آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے لئے کمر کس لیں

پاکستان نے معیشت کو درپیش خطرات سے نکالنے کے لئے آئی ایم ایف سے مالی امداد کے لئے باضابطہ طور پر درخواست کر دی ہے،اِس سلسلے میں آئی ایم ایف کا وفد آئندہ چند ہفتوں میں اسلام آباد کا دورہ کرے گا اور پاکستان کے لئے قرض کے حجم اور معاشی پروگرام پر بات کرے گا۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے بالی(انڈونیشیا) میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لاگارڈ سے ملاقات کی۔آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان کو چین سمیت تمام قرضوں میں شفافیت لانا ہو گی، کسی بھی مُلک کو بیل آؤٹ پیکیج دینے سے قبل اس کے تمام قرضوں کے بارے میں مکمل آگاہی ضروری ہوتی ہے اِس لئے پاکستان بھی تمام قرضوں کی تفصیل دے۔ آئی ایم ایف یہ بھی جاننا چاہے گا کہ اداروں سمیت مُلک پر کتنا قرضہ ہے، تاکہ ہم قرضوں کی نوعیت کا اندازہ لگا سکیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینے کی تصدیق کر دی ہے اور کہا ہے کہ ایسا پروگرام لینا چاہتے ہیں جس سے معاشی بحران پر قابو پایا جا سکے اور جس کا کمزور طبقے پر کم سے کم اثر پڑے۔
موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد جو بھی اقتصادی اقدامات کئے ہیں اُن میں سادگی پر بہت زور رہا، سرکاری اخراجات کم کرنے پر بھی زور دیا جاتا رہا،وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں اور بھینسیں بھی اِسی مقصد و مدعا کو سامنے رکھ کر نیلام کی گئیں،لیکن اِس کے بارے میں بھی سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے بڑی صاف گوئی سے کہہ دیا ہے کہ چائے بسکٹ سے تواضع اور بھینسیں بیچنے سے معاشی بحران حل نہیں ہو گا،کچھ ایسی ہی بات بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال بھی کہہ چکے ہیں ایسے لگتا ہے کہ سادگی کی اِس مہم کے آغاز سے پہلے اِن حضرات سے مشاورت کا تکلف نہیں کیا گیا ورنہ وہ شاید کوئی بہتر مشورہ دینے کی پوزیشن میں ہوتے، خیر اب تو وزیراعظم ہاؤس اور وزرائے اعلیٰ کے گھروں میں یہ روایت شروع ہو چکی ہے،لیکن اِس سادگی کے کوئی اثرات نیچے تک بھی آئے ہیں یا نہیں، اِس کے بارے میں حکومت کے ترجمان کچھ بتانے سے گریزاں ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں تو بِک گئیں، لیکن مجموعی طور پر سرکاری گاڑیوں کا بے جا استعمال جاری ہے، اعلیٰ سرکاری افسروں کی بیگمات اِسی طرح اِن گاڑیوں میں شاپنگ کے لئے جاتی ہیں اور ڈرائیور چمکتے دمکتے شاپنگ مالز کے باہر گاڑیوں کے ائرکنڈیشنر چلا کر گھنٹوں آرام کرتے رہتے ہیں،اس کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ واپسی پر بیگمات اور بچوں کو گاڑیاں ٹھنڈی ملتی ہیں ورنہ ڈرائیوروں کو سخت سُت سننی پڑتی ہیں،سرکاری گاڑیاں پہلے کی طرح بچوں اور بڑوں کو سکول اورکالج سے لاتی اور لے جاتی ہیں،صبح تعلیمی ادارے کھلنے کے اوقات میں اور پھر چھٹی کے وقت کسی بھی بڑے اور نامور تعلیمی ادارے کے باہر کھڑے ہو کر ایک نظر دوڑا کر اِن گاڑیوں کو دیکھ لیا جائے تو چاروں طبق روشن ہو جائیں گے اِس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ ایک جانب وزیراعظم ہاؤس سادگی کی مہم چلائے گا اور دوسری جانب یہ فضول خرچی اور اسراف جاری رہے گا تو کیا سادگی کی مہم کامیاب نتائج دے گی یا افسروں کی فضول خرچی اِس سب کچھ کو ملیا میٹ کر دے گی۔
آئی ایم ایف سے پاکستان نے کتنا قرض مانگا ہے اور وہ کس قدر دینے پر آمادہ ہو گا اس کی تفصیلات تو آئی ایم ایف کے وفد کے دورے میں ہونے والے مذاکرات کے بعد ہی علم میں آئیں گی تاہم ابتدائی اندازے کے مطابق یہ بیل آؤٹ پیکیج 9ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو گا اور ہماری نئی نئی حکومت کو یقین ہے کہ اِس کے بعد وہ معیشت کو بہتری کی جانب گامزن کر سکے گی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے بعض متبادل راستے تلاش کئے گئے تھے اور کچھ دوستوں سے امداد کی آس بھی لگائی گئی تھی،لیکن یہ امید بر نہیں آئی، اِس لئے تاخیر کے ساتھ ہی سہی، یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ آخری چارہ کار کے طور پر آئی ایم ایف کے پاس جایا جائے اس کے باوجود سرکاری حلقے بڑے اہتمام کے ساتھ یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمیں مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا اور سابق حکومت اس کی ذمے دار ہے وغیرہ وغیرہ۔
آئی ایم ایف سے پیکیج لینا تو اپنی جگہ،لیکن اگر بعض معاشی ماہرین کی یہ تجویز مان لی جاتی کہ پٹرول سمیت بعض دوسری لگژری اشیا کی درآمد کم کر دی جائے اور اس مقصد کے لئے گاڑیوں کا بے تحاشا استعمال روک دیا جائے یا باالفاظِ دیگر پٹرول کی راشننگ کر دی جائے تو آئی ایم ایف پروگرام سے کہیں بہتر نتائج اِس طریقے سے حاصل کئے جا سکتے ہیں،پہلے تو معلوم کیا جائے کہ جتنا پٹرول بیرونِ مُلک سے درآمد کیا جاتا ہے اس کا کتنے فیصد محض سرکاری گاڑیاں ’’پی‘‘ جاتی ہیں تو ہوشربا اعداد و شمار سامنے آئیں گے،اِس لئے اگر سرکاری گاڑیوں کا استعمال ہی کم یا محدود کیا جائے تو درآمدی اخراجات پر خرچ ہونے والی ایک معتدبہ رقم بچ سکتی ہے، اسی طرح حکومت نے اشیائے تعیش کی درآمد پر براہِ راست پابندی لگانے کی بجائے اشیائے تعیش پر ٹیکس بڑھا کر یہ سمجھ لیا کہ اس طرح اِن اشیا کی درآمد کی حوصلہ شکنی ہو گی،لیکن اُنہیں معلوم نہیں کہ پاکستان کے اندر ایک کلاس ایسی پیدا ہو چکی ہے جو تین چار سو روپے کا ’’بے بی کارن‘‘ خریدنے کا شوق بھی رکھتی ہے، حالانکہ ہمارے دیہات میں مکئی کے یہ سِٹے مفت مل جایا کرتے تھے، آج بھی ان کی قیمت معمولی ہے،لیکن ناجائز دولت کی ریل پیل نے جو ایک مخصوص طبقہ پیدا کیا ہے اسے اپنی دولت خرچ کرنے کے لئے بھی تو کوئی بہانہ چاہئے،اِس لئے وہ ایسے اللے تللے کرتے رہتے ہیں۔
اشیائے تعیش بند ہو جائیں تو زرمبادلہ کے کم ذخائر بھی زیادہ عرصے کے لئے چل جائیں گے، جن کے بارے میں ہم نے واویلا مچا رکھا ہے کہ صرف ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے لئے کافی ہیں، ویسے تو یہ اعزاز معتوب اور مفرور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو حاصل ہے کہ وہ اپنی حکومت کے دوران ان ذخائر کو بڑھا کر24 ارب ڈالر تک لے گئے تھے اور طویل عرصے تک ڈالر کی قیمت ایک خاص حد تک بڑھنے نہیں دی، آپ چاہیں تو حقارت کے ساتھ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ مصنوعی اقدامات تھے، لیکن ایسے مصنوعی اقدامات کرنے والے وزیر خزانہ کو ہی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ان کے دور میں پاکستان عزت کے ساتھ آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کر کے اس سے نکل گیا، اور جی ڈی پی کی سالانہ شرح 6فیصد کو چھونے والی تھی، لیکن یہ نیا پاکستان ہے جس میں ایسی پرانی باتوں کا ذکر گستاخی شمار ہوتا ہے، اور ذکر کرنے والا گردن زدنی ٹھہرتا ہے، ہاں پرانوں کو جی بھر کر کوسا جائے تو دِل کو بہت پسند آتا ہے،حکومت صرف سرکاری گاڑیوں کا بے جا استعمال روک دے تو کسی آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہتی، لیکن یہ مشکل کام ہے،اس لئے کوئی حکومت یہ نہیں کرتی اس لئے آسان کاموں پر ہماری توجہ ہے، چلئے آئی ایم ایف سے تازہ قرضہ لے کر بھی دیکھ لیجئے شاید اِس سے مرض کو کچھ افاقہ ہو،لیکن روگی معیشتیں آج تک تو آئی ایم ایف کے انجکشن سے کبھی ٹھیک نہیں ہوئیں شاید اب کی بار یہ کرشمہ ہو ہی جائے!
سابق وائس چانسلروں کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں
قومی ادارہ احتساب ’’خود مختار‘‘ ادارہ ہے، خود وزیراعظم عمران خان نے کہا یہ ان کا ماتحت ادارہ نہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری بھی یہی کہتے ہیں، نیب کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال ہیں، وہ سپریم کورٹ کے جج رہے۔ وہ کہتے ہیں احتساب بیورو کا کسی سیاسی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں، ہم بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف نبردآزما ہیں اور یہ خدمت کسی امتیاز کے بغیر سرانجام دیتے رہیں گے، اسی سلسلے میں چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ نیب کو تحقیق کرنا ہو تو ضرور کرے لیکن کسی کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے۔ اس سلسلے میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نیب کے بعض اقدامات سے ایسا ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور یونیورسٹی ہی کے دوسرے پانچ اساتذہ کے ساتھ تو وہ ہو گیا جس کی توقع نہیں کی جاتی نیب نے ڈاکٹر مجاہد کامران کو بیان کے لئے بلایا، پھر اسی یونیورسٹی کے دو سابق رجسٹرار اور تین اساتذہ بھی بلائے گئے بیانات تو شاید اپنی جگہ ہوئے ہوں تاہم پریس ریلیز کے ذریعے بتایا گیا کہ ان کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کو ہتھکڑی لگائی گئی،بلکہ اس کی ٹیلی ویژن پر تشہیر بھی کی گئی،انا للہ وانا الیہ راجعون۔وہ عربی زبان و ادب کے ممتاز اسکالر ہیں اور انہیں بلاشبہ علمی دنیا میں معتبر حیثیت حاصل ہے۔ان کے ساتھ جو یہ رویہ برتا گیا ہے وہ تہذیب و شائستگی کے بالکل برعکس ہے۔ ان پر کرپشن کا نہیں ضابطوں کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ڈاکٹر مجاہد کامران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جو الزام لگا وہ یوں ہے کہ ان حضرات نے خلاف قاعدہ بھرتی کی اور پانچ سو پچاس افراد کو ملازم رکھا۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے خلاف تحقیقات ہو رہی تھی اور اب ثبوت مل گئے ہیں، نیب نے ان کے جسمانی ریمانڈ کی بھی درخواست کی۔ بہرحال نیب نے یہ تو ظاہر کر دیا کہ ابھی تحقیقات ثبوتوں کی حد تک مکمل نہیں ہوئی، اب دوران حراست تفتیش کرکے نتائج مرتب کئے جائیں گے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران ماہر تعلیم ہیں اور دنیا ان کو جانتی ہے۔ گرفتاری سے براہ راست ان کی شہرت متاثر ہوئی۔ اب سوال یہ کیاجا رہا ہے کہ ایسے فاضل افراد کو تو یوں گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن کئی اہم حضرات ایسے ہیں جن کے خلاف عرصہ سے تحقیقات ہو رہی ہیں ان کو گرفتار نہیں کیا جاتا، معلوم نہیں ان کو گرفتار کرتے وقت نیب کے پر کیوں جلنے لگتے ہیں؟ ایسے صاحب علم اور عالمی شہرت یافتہ ماہر تعلیم کو اس طرح زیر حراست لیا گیا تو بیرونی دنیا میں ہمارا تاثر کیا بنا ہوگا۔ ان سے تفتیش کی جا سکتی تھی یوں بھی ان کے خلاف کیس مالی خورد برد کا نہیں ہے۔اس سے پہلے بہاؤالدین زکر یا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو بھی اسی انداز سے زیرحراست لیا گیا وہ علیل تھے اور ان کو اس دوران دل کا دورہ بھی پڑ گیا تھا، ان حالات میں ایسے کیسوں کے حوالے سے مثبت تاثر نہیں بنتا، ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات سے عادی مجرموں جیسا سلوک کہاں کا انصاف ہے؟ اور یہ بلاامتیاز بھی نہیں کہلائے گا۔ نیب کو اپنے رویے اور طریق کار میں تبدیلی لانا ہوگی، تبھی حالات سدھرنے میں مدد ملے گی۔