پرامن عشرہ محرم، شکر اللہ کا!

epaper

محرم الحرام مقدس اور قابل تقدیس مہینہ، ہجری سال کا آغاز بھی اسی ماہ سے ہوتا اور پھر ساتھ ہی حزن و ملال کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے یکم محرم کو خلیفہ راشد دوم حضرت عمرؓ کا یوم شہادت اور پھر میدان کربلا کا المناک سلسلہ سامنے آتا ہے۔

یوں اس ماہ کی ابتداء ہی میں مسلمانوں کی تاریخ کا افسوسناک باب وا ہوتا ہے، حالانکہ سال کا آغاز بڑی سوچ بچار کے بعد اس روز سے کیا گیا تھا جب حضور اکرمؐ نے کفار مکہ سے تنگ آکر حکم ربی کے تحت مدینہ شریف کی طرف ہجرت کی تھی، محرم الحرام کا تقدس سب برقرار رکھتے ہیں۔ ہمارے شیعہ بھائی عزہ داری اور دوسرے حضرات اپنے اپنے طریق و مسلک کے مطابق یاد مناتے ہیں۔ بہرحال بات یہی ہوتی ہے کہ ’’ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ‘‘
پاکستان میں عشرہ محرم الحرام گزر گیا۔ ہر طرف امن رہا، وزیراعلیٰ پنجاب نے اس پر طمانیت اور خوشی کا اظہار کیا اور منتظمین متعلقہ کو مبارکباد دی ہے۔ ہم بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے۔

تاہم اس پر بھی نظر ڈالنا ہوگی کہ عشرہ اول کے آخری تین دن کیسے گزرے، پورے ملک میں حالات اور خدشات کیا تھے۔ دہشت گردی کا اندیشہ اپنی جگہ تاہم یہ غم بھی کھائے جا رہا تھا کہ کہیں فرقہ واریت کا بھوت باہر نہ نکل آئے۔

اس سلسلے میں اگرچہ حکومت اور انتظامی محکموں کی طرف سے محتاط رویہ اختیار کیا گیا۔ متنازعہ علماء و ذاکرین کے حساس علاقوں میں داخلوں پر پابندی لگائی گئی، بعض حضرات کو پابند کیا گیا، اس کے بعد وسیع تر پیمانے پر حفاظتی انتظامات ہوئے۔

پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی تو اس کو رینجرز کی بھی بھرپور معاونت حاصل تھی اور پاک فوج کو منتظر رکھا گیا تھا، اس کے علاوہ یہ انتظام ہوا کہ موٹرسائیکل سکوٹر کی ڈبل سواری پر پابندی رہی اور تین دن تک شہری موبائل کی سہولت سے محروم رہے۔
دوسری طرف عزاداری کے تمام تر جلوسوں کی حفاظت ہی کے لئے ان کے روٹ کی دکانیں بند کرا دی گئی تھیں اور چھتوں پر بھی لوگوں کے لئے ممانعت تھی، عزاداروں کی شمولیت کے لئے واک تھرو گیٹ بھی تھے اور ہر ایک کو ان سے گزر کر آگے جانا پڑتا تھا۔ ہمارے لئے یہ امر زیادہ تکلیف وہ رہا کہ بازار اور مارکیٹیں بند ہونے کے علاوہ اکثر سڑکوں اور راستوں کی بندش نے بھی پریشان کیا کہ جلوسوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔

ہمارے اپنے بچپن اور جوانی کے دور میں یہ صورت حال نہیں تھی اور ہماری پیدائش والا علاقہ ہی ماتم حسینؓ کا مرکز تھا کہ ہماری پیدائش اندرون اکبری دروازہ کی ہے اور اسی کے اندر نثار حویلی واقع ہے جہاں سے ذوالجناح کا مرکزی جلوس برآمد ہوتا ہے اور رات بھر اسی علاقے میں گھوم کر صبح سے اندرون شہر سے ہوتا ہوا مغرب کی نماز تک کربلا گامے شاہ تک پہنچتا ہے۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس دور میں مظفر علی قزلباش اور علامہ کفائت حسین جیسے راہنما موجود تھے جو بہت ہی متوازن رویے کے مالک تھے اور رواداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ان کی مجالس میں متنازعہ امور پر بات نہیں ہوتی تھی، سنی حضرات بھی مجلس سننے چلے جاتے تھے اور جلوس کے لئے معاونت بھی کرتے تھے۔ ہم لڑکے امام بارگاہوں میں گھوم پھر کر موسم کے لحاظ سے چائے، باقرخانی یا شربت و دودھ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
ادھر ہمارے بزرگ حضرت علامہ ابوالحسنات قادریؒ یکم محرم سے 10محرم تک ذکر شہدا کربلا کرتے۔ ان کی رہائش باغیچی صمدد اندرون اکبری دروازہ کے بالکل شروع میں تھی اور یہ محلہ شیعان (نثار حویلی) اور چوک نواب صاحب کی گزر گاہ تھی حضرت علامہ ابوالحسناتؒ ایک لاؤڈ سپیکر بازار کے کونے پر لگواتے۔ خود اپنے گھر کی بالکونی میں بیٹھتے اور تاریخ سانحہ کربلا کا آغاز کرتے وہ یکم محرم سے دسویں محرم تک کے واقعات اور سانحہ عظیم کا تاریخی اور دینی جائزہ لیتے۔

ان کا انداز بیان قرآن اور احادیث اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے ہوتا تھا اور بڑے پر اثر انداز میں واقعات کا ذکر کرتے۔ ہم نے خود دیکھا تھا کہ مظفر علی قزلباش، مظفر علی شمسی اور بہت سے معتبر ترین شیعہ حضرات ادھر سے گزرتے ہوئے حضرت کا وعظ کھڑے ہو کر سنتے اور آنسو بہاتے جاتے تھے۔ افسوسناک کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ سلسلہ بھی جاری نہیں رہا اور آج بہت کچھ نیا ہوگیا۔
یہ حقیقت ہے کہ جہاں تک فقہی امور و معاملات کا تعلق ہے تو یہ احکامات الٰہی و سنتِ رسولؐ کی تشریح کے لئے ہیں، اگر کسی مسئلہ پر کسی فقیہہ نے کسی دوسرے سے اختلاف کیا تو یہ علمی ہے، تنازعہ یا متنازعہ نہیں۔ دکھ یہ ہے کہ ان فقہوں کو پہلے مسالک بنایا گیا اور پھر ان کو مذہب تک کا درجہ دے دیاگیا، اسی وجہ سے جھگڑے اور فساد بھی ہوئے اور آج حفاظتی انتظامات کا ذکر کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی افسوسناک امر ہے کہ آئی ٹی کے فروغ کی وجہ سے سوشل میڈیا پر دل آزار ویڈیو اور پوسٹ نظر آئیں، اسی طرح بعض مجالس اور مساجد میں خطابات بھی سوشل میڈیا پر شیئر کئے گئے جو قابل تعزیر ہیں، انتظامیہ کو حفاظتی امور سے فرصت ملی تو شاید اس طرف توجہ کی جائے۔

تاہم ہماری یہ استدعا ہے کہ اگر ہم ایک اللہ، ایک قرآن اور ایک رسولؐ کو ماننے والے کہلاتے اور ہیں تو ہم سب کو فروعی اور فقہی اختلافات کو باعلم، باعمل حضرات کے لئے رہنے دینا چاہیے۔

مسلکی اختلاف پیدا کرکے پریشانی اور دشواری پیدا نہیں کرنا چاہیے کہ یہ سب کچھ ہو، ویسے کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا( آبادی کے لحاظ سے بھی) کہ ان سب معاملات پر مشاورتی انداز میں غور کیا جائے اور بدیہی اصول طے کر لئے جائیں تاکہ تنازعات سے بچا جا سکے۔