صدر ٹرمپ کی ٹھنڈی اور گرم پھونکیں


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان سے بہترین تعلقات چاہتے ہیں اور اس کی نئی قیادت سے جلد ملاقات کے منتظر ہیں۔ جب ہم پاکستان کو 1.3ارب ڈالر دیتے تھے تو میں نے ہی اسے روکا تھا کئی لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ ہم سے مخلص نہیں۔ وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں اور دشمنوں کی رکھوالی کرتے ہیں یہ کام ہم نہیں کر سکتے۔ ہم مستقبل قریب میں پاکستان کی نئی قیادت سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف لڑنا چاہیے۔ انہوں نے امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی۔ انہوں نے بھارت کا ذکر کرتے حوئے کہا کہ وہ طالبان کے خلاف افغانستان کی مدد کیوں نہیں کرتا، وہ وہاں جو امداد کر رہا ہے اس کا فائدہ نہیں ۔ بھارت، روس اور پاکستان طالبان سے لڑنے کے لئے کلیدی کردار ادا کریں وہاں بھارت کیوں نہیں، پاکستان کیوں نہیں، روس کیوں نہیں، ہم ہی کیوں ہیں ۔ امریکہ افغانستان سے چھ ہزار میل کی دوری پر ہے۔ پھر بھی ہم وہاں مدد کے لئے موجود ہیں ہم دوسرے ممالک کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار رہیں گے۔ انہوں نے سابق وزیردفاع جیمز میٹس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان معاملے پر ان کے طریقہ ء کار سے مطمئن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اگر یورپ میں مقبول ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کر رہے۔یورپ کو امریکہ کا احترام کرنا چاہیے۔
امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں وسیع تر کردار اس امید پر سونپا تھا کہ وہ طالبان سے لڑے گا لیکن امریکی افواج کا حشر دیکھ کر بھارت نے شروع ہی میں افغانستان میں اپنی افواج بھیجنے سے انکار کر دیا جس پر اب صدر ٹرمپ نکتہ چینی کر رہے ہیں غالباً انہیں احساس ہو گیا ہے کہ بھارت، افغانستان میں اس کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہا۔ صدر ٹرمپ نے نہ جانے کس زعم میں بھارت سے یہ امیدیں وابستہ کرلی تھیں کہ وہ افغانستان میں اسی طرح لڑے گا جس طرح امریکہ لڑ رہا ہے۔ حالانکہ امریکی صدر کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے تھا کہ جس سنگلاخ زمین میں امریکہ اور نیٹو کی افواج اپنا سر پٹخ پٹخ کر عاجز آ چکی ہیں وہاں بھارتی افواج کیا کارنامہ انجام دے سکتی ہیں اس معاملے میں تو بھارت ہی امریکہ سے زیادہ سمجھدار نکلا کہ فوج بھیج کر رسوائی اپنے کھاتے میں لکھوانے کی بجائے ابتداہی میں اس سے انکار کر دیا۔ لیکن امریکہ پھر بھی بھارت کی چال نہ سمجھ پایافوج بھیجنے سے انکار کے بعد نہ جانے وہ کون سا ’’وسیع تر‘‘کردار تھا جس کی آس صدر ٹرمپ بھارت سے لگائے ہوئے تھے بھارت جو کچھ کر سکتا ہے وہ یہی ہے کہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرواتا رہے اور یہ کام وہ کر ہی رہا ہے۔بھارتی قونصل خانے افغان باشندوں کو تربیت دے کر پاکستان میں بھیجتے ہیں اور جو لوگ اب تک گرفتار ہوئے ہیں انہوں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ بھارت نے انہیں تربیت اورباقی سہولتیں دی ہیں۔
امریکہ نے یہ تسلیم کرنے میں بڑی دیر کر دی کہ افغان طالبان وہاں کی بڑی حقیقت ہیں جنہیں طاقت کے نشے میں نظر انداز کیا گیا اور یہ باطل تصور قائم کر لیا گیا کہ اس طرح افغانستان میں امن قائم ہو جائے گالیکن 18سال کی جنگ نے ثابت کیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ان کی حکومت تو آسانی سے ختم کر دی گئی تھی لیکن انہیں افغان سر زمین اور معاشرے سے نہیں نکالا جا سکتا تھا۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان معاشرے میں واپس آ گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی طاقت مجتمع کر لی اور قابض افواج کے خلاف گوریلا کارروائیاں شروع کر دیں جنہیں امریکی دہشت گردی کا نام دیتے ہیں اب انہی ’’دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات ہو رہے ہیں اور یہ بات امریکہ کو افغانستان میں دو ٹریلین ڈالر خرچ کرنے اور اپنے چار ہزار سے زائد فوجی مروانے کے بعد سمجھ میں آئی ہے، حالانکہ عقل و دانش کا تقاضا تھا کہ افغانستان پرحملے سے پہلے امریکہ یہ سب کچھ سوچتا لیکن صدر بش نے نائن الیون کے حملے کے بعد مغلوب الغضب ہو کر افغانستان پر فضائی حملہ کرکے اور بڑی تعداد میں افغانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد یہ سمجھ لیا کہ اب افغانستان میں اس کی راہ ہموار ہو گئی ہے جو غلط اندازہ تھا۔
اب مایوسی کے عالم میں وہ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ بھارت بھی افغانستان میں اس کی مدد کرے اور روس بھی،حالانکہ روس خود افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکرا کر اپنی وحدت پارہ پارہ کر بیٹھا تھا اور عجلت میں جنیوا معاہدہ کرکے دریائے آمو پار کر گیا تھا اسے کیا پڑی ہے کہ وہ امریکہ کو بچانے کے لئے دوبارہ اپنے آپ کو وہاں پھنسا لے البتہ اس نے حالات سے سبق سیکھ کر افغان مسئلے کے پُرامن حل کے لئے اپنی کوششیں شروع کر رکھی ہیں جن میں پاکستان اور چین بھی شامل ہیں اور یہی بہترین راستہ ہے۔ صدر ٹرمپ پاکستان کی نئی قیادت سے جلدملاقات کی خواہش کرتے ہوئے یہ بھی یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی 1.3ارب ڈالر کی امداد بند کر رکھی ہے حالانکہ پاکستان نے اس جنگ میں 123 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھایا ہے اور جانی نقصان کا تو کوئی حساب اور شمار و قطار ہی نہیں اس کے باوجود صدر ٹرمپ اب بھی کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں اور ہمارے دشمنوں کو پناہ دیتا ہے حالانکہ صدر ٹرمپ کے جو حکام پاکستان کے دورے پرآتے رہے ۔انہیں کھلی دعوت دی گئی تھی کہ وہ قبائلی علاقوں میں جہاں چاہیں جائیں اور جا کر اگر ممکن ہو سکے تو دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی بھی کر دیں تاکہ ان کے خلاف کارروائی ہو سکے۔
پاکستان نے تو یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اس نے جو کچھ کرنا تھا کر دیا اب دنیا ’’ڈومور‘‘ کرے لیکن لگتا ہے صدر ٹرمپ پاکستان کے ساتھ ساتھ اپنے یورپی اتحادیوں سے بھی خوش نہیں حالانکہ وہ طویل عرصے تک امریکہ کے ساتھ افغانستان کی مشکل سرزمین پر جنگ کرتے رہے۔ لگے ہاتھوں انہوں نے اپنے حال ہی میں مستعفی ہونے والے وزیر دفاع جیمز میٹس پر بھی نکتہ چینی کر ڈالی جو ان کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے مستعفی ہو گئے ہیں اور وہ کوئی پہلے آدمی نہیں ہیں جنہوں نے اس راستے کا انتخاب کیا ہے اس سے پہلے کئی دوسرے وزیر اور عہدیدار صدر ٹرمپ کا ساتھ انہی وجوہ کی بنا پر چھوڑ چکے ہیں کہ وہ دوسروں کی سنتے نہیں اور من مانی پر تلے رہتے ہیں ایسے میں مشیروں کا کام ویسے بھی کیا رہ جاتا ہے۔بہرحال وہ اگر پاکستان کی نئی قیادت سے ملاقات کے خواہاں ہیں تو اسے بھی ان کے خیالات میں تبدیلی کا عکاس ہی سمجھنا چاہیے۔ لگتا ہے کہ ایک برس پہلے2018ء کے شروع میں انہوں نے جو ٹویٹ پاکستان کے بارے میں کیا تھا اب وہ اسے بھول گئے ہیں یا بھول کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں جو لائق تحسین ہی قرار پائے گا۔