لاہور(لیڈی رپورٹر)قوانین کی تشکیل کا بنیادی مقصد انسانیت کو با اختیاربنانا، امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی کرنا اور کمزور طبقے کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوتا ہے اسی سوچ کو اپنانے سے ہی تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کے درمیان ہم آہنگی اور دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین کی چیئرپرسن فوزیہ وقار نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں وزارت برائے انسانی حقوق اور مرکز برائے پالیسنگ و سیکیورٹی کے باہمی اشتراک سے منعقدہ دو روزہ تربیتی پروگرام بعنوان’’ انسانیت،ایثار اور شہریت‘‘ میں حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کیا۔انہوں نے بین الاقوامی معاہدوں پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے خواتین کے خلاف ہرقسم کی امتیازی سلوک پر قائم کنونشنزکے مقاصد،ان کی نمایاں خصوصیات اور انکے حوالے سے بنائے جانے والے اداروں کے بارے جامع طور پر آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اب تک 27 بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں جو کہ یورپی یونین میں جی ایس پی پلس کا درجہ لینے کیلیے بنیادی شرائط میں شامل ہیں جن میں سے 7 انسانی حقوق،8 مزدورں کے حقوق،8 ماحولیات اور4 گورننس سے متعلق ہیں۔علاوہ ازیں چیئرپرسن نے تعلیمی شعبہ کو محروم طبقات کے حقوق تک اپنی تعمیری تحقیق کو وسعت دلانے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ اس سوچ سے نہ صرف معاشرتی ترقی کے معیار پر پاکستان میں شہریوں کا حقیقی اعداد و شمار سے درجہ جانچا جا سکے گا بلکہ تمام شراکت داروں کو مل جل کر معاشرے کی فلاح کیلیے اپنا فعال کردار ادا کرنے کیلیے بھی معاون ثابت ہو سکے گا۔مزیدبرآں انہوں نے بیان کیا کہ عورتوں، بچوں اور معذور افراد کے ساتھ روا رکھی جا نے والی غیر مساوی سوچ کو لازمی طور یکسر بدلنا ہوگا اسی میں معاشرے کاسکون،ہم آہنگی اور استحکام پنہاں ہے اس کیلیے من الحیث القوم کو ششیں جاری رکھنا ہوں گی۔آخر میں سوال و جواب کا سیشن ہواجو شرکاء کی انسانی حقوق اور انکی خلاف ورزی پر مزاحمتی سوچ میں گہری دلچسپی لیکر اسے اپنانے کا واضح ثبوت ہے۔#