تعلیمی اداروں کے حفاظتی انتظامات؟

نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے سیکیورٹی کا معیاری انتظام کئے بغیر تعلیمی ادارے کھول لئے اور سیکیورٹی کے لئے حکومت کی مدد کا انتظار کرنے لگے ہیں، جبکہ محکمہ تعلیم کی طرف سے اب تک صوبے کے گیارہ سو پچھتر نجی سکولوں کو نوٹس دیئے جا چکے ہیں۔ خود حکومت پنجاب نے نجی سیکیورٹی ایجنسی کی خدمات حاصل کیں اور اب تک 70تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی ایک شہرت یافتہ نجی کمپنی کے سپرد کر دی گئی ہے اور بتدریج یہ سلسلہ بڑھایا جا رہا ہے۔قومی سلامتی منصوبے کے مطابق تعلیمی اداروں پر خصوصی توجہ دی گئی کہ دہشت گردوں نے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ حکومت نے ہدایت کی کہ سکول انتظامیہ سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کرے اور سب سی سی ٹی وی بھی لگائیں، تاکہ نقل و حرکت کا بھی علم ہوتا رہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اخراجات والا کام ہے، بیشتر نجی سکولوں والے تو سکولوں کو کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ اخراجات کرنے کی بجائے ہر کام میں بچت کو ترجیح دیتے ہیں، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے تحفظ سرکار ہی سے مانگا جا رہا ہے۔ حکومت کے لئے یہ سب مشکل ہے، جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعلق ہے تو پہلے ہی حفاظتی ڈیوٹیوں پر متعین تعداد کم کرنے پر غورکیا جا رہا ہے کہ نفری نہیں۔نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے حکومتی ہدائت کی پرواہ نہیں کی اور پیر 5 جنوری سے سکول کھول لئے ان میں بہت سے سکول ایسے ہیں جو کھلے نہیں باقی سب گزشتہ روز (پیر) کو کھل گئے۔ اب نجی سکول مالکان اور حکومت کے درمیان تنازعہ شروع ہوگیا ہے، معاملہ قومی سلامتی اور حفاظت کا ہے اور یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ جو فیصلے کل جماعتی قومی کانفرنس نے کئے اور پھر ان کا اعلان کیا تو ان پر عمل درآمد کی کیا صورت ہے؟ اگر حکومت کسی ایک شعبہ کی حد تک پھسل گئی تو پھر پیر کہیں نہیں جمیں گے۔