بڑا لیڈر ریلے میں نہیں بہتا!

epaper

جونواز شریف کے حامی ہیں، ان کے لئے تو آج کل میاں صاحب کی باتیں بہت حوصلہ افزا ہیں، لیکن مجھ جیسے عام لوگوں کو ان کا مافی الضمیر سمجھنے میں خاصی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ لاہور میں اپنے حامی وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سپریم کورٹ سے واشگاف الفاظ میں مطالبہ کیا ہے کہ ان کی نااہلی کا فیصلہ خلاف ضابطہ بھی ہے اور خلاف حقائق بھی، اس لئے اسے واپس لیا جائے۔ مجھ جیسے ایک واجبی سے پڑھے لکھے انسان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ آیا عدلیہ کے فیصلے جلسوں میں کئے گئے، مطالبات سے واپس لئے جاسکتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت ایسے کسی مطالبے کے نتیجے میں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ واپس لے اور نئی تاریخ رقم کردے؟۔۔۔ حیرت ہوتی ہے کہ تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے کے باوجود نواز شریف عدلیہ کے اختیار اور طریقہ کار کو نہیں سمجھ سکے۔ دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ عدلیہ کو بھرے جلسے میں کہا جائے کہ اس کا فیصلہ غلط ہے، وہ اسے واپس لے۔

اس طرح تو سب اُٹھ کھڑے ہوں گے اور فیصلوں کو چیلنج کرکے واپس لینے کا مطالبہ داغتے رہیں گے۔ یہی کچھ پنجاب کے وکلاء آج کل کررہے ہیں۔ وہ ہائی کورٹ بار ملتان کے صدر شیر زمان کے خلاف تو ہین عدالت میں جاری کئے گئے وارنٹ گرفتاری واپس لینے اور کارروائی ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ کیسی ریت ڈالی جارہی ہے؟۔۔۔ آئین اور قانون کے مطابق اگر عدلیہ نے کام نہیں کرنا تو پھر ان کی کیا حیثیت رہ جائے گی اور ملک میں قانون کی حکمرانی کا تصور کیسے قائم رہ سکے گا؟


حیرت اس لئے بھی ہوتی ہے کہ ایک طرف نواز شریف اور ان کے بچوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستیں دائر کررکھی ہیں، جن کی عنقریب سماعت ہوگی، مگر دوسری طرف وہ سپریم کورٹ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ فیصلہ واپس لیا جائے۔۔۔ نظرثانی درخواست اور مطالبے میں بہت فرق ہوتا ہے۔

نظر ثانی درخواست ایک قانون و قاعدے کے تحت دائر کی جاتی ہے اور یہ ہر شہری کا حق ہے، اس پر کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی کو اس سے محروم کیا جاسکتا ہے، مگر یہ حق شاید کسی کو حاصل نہیں کہ وہ جلسوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دے اور واپس لینے کا مطالبہ بھی کرے۔

انتظامی فیصلوں کے خلاف ایسے مطالبے کئے جاسکتے ہیں اور کئے بھی جاتے ہیں، مگر عدالتی فیصلوں کے خلاف اس قسم کی صورت حال پہلی بار پیدا ہوئی ہے اوراس کا ’’سہرا‘‘میاں نواز شریف کے سرجاتا ہے۔ نواز شریف نے اپنے خطاب کے دوران جو اعتراضات اٹھائے ہیں، وہ جتنے بھی وزنی ہوں، ان کا فیصلہ سپریم کورٹ میں ہونا ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ ان کی طرف سے جو وکلاء پیش ہوں، وہ ان اعتراضات کو عدالت عظمیٰ کے سامنے لائیں۔

اگر ان میں وزن ہوگا تو ضرور ریلیف ملے گا وگرنہ انہیں رد کردیا جائے گا، کیونکہ یہ صرف سپریم کورٹ کا اختیار ہے، لیکن نواز شریف کی باتوں سے تولگتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ پر عدم اعتماد کررہے ہیں۔ وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ قانونی جنگ سے وہ ججوں کو مطمئن نہیں کر پائیں گے، کیونکہ بقول ان کے ججوں نے فیصلہ کسی کے دباؤ پر دیا ہے۔ اب ظاہر ہے ان کے اس موقف کی حمایت آسانی سے نہیں کی جاسکتی، اگر اس بارے میں ان کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو وہ انہیں سامنے لائیں، صرف اندازوں اور قیافوں سے وہ سپریم کورٹ کے ججوں کی غیر جانبداری کو مشکوک نہیں بناسکتے۔


وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف سیاست کی بجائے بغاوت کی طرف جارہے ہیں، ان کا وہ سافٹ امیج بری طرح متاثر ہورہا ہے جو ہمیشہ ایک قانون پسند لیڈر کے طورپر رہا ہے، اگر ان کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ ایسے بلند آہنگ موقف سے وہ اپنے حامیوں کا لہو بھی گرماتے رہیں گے اور ججوں پر دباؤ ڈالنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے تو مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوسکے۔ لیڈر کا امیج جب ایک جھنجھلائے ہوئے شخص کا بننے لگے تو وہ زیادہ عرصے تک اپنی گرفت برقرار نہیں رکھ سکتا، اگر نواز شریف سیاسی سطح پر دیکھیں تو انہیں احساس ہوگا کہ وہ تنہا ہوتے جارہے ہیں اوروہ اتحادی بھی جو ان کے ساتھ تھے، ان کی عدلیہ مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں؂ آصف علی زرداری نے تو بالکل واضح کردیا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کو نہ مان کر نواز شریف اپنا بھرم کھو رہے ہیں۔

انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ بالکل درست ہے اور ان کا واویلا بے کار ہے۔ آصف علی زرداری نے نواز شریف کے لئے کسی این آر او کی حمایت کو بھی خارج ازامکان قرار دیا ہے۔ نواز شریف کو ایک مدبر سیاستدان کی طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کو اس طرح تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے، اسے سپریم کورٹ میں دائر نظر ثانی درخواست کے فیصلے تک تسلیم کرلینا چاہئے تھا، اس سے ان کا قد مزید بڑھ جاتا۔ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف اقتدار کے بغیر ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں اور اس فیصلے کو تبدیل کرانے کے لئے ہر سطح پر جانا چاہتے ہیں، چاہے اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی صورت ہی کیوں نہ پیدا ہو جائے۔
جب سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، میاں نواز شریف یہ بھول گئے ہیں کہ وہ اس ملک کے ایک بڑے سیاسی لیڈر ہیں اور اپنی سوئی صرف اسی نکتے پر اٹکا کر وہ حالات سے لاتعلق نہیں ہوسکتے۔ مثلاً اس وقت ملک میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد ایک قومی بحث چھڑ چکی ہے، لیکن اس بحث میں نواز شریف کہیں نظر نہیں آرہے۔ نہ تو ان کی طرف سے اس پر کوئی رد عمل آیا ہے اور نہ انہوں نے عوام کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کوئی بیان دیا ہے۔ وہ صرف ’’کیوں نکالا‘‘ کی گردان میں اُلجھے ہوئے ہیں، حالانکہ وزیر اعظم نہ ہونے کے باوجود وہ ایک بڑی طاقتور سیاسی شخصیت ہیں اور ان کی بات اب بھی ایک وزن رکھتی ہے۔ عدلیہ اور فیصلے پر ان کی مسلسل تنقید سے یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ نواز شریف ان نیب ریفرنسز کا سامنا نہیں کرنا چاہتے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ان کے خلاف دائر کئے جانے والے ہیں۔ وہ ایک این آر او چاہتے ہیں، تاکہ جو ہوگیا ہے، اسے وہیں روک دیا جائے اور آگے کی ساری کارروائی ختم ہو جائے۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے انہیں جو کرنا چاہئے وہ نہیں کررہے اور پورے نظام کو لپیٹنے کی کوشش ان کی شخصیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف تقریر پر پابندی لگائی، مگر انہوں نے قبول نہیں کی۔ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے اور لاکھوں افراد کے نمائندے کسی لیڈر کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کا تاثر ایسے باغی کا بنائے۔ عدلیہ کے فیصلے پر علم بغاوت بلند کرنے سے ان کی شخصیت کا جو منفی تاثر اُبھر رہا ہے، وہ افسوسناک ہے، کاش کوئی انہیں سمجھائے کہ بڑا لیڈر کئی خواہشات کو قربان کرتا ہے، تب جاکر بڑا لیڈر بنتا ہے، وہ ریلے میں نہیں بہتا، بلکہ اس کا رخ تبدیل کردیتا ہے۔