شہباز شریف ۔۔۔کیا اسیری ہے؟
قومی احتساب بیورو(نیب) لاہور نے ’’آشیانہ ہاؤسنگ سکیم‘‘ کیس میں قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہباز شریف کو گرفتار کر کے اُن کا دس دن کا ریمانڈ حاصل کر لیا ہے،اُنہیں جمعہ کے روز صاف پانی سکینڈل میں پوچھ گچھ کے لئے نیب کے لاہور دفتر میں طلب کیا گیا تھا وہ اِس سلسلے میں بیان ریکارڈ کرانے کے لئے گئے تو اُنہیں گرفتار کر لیا گیا، اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اختیارات کا غلط استعمال کیا، فواد حسن فواد کے ساتھ مل کر ایک کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کروایا،پھر اسے من پسند فرم کو دلوایا، اسے ناجائز فائدہ پہنچایا۔یہ الزام بھی ہے کہ اِس طرح مبینہ طور پر چار ارب سے زائد کا نقصان ہوا،نیب کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں، ڈی جی نیب نے سپیکر قومی اسمبلی کو قائد حزبِ اختلاف کی گرفتاری سے آگاہ کر دیا ہے۔
آشیانہ ہاؤسنگ سکیم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت تعمیر کی جانی تھی اور اس کا طریقِ کار یہ تھا کہ زمین پنجاب حکومت نے فراہم کرنا تھی اور اس کے ترقیاتی کاموں اور تعمیر پر جو بھی اخراجات ہونے تھے وہ اِس کمپنی کو کرنے تھے جسے بھی یہ ٹھیکہ دیا جاتا،اِس کیس میں یہ ہوا کہ ایک کمپنی سے ٹھیکہ واپس لے کر دوسری کمپنی کو دے دیا گیا، جس کمپنی سے ٹھیکہ واپس لیا گیا اس پر بعض الزامات لگے جو درست تھے یا غلط،یہ ٹھیکہ منسوخ ہوا اور دوسری کمپنی کو مل گیا۔دوسری کمپنی بھی کوئی کام شروع نہ کر سکی،سرکاری زمین کہیں سرک نہیں گئی، بدستور اپنی جگہ موجود ہے۔بادی النظر میں تو لگتا ہے کہ اِس کیس میں روپے پیسے کی کوئی ٹرانزیکشن نہیں،اختیارات کا استعمال ہوا، جو نیب کے خیال میں غلط تھا جس کا ’فائدہ‘‘ من پسند لوگوں ‘‘کو پہنچایا گیا۔اِسی لئے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس معاملے میں ایک پیسے کی کرپشن نہیں ہوئی،لیکن نیب کا دعویٰ ہے کہ اربوں کی کرپشن ہوئی یہ کرشمہ کیسے ہو گیا یہ حساب کتاب کی بھول بھلیاں ہیں یا محض توجیحات کا گورکھ دھندا، اس کے ثبوت تو عدالت میں نیب کو پیش کرنے ہوں گے کہ بارِ ثبوت نیب پر ہے اور اگر نیب اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا تو عدالت اپنا فیصلہ سزا کی صورت میں سنا دے گی۔ نیب ایسا نہ کر سکا تو مقدمہ ختم ہو جائے گا اور ملزم بری ہو جائے گا،نیب اس سے پہلے بہت سے کیسوں میں ماخوذ لوگوں کو سزائیں دلوا چکا اور جن کیسوں میں جان نہیں تھی ان میں ماخوذ ملزم بری ہو گئے۔نیب کے نمائندگان کی عدالتوں میں سر زنش بھی ہوتی رہتی ہے یہ کیس بھی اپنی نوعیت کے حساب سے پہلے کئی کیسوں سے مختلف نہیں ہے،جن میں دعوے تو بڑے بڑے کئے گئے،لیکن ان پہاڑوں کو کھودنے سے چوہے ہی برآمد ہوئے،یہ عقدہ نیب ہی اپنے کرشماتی دلائل سے حل کریگا حکومت کے خزانے سے تو کوئی رقم بظاہر نہیں نکلی۔کرپشن کیسے ہو گئی بہرحال پیچیدہ کیس کی گتھی عدالت میں ہی سلجھے گی۔
شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف ہیں اور اس حیثیت میں اُنہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں،کیونکہ گزشتہ دس سال سے یہ روایت چلی آ رہی ہے، تحریک انصاف ایسا نہیں چاہتی اور اس نے متبادل کے طور پر سید فخر امام کا نام دیا ہے، جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے،اِسی طرح حمزہ شہباز کا نام پنجاب کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے طورپر لیا جا رہا تھا،جس پر پنجاب کے وزیروں کے اعتراضات سامنے آئے ہیں اب شہباز شریف کی گرفتاری سے تو نہیں لگتا کہ وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بن سکیں۔البتہ حزبِ اختلاف اِس پر کیا ردعمل ظاہر کرے گی اس کا اندازہ اس اجلاس سے ہو گا ،جو سپیکر اجلاس کی ریکوزیشن کے جواب میں طلب کریں گے۔
شہباز شریف کی گرفتاری کو14 اکتوبر کے ضمنی انتخابات سے بھی جوڑا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جس طرح عام انتخابات سے پہلے نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں جلدی جلدی سزا سنا دی گئی اور اس کے لئے طریقِ کار یہ اختیار کیا گیا کہ اسے باقی ریفرنسوں سے الگ کر دیا گیا،جن کی سماعت اب ہو رہی ہے،اسی طرح اب شہباز شریف کو ضمنی انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے گرفتار کر لیا گیا ہے،حمزہ شہباز نے تو یہ دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ حکومت کو شکست نظر آ رہی تھی، اِس لئے اُس نے آشیانہ سکیم کا سہارا لے کر یہ کارروائی کر ڈالی،حالانکہ اِس کیس میں دو افسر بالترتیب آٹھ اور تین ماہ سے گرفتار ہیں اُن کے خلاف اب تک ریفرنس نہیں بنایا جا سکا اور نہ ہی تفتیش مکمل کی گئی ہے،کیا یہ تفتیش معمول سے زیادہ نہیں ہو گئی اور کیا یہ کیس اتنا پیچیدہ ہے کہ آٹھ ماہ بھی تفتیش مکمل کرنے میں ناکافی ٹھہرے۔ اِس کے برعکس نیب کے بہت سے ایسے ملزم ہیں جن کے خلاف ریفرنس بھی زیر سماعت ہیں،لیکن اُن کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔حمزہ شہباز کا خیال ہے کہ یہ امتیازی کارروائی چند روز پہلے نیب کے چیئرمین نے وزیراعظم سے جو ملاقاتیں کی ہیں، اُن کا شاخسانہ ہے۔
شہباز شریف پر اختیارات کے غلط استعمال کا جو الزام ہے وہ بھی ایک لطیفے سے کم نہیں، یہاں کون ہے جو اختیارات استعمال کرتے ہوئے ’’کتاب‘‘ کا خیال رکھتا ہے۔ پرانی باتیں چھوڑیں آج کے دور انصاف میں بھی تو آدھی رات کے بعد ایک پولیس افسر کو تبدیل کردیا جاتا ہے،جس کے ایک دو ماتحتوں نے اپنی ڈیوٹی کے دوران کئی روز پہلے کسی نام نہاد وی آئی پی کو چیک کر لیا تھا،تبادلے سے پہلے اُس افسر کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں طلب کر کے وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں ایک اجنبی نے پولیس افسر کی سرزنش کی اور دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا، یہ سب کچھ ثابت شدہ ہے کہ اختیارات سے تجاوز ہے اس پر تو حکومت نے کوئی کارروائی نہ کی اور چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینا پڑا، ورنہ یہ معاملہ وقت کی گرد میں دب گیا ہوتا اور یہ بات طے ہو جاتی کہ اجنبی لوگ جب چاہیں پولیس کا تبادلہ کر سکتے ہیں، آج بھی بہت سے وی آئی پی اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں، کیا کتے کو سرکاری ہیلی کاپٹر میں سوار کر کے وزیر اعظم ہاؤس لانا اختیارات کا درست استعمال ہے ؟معلوم نہیں کل کو کوئی نیب اس پر ایکشن لے گا یا نہیں ،لیکن شہباز شریف کی گرفتاری سے یہ بہرحال ثابت ہو گیا کہ اختیارات سے تجاوز کا کیس ہے، کرپشن کا نہیں،عین ممکن ہے کہ نیب اپنی کسی خصوصی کاوش سے اِس میں بھی کرپشن تلاش کر لے اور عدالت میں اپنا کیس بھی ثابت کردے،لیکن جب تک یہ معاملہ عدالت میں ثابت ہو گا اُس وقت تک یہ اپنے سیاسی اثرات مرتب کر چکا ہوگا، جو بہرحال مثبت نہیں منفی ہی ہوں گے۔