ٹرین گزر نہ جائے!

epaper

اسٹیشن پر بیٹھے ہوئے جب ہر مسافر کو پتہ ہو کہ ٹرین آنے والی ہے تو کون چین کی نیند سو سکتا ہے۔ اس صورت میں تو سب بوریا بستر باندھے بیٹھے ہوتے ہیں، کچھ یہی حال آج کل پاکستان میں سیاست کا بھی ہے۔ احسن اقبال تو نجانے کس مقصد کے تحت کسی دھرنا تھری کی توقع کر رہے ہیں، حالانکہ اس وقت ملک میں دھرنے سے بھی زیادہ بے یقینی کا سماں ہے۔ کون سی سیاسی جماعت آج کل چین سے بیٹھی ہوئی ہے، سبھی جماعتیں ایک طرح سے سڑکوں پر ہیں اور آنے والے انتخابات کی تیاری کررہی ہیں۔ صورتِ حال کچھ ایسی ہے کہ صرف مسلم لیگ(ن) خود بھی رکی ہوئی ہے اور وقت کی گاڑی کو بھی روکنا چاہتی ہے، مگر باقی سب جماعتیں انتخابات کا بگل بجنے کی آس میں سڑکوں پر آبیٹھی ہیں۔ اب بلاول بھٹو نے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے خلاف شہر شہر مظاہروں کی کال دے دی ہے۔ مقصد صرف ایک ہی ہے کسی طرح عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ پیپلزپارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ جب کوئی بہت بڑا ایشو دستیاب نہ ہو تو چھوٹے چھوٹے ایشوز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف تو پہلے ہی جلسوں کے دھماکے کر رہی ہے۔ عمران خان نے پچھلے ہفتے تقریباً ہر روز جلسہ کرکے سیاسی ماحول کو گرمایا ہوا ہے۔ احسن اقبال کو ان جلسوں کی وجہ سے دھرنا تھری کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے، حالانکہ اب کسی دھرنے کی ضرورت ہے ہی نہیں، کیونکہ حکومت بہت زیادہ پھرتی بھی دکھالے تو چھ ماہ سے زائد اب چل ہی نہیں سکتی، اسے بہرحال نئے انتخابات کی طرف جانا پڑے گا۔


اس سارے سیاسی تناظر میں پیپلزپارٹی یہ محسوس کررہی ہے کہ وہ پیچھے رہ گئی ہے۔ اس کے پاس انتخابات میں جانے کے لئے کوئی بڑا ایشو بھی نہیں، وہ یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتی کہ اس نے نوازشریف کی کرپشن کا پردہ چاک کرنے کے لئے بے انتہا جدوجہد کی، کیونکہ عوام جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی ایک دوستانہ رویے کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلتی رہی۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آصف علی زرداری نے بڑی مہارت سے خود کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب کر لیا ہے اور اب وہ ناپسندیدہ شخصیت نہیں رہے، وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ اب معاملہ اتنا آسان نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات ٹھیک ہو جائیں تو سب کام آسان ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہے تو عمران خان کے بارے میں تو کہا ہی یہ جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بکس میں ہیں۔ مریم نواز تو عمران خان پر تنقیدہی یہ کرتی ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں،وہ جو کہتی ہے کرتے ہیں، حالانکہ عمران خان مقبولیت کے جس مقام پر کھڑے ہیں، وہاں انہیں اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہے۔آصف علی زرداری نے بے شک خودکو قابل قبول بنوا لیا ہے اور ان کی گفتگو میں بھی ایک توازن نظر آتا ہے۔ فوج اور عدلیہ کی حمایت میں بھی ان کے بیانات سامنے آتے رہتے ہیں، مگر اس سب کے باوجود پیپلزپارٹی کے پاس آخر وہ کون سا چورن ہے، جسے وہ انتخابات میں بیچے گی؟


کرپشن کی کہانیوں، عزیر بلوچ جیسے کرداروں اور سندھ کی بری ترین گورننس کے باعث پیپلزپارٹی کوئی بڑا دعویٰ اپنے انتخابی کشکول میں نہیں رکھتی کہ جس کی وجہ سے لوگ اسے ووٹ دینے کو تیار ہو جائیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی اپنی تاریخ کے بدترین زوال سے گزر رہی ہے۔ شاید انتخابات کے دنوں میں پورے حلقوں میں سے اسے امیدوار ہی نہ ملیں۔ اب ایسے میں ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ بلاول بھٹو میدان میں اتریں اور شہر شہر مہم چلا کر پیپلزپارٹی کے لئے عوام کی ہمدردی کو جگائیں، لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں۔ آصف علی زرداری آئندہ انتخابات کے بعد پنجاب سمیت وفاق میں حکومت بنانے کی جوپھلجھڑیاں چھوڑ رہے ہیں، وہ صرف اپنے جیالوں کا لہو گرمانے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ وگرنہ جانتے وہ بھی ہیں کہ حالات اب سازگار نہیں رہے۔ اصل میں پیپلزپارٹی کے خلاء کو تحریک انصاف پنجاب میں پورا کر چکی ہے۔ یہ خلاء برقرار رہتا تو شاید پیپلزپارٹی اپنی رابطہ، عوام مہم کے ذریعے پھر اپنی مقبولیت کو حاصل کر لیتی۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ آصف علی زرداری اب بھی بلاول کو کھلی چھوٹ دینے کو تیار نہیں۔ وہ اپنا ہاتھ اوپر رکھنا چاہتے ہیں اور یہی چیز پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ اور ناکامی کا پیش خیمہ بنی ہوئی ہے۔


ادھر مسلم لیگ(ن) کے جس رہنما کو دیکھو وہ یہ دعویٰ ضرور کرتا ہے کہ 2018ء میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوگی۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو نوازشریف کو نئے انتخابات کے بعد وزیراعظم بنانے پر بھی تلے ہوئے ہیں، حالانکہ یہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔ نااہلی کی وجہ سے نوازشریف کا انتخابات میں حصہ لینا ہی ممکن نہیں رہا، پھر وہ وزیراعظم کیسے بن سکتے ہیں؟ کیا مسلم لیگ(ن) مستقبل کے حوالے سے اس لئے پر امید ہے کہ وہ نوازشریف کی نااہلی کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) کے لئے ہمدردی کا ووٹ دیکھ رہی ہے۔ کیا صرف یہی ایک وجہ مسلم لیگ (ن) کو پھر بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی دلا سکتی ہے؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ مسلم لیگیوں کے لئے غور کرنے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی طرح مسلم لیگ (ن) کے لئے بھی عوام کے دلوں میں امید کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ، جسے کوئی بھی مسلم لیگی ماننے کو تیار نہیں، یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے اس دورِ اقتدار میں بھی کوئی ایسا بڑا کام نہیں کیا، جس سے عوام کو یہ اندازہ ہو سکے کہ حالات بدل گئے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی بنیاد پر ووٹ پڑنے کی امید لگائے بیٹھی ہے تو اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ اگر کم ہوئی بھی ہے تو عوام کو کوئی معاشی ریلیف نہیں مل سکا۔ الٹا بجلی زیادہ آنے سے ان کے بل بھی زیادہ آ رہے ہیں، پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، عوام کی قوتِ خرید بڑھائے بغیر قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں اور خود اپوزیشن کو یہ موقع فراہم کیا جا رہا ہے کہ وہ عوام کو سڑکوں پر لائے اور حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں سے لوگوں کے اندر غم و غصہ پیدا کرے۔ جیسا کہ پیپلزپارٹی نے لوہا گرم دیکھ کر ضرب لگانے کا پروگرام بنا لیا ہے۔


نوازشریف واپس آ گئے ہیں تو ان کا بنیادی فوکس اپنی ذات پر ہی ہے۔ وہ خود کو احتساب سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ وہ جمہوریت کی بات کرتے رہیں گے اور یہ باور کرائیں گے کہ ملک بہت زیادہ ترقی کر جاتا، اگر انہیں اقتدار سے محروم کرنے کی سازش نہ کی جاتی۔ نوازشریف کو شاید کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ جب وہ اقتدار سے نکالے نہیں گئے تھے، تب بھی ملک کی معاشی صورتِ حال ایسی نہیں تھی، جس پر عوام مطمئن ہوتے۔ پچھلے دو تین برسوں کے بجٹ اس بات کے گواہ ہیں کہ عوام کو معاشی ریلیف دینے کے دعوے صرف کاغذوں تک محدود تھے۔ عوام کے معاشی حالات بہتر ہوئے اور نہ ہی نچلی سطح پر رائج انگریزی دور کے نظام میں جدید عوامی شعور و تقاضوں کے مطابق کوئی تبدیلی لائی گئی۔ اگر اس طرف توجہ دی گئی ہوتی تو عمران خان عوام کو بڑی تعداد میں باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکتے۔ اگر انتخابات تک باقی ماندہ عرصے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت صرف نوازشریف کا دفاع کرتے ہوئے گزار دیتی ہے تو اس کے پاس انتخابات کے موقع پر کیا ایشو رہ جائے گا؟ خود نوازشریف کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ جو جنگ وہ بغیر ہوم ورک کے جیتنا چاہتے ہیں، کیا وہ جیت پائیں گے۔ کیا صرف ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کے سوال پر عوام انہیں دوبارہ بھاری مینڈیٹ سے اقتدار میں لائیں گے؟ جبکہ ان کے مقابلے میں جو سیاسی قوتیں ہیں، ان کے پاس مسلم لیگ (ن) کے خلاف بہت سا ایسا مواد موجود ہے، جسے ایشو بناکر عوام کو مسلم لیگ (ن) کے خلاف بھڑکایا جا سکے۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے، بروقت اور درست فیصلے نہ کرنے والے اگلے پانچ برسوں کی ٹرین مس کر دیں گے، کیونکہ یہ ٹرین ایسی نہیں، جسے بوقت ضرورت زنجیر کھینچ کر روکا جا سکے۔