نہ بچے، پھر کمانڈرانچیف کی تجویز کے برخلاف زمینی فوج غزہ میں داخل کر دی،لیکن یہ تو بعد کی بات ہے۔ سب سے پہلے اس نے اپنے مذہبی قانون کی خلاف ورزی کی،اس قانون میں ایک پہلو انصاف کا ہے جس کے مطابق ”آنکھ کے بدلے آنکھ اور جان کے بدلے جان“ لینے کا حکم۔ویسے تو یاہو صاحب بہت مذہبی بنتے ہیں اور تقریر بھی تورات اور زبور سے شروع کرتے ہیں،مگر اس موقع پر دیدہ و دانستہ انہوں نے اسے نظرانداز کیا کہ جتنا جرم ہو اتنی ہی سزا ہو۔ دوسرے لفظوں میں اگر انہوں نے ہزار لوگ آپ کے مارے ہیں تو آپ بھی ان کے ہزار دو ہزار مار دیں،مگر بی بی صاحبہ جو زیادہ مذہبی بنتی ہیں انہوں نے تو اس قانون کی بھی پرواہ نہ کی۔اس میں بہرحال ایک توازن تو ہے انہوں نے اس توازن کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے تقریباً 41 ہزار انسان قتل کر دیئے۔اس کے علاوہ انہوں نے تمام اخلاقی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری آبادی، تمام ہسپتال،سکول اور یو این او کے مراکز اڑا دیئے اور ان میں موجود شہریوں،بچوں اور بین الاقوامی لوگوں کو کیڑے مکوڑے جانتے ہوئے مسل دیا۔ اس پر یہ جھوٹ کہ ہم تو شہری آبادیوں وغیرہ کا خاص خیال رکھتے ہیں۔
جب دنیا میں زیادہ شور مچا تو انہوں نے رسمی کارروائی کے طور پمفلٹ پھینکے کہ شہری غزہ کے شمالی علاقے سے جنوبی علاقے کی طرف چلے جائیں۔ جب انہوں نے جان بچانے کے لئے اسرائیل کی بات مان لی اور جب وہ جا رہے تھے تو ان پر بمباری کر دی،ان کی ہدایات پر عمل کرنے والوں کی لاشیں بے گور و کفن صلاح الدین روڈ پر بکھری دکھائی دیں۔آج کل جنوب میں قتل و غارت جاری ہے۔
اب آپ اسرائیل کے جھوٹ ملاحظہ فرمایئے۔نمبر ایک یہ کہ ہم شہریوں کا خاص خیال رکھ رہے ہیں۔نمبر دو یہ کہ ہم نے تقریباً اپنے اہداف حاصل کر لئے ہیں۔خیر شہریوں کا خاص خیال کا احوال تو آپ نے جان لیا کہ غزہ اب قبرستان ہے،جس میں قبروں کے کتبے بھی نہیں۔ نمبر3، یعنی تیسرا جھوٹ۔ ایک بین الاقوامی فلسطینی امداد کے لئے بنی ہوئی ایجنسی پر خورد برد کا الزام اپنے خلاف مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد جو ہیگ میں چل رہا تھا بین الاقوامی عدالت میں۔چوتھا جھوٹ، مصری اور مقامی افراد پر خورد برد کا الزام۔ اچانک اسرائیل کو یہ سارے الزام یاد آ گئے فیصلہ آنے کے بعد۔
باقی امریکن وزیر خارجہ، یعنی سیکرٹری بلنکن کی آنیاں جانیاں قائم ہیں۔واہ کتنے چست آدمی ہیں داد دینی چاہئے لیکن انہوں نے جنگ بندی کا مطالبہ ابھی تک نہیں کیا۔ البتہ دو ریاستی حل کی طرف اشارہ ضرور کیا۔کیا وعدہ فردا ہے۔اب کل سے پھر سی آئی اے کے سربراہ چند ممالک کے باختیار لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔کسی حل کی تلاش میں مگر ایک بات مسلم ہے کہ زمینی صورتحال وہی ہے جو تھی، یعنی دھڑا دھڑ لوگ مر رہے ہیں۔اب تک تقریباً41 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، بلکہ ہرگھنٹے میں ہو رہے ہیں۔ یہی صورتحال کچھ عرب ممالک کی ہے، یعنی ”خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک“۔
اِس وقت بھی جو مذاکرات پیرس میں ہو رہے ہیں ان میں واضح طور پر اسرار یرغمالیوں کی واپسی پر ہی رہا ہے۔ باقی دو ریاستی حل تو اس کے بارے میں میری تشویش گہری ہوتی جا رہی ہے۔یہ معاہدہ بھی باقی تمام معاہدوں کی طرح ثابت ہو گا،یعنی اس میں پہلی شرائط کا حصہ جس سے اسرائیل اور امریکہ کے مفادات وابستہ ہیں غالباً طے ہو جائے گا،مگر پچھلا حصہ جس سے حماس کے فوائد جڑے ہوئے ہیں وہ ہوا میں کہیں معلق ہو جائے گا،اب دیکھنا یہ ہے کہ حماس کا ردعمل کیا ہو گا؟ قطر اور مصر کا رویہ کیسا ہو گا؟
بائیڈن صاحب بہادر کو اس کی بھی پروا نہیں کہ جنگ پھیل جائے گی جیسا کہ ہر روز خبروں سے پتہ چل رہا ہے، کیونکہ ایران کھل کر سامنے نہیں آ رہا۔دوسری بات یہ کہ بائیڈن صاحب نے الیکشن بھی تو لڑناہے! خود امریکہ کے اندر کئی دھڑوں کی طرف سے اسرائیل کی مخالفت ہو رہی ہے، جس میں خود یہودی بچے، یعنی نوجوان بھی شامل ہیں، جو کئی دِنوں سے احتجاج کر رہے ہیں جس میں بائیڈن انتظامیہ کے خلاف بھی احتجاج شامل ہے،مگر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے میں اپنی بات دوہراؤں گی۔
”خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک“
باقی کچھ خوش فہم صحافی اور یوٹیوبرز خوش ہوتے رہیں کہ بات چیت چل رہی ہے،کیونکہ اصل بات جو حل ہے وہ امریکہ کا اسرائیل کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لینا جو تقریباً ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔