ہتھکڑی اور قانون کی بے بسی

epaper

پاکستان میں قانون تو کئی اقسام میں پہلے ہی بٹا ہوا تھا، یعنی غریبوں کے لئے قانون، امیروں کے لئے قانون، وی وی آئی پی کے لئے قانون ،بیورو کریسی کے لئے قانون، ججوں اور جرنیلوں کے لئے قانون وغیرہ وغیرہ، مگر اب ہتھکڑی بھی مختلف قسموں میں بٹ گئی ہے۔ کہیں یہ ہتھکڑی ضروری ہو جاتی ہے اور کہیں صوابدیدی اختیار کے زمرے میں آتی ہے۔

اب ایک پروفیسر محمد جاوید کی لاش پڑی ہے اور ہتھکڑی مردہ ہاتھوں میں بھی جان نہیں چھوڑ رہی۔ بس اس پر ایک ہنگامہ سا برپا ہے کہ آخر یہ فیصلہ کس لال کتاب کو دیکھ کر کیا جاتا ہے کہ کسے ہتھکڑی پہنانی ہے اور کسے ہتھکڑی سے مبرا قرار دینا ہے۔ ایک طرف بیمار پروفیسر کو ہسپتال میں بھی ہتھکڑی سے نجات نہیں ملتی اور وہ اسی عالم میں دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور دوسری طرف جو ہشاش بشاش ملزم ہیں، انہیں بغیر ہتھکڑی کے پورے اعزاز کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔

آئی جی جیل خانہ جات نے یہ بات تو بڑی آسانی سے کہہ دی ہے کہ علاج کے لئے ہسپتال لائے جانے والے ہر زیر حراست ملزم یا حوالاتی کو ہتھکڑی لگائی جاتی ہے، مگر لوگ پوچھتے ہیں کہ شہبازشریف کو بھی جیل سے احتساب عدالت لایا جاتا ہے، مگر ان کے دونوں ہاتھ ہتھکڑی کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہیں۔

جاوید بے چارہ اگر دل کے عارضے میں مبتلا تھا تو کیا اس کے بھاگ جانے کا زیادہ ڈر تھا کہ اسے ہسپتال کے بیڈ پر بھی ہتھکڑی لگا کر لٹایا گیا۔ کیا پہرے پر سنتری بٹھا کر کام نہیں چلایا جا سکتا تھا۔ کیا جیل کے عملے کو اتنا شعور بھی نہیں ہوتا کہ ملزم کی طبی حالت کا اندازہ ہی لگا سکے؟
اب جو ہر طرف یہ ہاہا کار مچی ہوئی ہے کہ وطن عزیز میں اساتذہ کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور باقی شعبوں کے افراد کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے، تو اس کا جواب کون دے گا؟ کیا نیب یہ کہہ کر جان چھڑا سکتا ہے کہ محمد جاوید ان کی حراست میں نہیں تھا، بلکہ وہ تو اسے عدالت کے حکم پر کیمپ جیل میں بھیج چکے تھے۔ پھر یہ دلیل بھی دینا کہ جب محمد جاوید کو جیل حکام کے حوالے کیا گیا تو وہ صحت مند تھے، اس لئے ان کی ذمہ داری نہیں، حالانکہ جو ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر ہوتا ہے، اسے خاص مدت کے بعد مزید ریمانڈ کے لئے عدالت کے سامنے پیش کرنا پڑتا ہے اور یہ کام پکڑنے والی ایجنسی کرتی ہے، جیسے فواد حسن فواد اور احد چیمہ کو پیش کیا جاتا ہے۔ پھر نیب نے اپنے اس ملزم کی کوئی خبر نہیں رکھی۔ اگر وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے تو ان کا طبی معائنہ کیوں نہیں کرایا؟ کیا یہ سہولت صرف شہبازشریف ،خواجہ سعد رفیق اور کیپٹن صفدر جیسے ملزموں کو حاصل ہے کہ ان کے لئے ایک ڈاکٹر نہیں، بلکہ مکمل طبی بورڈ بنائے جاتے ہیں۔حال ہی میں یہ دوسرا واقعہ ہے کہ تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک ملزم کو ہتھکڑی لگاکر ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔

اس سے پہلے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران، سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری اور دیگر سینئر اساتذہ کو بھی ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ تصویریں اور وڈیوز سامنے آنے پر شدید ردعمل ہوا تو چیف جسٹس نے نوٹس لیا اور نیب کے ڈائریکٹر جنرل پنجاب کو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا پڑی۔
ڈاکٹر مجاہد کامران نے رہائی کے بعد ایک انٹرویو میں بتایا کہ نیب والے کس طرح ٹارچر کرتے ہیں اور عمر کا لحاظ بھی نہیں رکھتے۔ خیال تھا کہ اس واقعہ کے بعد نیب اور جیل حکام اتنی احتیاط ضرور برتیں گے کہ کسی استاد کو ہتھکڑی لگا کر پیش نہیں کیا جائے گا، مگر یہ واقعہ تو اس سے بھی آگے کا ہوا ہے کہ ہتھکڑی موت کے بعد بھی لگی رہ گئی اور اس کے کسمپرسانہ تصور نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔

چلیں جی مان لیتے ہیں کہ قانون ہتھکڑی لگانے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ قانون میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ایک استاد بدعنوانی کرے اور پکڑا جائے تو اسے ہتھکڑی نہیں لگائی جا سکتی، مگر یہ جو آئے روز شرمناک مناظر نظر آتے ہیں جن میں صاف لگ رہا ہوتا ہے کہ پولیس اور نیب والوں نے اپنی سکھا شاہی جما رکھی ہے، اپنی صوابدیدپر کسی کو ہتھکڑی لگاتے ہیں اور کسی کو نہیں لگاتے۔

ان کی موجودگی میں عوام کیسے مان جائیں کہ سب سے یکساں سلوک ہو رہا ہے۔ پورا سوشل میڈیا راؤ انوار کی وڈیوز اور تصاویر سے بھرا پڑا ہے۔ وہ جس طرح پولیس حراست میں پیشی پر آتے تھے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ ملزم تھے، وہ تو ایک بادشاہ کی طرح کپڑے جھاڑتے ہوئے بکتر بند گاڑی سے نکلتے تھے۔ پولیس والے انہیں سلیوٹ مارتے تھے اور مکمل پروٹوکول کے ساتھ انہیں عدالت تک لے جایا جاتا تھا۔

مدعی حسرت سے دیکھتے رہے کہ راؤ انوار کو کبھی ہتھکڑی لگا کر بھی لایا جائے، مگر انہیں تو جیل میں بھی نہیں رکھا گیا تھا۔ ہتھکڑی لگانا تو دور کی بات ہے۔
دوسری طرف یہ منظر بھی سب نے دیکھے کہ فیصل رضا عابدی اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو ہتھکڑی لگا کر جیل سے لایا جاتا رہا۔ اگر راؤ انوار کو ہتھکڑی نہیں لگ سکتی تھی تو فیصل رضا عابدی اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو کیوں لگائی گئی؟ یہ تو ایک دن بھی مفرور نہیں رہے، نہ ہی سپریم کورٹ کو راؤ انوار کی طرح انہیں کہنا پڑا، یہ پیش ہو جائیں انصاف کیا جائے گا۔ہر بااثر شخص کو اول تو حفاظتی ضمانت مل جاتی ہے۔

وہ اپنی مرضی سے گرفتاری دیتا ہے، پھر اسے ہتھکڑی بھی نہیں پہنائی جاتی۔ نجانے اس کے لئے قانون کیوں بدل جاتا ہے؟ شرجیل میمن نے جی بھر کے قانون سے کھلواڑ کیا۔ نیب انہیں ہتھکڑی نہ لگا سکا،حتیٰ کہ جیل بھیجنا بھی اس کے بس میں نہیں تھا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار از خود نوٹس نہ لیتے اور کراچی میں ہسپتال پر چھاپہ نہ مارتے تو شرجیل میمن آج بھی ہسپتال کے پُرتعیش کمرے میں پڑے ہوتے۔

ہسپتال میں تھے تو انہیں ہتھکڑی نہیں لگائی گئی، حتیٰ کہ وہ رات کو غائب ہو جاتے تھے، اس وقت بھی کوئی نہیں پوچھتا تھا۔ قانون میں یہ اتنی زیادہ لچک کیسے آ جاتی ہے؟ دوسری طرف قانون سوکھے سانپ کی طرح اس قدر کیوں اکڑ جاتا ہے کہ ایک پروفیسر دل کے حقیقی عارضے میں مبتلا ہو کر ہسپتال کے بستر پر پڑا ہو، مگر اس کے ہاتھوں کی ہتھکڑی نہ کھل سکے۔
سیاستدانوں کے تو پروڈکشن آرڈر بھی جاری ہو جاتے ہیں، انہیں اسمبلی میں جا کر اپنا غبار نکالنے کا موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ جیل سے عدالت لائے جائیں ،تب بھی ان کی ہر سہولت کا خیال رکھا جاتا ہے، مگر معاشرے کے کسی عام آدمی اور بطور خاص اساتذہ کے لئے ایسی کوئی رعایت یا سہولت موجود نہیں۔

مجھے یاد ہے کہ اسی نیب نے بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو بھی ہتھکڑی لگا کر کئی بار ملتان کی احتساب عدالت میں پیش کیا۔

چھوٹا قد اور منحنی سا جسم ہونے کی وجہ سے وہ دھان پان سی شخصیت کے مالک ہیں،مگر جب انہیں نیب کے اہلکار اپنے حصار میں لے کر ہتھکڑی سمیت پیشی پر آتے تھے تو ان سے ملنے کے لئے آنے والے اساتذہ اور طلبہ سے بچانے کے لئے انہیں اس بُری طرح اپنے حصار میں جکڑا جاتا کہ بے چارے ادھ موئے سے ہو جاتے۔

اب یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان یا چیف جسٹس آف پاکستان ایسا کوئی ضابطہ یا قانون بنائیں، جس سے یہ صوابدیدی اختیارختم ہو جائے کہ نیب یا پولیس جسے چاہے ہتھکڑی پہنائے، جسے چاہے وی آئی پی بنا کر عدالت میں پیش کرے۔۔۔ عالم دین مولانا عبدالمجید ندیم کا جواں سال بیٹا طاہر ندیم برسوں پہلے ملتان میں ان کے گھر کے قریب قتل کر دیا گیا تو انہوں نے ملاقات کے دوران کہا کہ مقتول کو تین گولیاں لگیں، لیکن اس کی موت پہلی گولی سے ہی واقع ہو چکی تھی۔باقی دو گولیاں ضائع گئیں۔
گویا جب جان نکل جائے تو انسان ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ محمد جاوید بھی موت کے بعد زندگی کی قید سے آزاد ہو گئے تھے، مگر ظالموں نے پھر بھی ان کی ہتھکڑی نہیں اتاری اور اسی عالم میں ان کی تصویر بن گئی۔ اب یہ تصویر ایک بہت بڑے تازیانے کی صورت میں ہمارے نظامِ انصاف، معاشرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر برس رہی ہے۔

پاکستان میں جیلوں کی دنیا ہی الگ ہے۔ سینکڑوں قیدی تو زندہ لاشوں کی صورت میں وہاں پڑے ہیں۔ بیمار قیدیوں کو صرف اسی صورت میں ہسپتال لایا جاتا ہے جب ان کی حالت بگڑ جاتی ہے، وگرنہ وہ جیل ہی میں خون تھوکتے رہ جاتے ہیں۔ پروفیسر محمد جاوید کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔

اس کی تشخیص بھی ہو چکی تھی، پھر ان کا مناسب اور بروقت علاج کیوں نہیں کرایا گیا؟ اس کی ذمہ داری کس پر عائدہوتی ہے، نیب پر جو اپنا ملزم جیل بھیج کر بھول گیا یا جیل حکام پر کہ جنہیں ہسپتال لے جاناانہیں اس وقت یاد آیا جب ذرائع کے مطابق پروفیسر جاوید قریب المرگ تھے۔ ایسے واقعات سبق سیکھنے کے لئے ہوتے ہیں، لیکن زندہ معاشروں کے لئے، یہاں تو ایسے واقعات معمول سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ ایک کے بعد دوسرا واقعہ ہوتے زیادہ دیر جو نہیں لگتی۔