عمر اکمل۔۔۔قربان گاہ پر؟

epaper

’’کاکا تینوں کہیا سی، سنبھل کے رہ، پر تینوں عقل نہ آئی‘‘ پاکستان قومی ٹیم کے ہونہار اور ٹیلنٹڈ بلے باز عمر اکمل گرداب میں ایسے پھنسے کہ نکل ہی نہیں پا رہے۔اب تو وہ گستاخ اور سزا یافتہ بھی ہو گئے۔

بورڈ کی انضباطی کمیٹی نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے،کسی تحقیق کے بغیر اسے ’’گستاخی‘‘ کا مجرم قرار دے کر کڑی سزا دی اور بقول نجم سیٹھی یہ عبرت کا نشان ہے تاکہ آئندہ کسی کو آواز نکالنے کی جرأت نہ ہو، کہ وہ ناواقف آداب شاہی ہے، یہاں تو زنجیر پہن کر بھی رقص کرنا پڑتا ہے۔

عمر اکمل پر تین میچوں کی پابندی عائد کر دی گئی، دس لاکھ روپے جرمانہ ہوا اور دو ماہ کے لئے اُس کا این او سی بھی روک لیا گیا کہ وہ کسی بھی ’’لیگ‘‘ کے لئے کھیل نہ سکے، چاہے اُس نے پہلے سے اجازت لے کر ہی معاہدہ کیوں نہ کیا ہو۔اب اگر اِس پابندی کے دوران معاہدے والا کوئی ٹورنامنٹ آ گیا تو عمر اکمل وہ بھی نہ کھیل سکے گا اور ممکن ہے کہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہو اور اُسے اِس سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں اور اِس کے عوض متعلقہ ٹورنامنٹ والے اس سے جرمانہ بھی لے سکتے ہیں۔یوں اُسے جو سزا دی گئی وہ مثالی ہے۔


ہمارے مُلک میں یوں بھی انصاف کے حوالے سے بہت کچھ کہا جا رہا ہے، تاہم یہاں تو عجیب تماشہ ہے کہ مکی آرتھر نے شکایت نہیں کی،بورڈ نے ازخود نوٹس لیا کہ عمر اکمل نے کوچ مکی آرتھر کی طرف سے برسر عام گالیاں نکالنے کی شکایت پریس سے بات کر کے شائقین تک کیوں پہنچائی۔بورڈ نے عمر اکمل کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس دیا، جواب آیا تو اسے غیر تسلی بخش قرار دے دیا اور دوسرا نوٹس جاری کیا اِس کے بعد نہ گواہ نہ بیان، نہ جرح اور تصدیق،حتیٰ کہ مکی آرتھر کو بلایا بھی نہیں گیا اور سزا سنا دی۔ یہ بھی طے کر دیا کہ مکی آرتھر نے کوئی گالی نہیں دی، وہ سچ کہتا ہے کہ گوری چمڑی والا دودھ سے نہایا ہوا ہے۔


عمر اکمل نے شکایت کی تھی کہ مکی آرتھر نے اسے اکیڈیمی آنے اور بیٹنگ کوچ مسٹر فلاور سے بات کرنے کی وجہ سے گالیاں دیں،اکیڈیمی آنے اور کوچ کے ساتھ بات کرنے سے منع کیا اور جاؤ جا کر کلب کرکٹ کھیلو،اس کے ساتھ ہی مکی آرتھر نے ایف اور بی سے شروع ہونے والی گالیاں بھی دیں، جو اس کے تکیہ کلام کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ اِس موقع پر محترم انضمام الحق (جو خود پیرزادے ہیں) اور مشتاق احمد بھی موجود تھے، وہ بھی دین دار ہیں، ہر دو نے اتنا بھی نہیں کہا کہ ہاں مکی آرتھر نے ہر دو گالیاں دی تھیں،اب یہ الگ مسئلہ ہے کہ مکی آرتھر کے نزدیک یہ گالیاں نہیں،عادت ہے۔


تاہم عمر اکمل کے لئے تو یہ بہت بڑا جھٹکا تھا اس نے ہر دو سینئرز پر بہت بڑا اعتماد کر کے ان کا نام لیا تھا یہ بُری طرح مجروح ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بورڈ کی یہ کارروائی انصاف پر پوری اُترتی ہے؟ایسا ہر گز نہیں،نجم سیٹھی کے بیان سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بورڈ میں اپنی آمریت قائم کریں گے اور اس کے لئے یہ ایک مثال قائم کر دی کہ ’’بولو گے تو بھگتو گے‘‘۔بہرحال عمر اکمل کے ساتھ جو ہوا، اِس کے بعد اُس کا پورا کیریئر ہی داؤ پر ہے جسے تباہ کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔انہی سطور میں عرض کیا گیا تھا کہ وقار یونس کی زیادتی پر احتجاج عمر اکمل اور احمد شہزاد دونوں کے لئے مہنگا ہے اور وقار نے ’’لاہور‘‘ کے دشمنوں کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ کم از کم اِن دو کھلاڑیوں کو تو فارغ کر ہی دیں پھر حفیظ اور اظہر علی سے بھی نمٹ لیا جائے گا کہ کراچی میں ٹیلنٹ بہت ہے ان کو موقع ملنا چاہئے۔کراچی اور حیدر آباد کے دو سٹار میچ فکسنگ ہی میں کیوں نہ ملوث ہوں،اس سلسلے میں ہم ایک گزارش کر سکتے ہیں کہ ماضی کے فاسٹ باؤلر اور حال تجزیہ نگار سکندر بخت کی ان معاملات پر ویڈیوز کی فٹنگ نکال کر دیکھ لیں تو آپ سب کو علم ہو جائے گا کہ ان کے لب و لہجہ میں کتنی نفرت پائی جاتی ہے اور ان کو شمال والے کسی بھی کھلاڑی کی کامیابی ہضم نہیں ہوتی، خصوصاً لاہور تو ان کے نشانے پر رہتا ہے۔


جہاں تک بورڈ کا سوال ہے تو یہ وہی ہے جس نے یہ فلسفہ اپنایا کہ ہر فارمیٹ کی ٹیم اور کپتان الگ ہونا چاہئے، چنانچہ مصباح کو ٹیسٹ تک محدود کیا گیا،آفریدی کے لئے ٹی20 کا موقع پیدا ہوا، پھر حفیظ کو ون ڈے سے فارغ کر کے سرفراز کے لئے جگہ پیدا کی گئی اور آج سرفراز تینوں فارمیٹ کا کپتان ہے،اب وہ الگ الگ والا فلسفہ کیا ہوا کہ ایک ہی کپتان پر نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے،کیا لاہور یا شمال سے کپتانی واپس ہوئی تو تمام فلسفے ختم اور بڑھاپے والی سکیم نافذ،یہی اب بہتر ہے۔پاکستان کرکٹ پر نشیب و فراز آتے جاتے رہے ہیں، بہت کچھ تبدیل ہوا، اگر کچھ نہیں تو وہ بورڈ کے پیر تسمہ پا ہیں، جن کے لئے صرف اتنا ہوتا ہے کہ بُری کارکردگی کے باعث تنقید کی زد میں آئیں تو عہدہ تبدیل کر دیا جاتا ہے،بورڈ سے تعلق اور تنخواہ و مراعات برقرار رہتی ہیں۔


ہم نے انہی سطور میں لکھ دیا تھا کہ عمر اکمل اور احمد شہزاد کا کیریئر ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔اِس سلسلے میں احمد شہزاد تو قدرے محتاط ہوا،لیکن عمر اکمل کا لڑکپن اور بچپنا نہ گیا،وہ مختلف تنازعات میں ملوث ہوتا رہا اور بدنامی کے وسائل خود ہی مہیا کرتا رہا، اب بھگت بھی لیا ہے۔ہمارے خیال میں جو کچھ ہوا وہ قومی کرکٹ کے مفاد کے خلاف ایک سازش ہے،اب عمر اکمل نفسیاتی مریض بن جائے گا اور سابق کپتان لیجنڈ یونس خان کا یہ کہنا بھی ہَوا میں اُڑ جائے گا کہ ’’عمر اکمل بہت ہونہار اور اچھا کھلاڑی ہے اُسے صرف سمجھانے کی ضرورت ہے‘‘ ہمارے خیال میں اب شاید یہ مرحلہ بھی گزر چکا، اب تو عمر کے لئے یہ راستہ بچا ہے کہ وہ پاکستان سے برطانیہ یا آسٹریلیا جا کر قسمت آزمائی کرے شاید اُسے موقع مل ہی جائے۔ یہاں تو اس کی چال بے ڈھنگی ہی رہے گی۔ بہرحال ہمارا بورڈ کھلاڑی ضائع کرنے کا بھی بادشاہ ہے، اب تو بورڈ متعدد کھلاڑیوں کو کھڈے لائن لگانے والا ہے اور شمال والے کم ہی نظر آئیں گے۔’’کوئی ہے جو اس مرض کا علاج کر سکے‘‘۔