بھارت کی وہی دیرینہ بیماری
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں خود کش حملے پر بھارتی الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے شدید احتجاج کیا اور بے سروپا الزام تراشی بند کرنے کا مطالبہ کیا اور واضح کیا کہ پلوامہ حملے کو تحقیقات کے بغیر پاکستان سے جوڑ دیا گیا ہے۔ بھارت نے پاکستان کا پسندیدہ ریاست کا درجہ ختم کر دیا ہے۔نئی دہلی میں ہندو انتہا پسندوں نے پاکستانی ہائی کمیشن کا گھیراؤ کئے رکھا،جبکہ نئی دہلی اور جموں میں مسلمانوں پر حملے کر کے اُن کی املاک اور درجنوں گاڑیاں تباہ کر دیں۔بھارتی وزیراعظم مودی نے پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان، بھارت کو تباہ کرنے کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، حملے کی بھاری قیمت چکانا ہو گی۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ کچھ عناصر کے پاکستانی ادارے سے رابطے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی الزام تراشی کے جواب میں کہا ہے کہ بے بنیاد الزامات سے احتراز کیا جائے۔
بھارت کے اندر دہشت گردی کی کوئی بھی چھوٹی بڑی واردات کہیں بھی ہو جائے وہ میکانکی طریقے سے اِس کا الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے، کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر ہی پاکستان پر الزام عائد کر دینا بھارت کا عشروں پرانا طریقہ ہے اور اس میں کسی ایک حکومت اور کسی ایک پارٹی کی بھی تخصیص نہیں، حکومت کسی کی بھی ہو، واردات کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر اندر پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی جاتی ہے اور پھر اس کی لے آہستہ آہستہ بڑھائی جاتی ہے، پارلیمینٹ پر حملے کے بعد بھی یہی کیا گیا، پٹھان کوٹ حملے کا الزام بھی پاکستان پر لگایا گیا، ممبئی حملوں کے بعد ایسا ہی طرزِ عمل اختیار کیا گیا، یہاں تک کہ انتہائی مضحکہ خیز انداز میں شروع میں سمجھوتہ ایکسپریس میں آتشزدگی کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا گیا،حالانکہ اس سازش کی تمام تر منصوبہ بندی ایک حاضر سروس فوجی افسر نے کی تھی، جس کا کھوج لگاتے لگاتے ایک پولیس تفتیش کار درست نتیجے پر پہنچ گیا تھا اور اس فوجی افسر کی گرفتاری ہونے والی تھی کہ پُراسرار انداز میں اس پولیس افسر کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا، اس تفتیشی پولیس افسر کو اُن عناصر نے مروایا،جنہیں خدشہ تھا کہ اگر فوجی افسر کو گرفتار کر لیا گیا تو نہ صرف اس سارے منصوبے کا تاروپود بکھر جائے گا،بلکہ اس کے سائے اُن تمام وارداتوں تک بھی پھیل جائیں گے، جن میں پاکستان کو منصوبہ بندی کے ساتھ ملوث کیا جاتا رہاہے اور جن کے ساتھ پاکستان کا کوئی تعلق کبھی ثابت نہیں ہوا، پٹھان کوٹ حملہ بھی ایک ایسا ہی واقعہ ثابت ہوا اِس کا الزام بھی بھارتی حکومت نے پاکستان پر لگایا،لیکن بعد کی تحقیقات نے اس الزام تراشی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ممبئی دہشت گردی کے واقعات میں بھی تاخیر سے ہی سہی پاکستان کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔
اب پلوامہ کے واقعے میں بھی بھارت نے فارمولا فلموں کی طرح یہی الزام تراشی شروع کر دی،لیکن بھارت کے اندر بھی پاکستان پر اس کو درست تسلیم نہیں کیا جا رہا، خود کش حملہ آور عادل ڈار کے بارے میں اس کے والدین کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ وہ تین سال پہلے بھارتی فوجیوں کے جسمانی تشدد کے بعد شدت پسند بنا وہ2016ء میں سکول سے واپس آ رہا تھا کہ اُسے اور اُس کے دوستوں کو سیکیورٹی اہلکاروں نے پکڑ لیا، پتھراؤ کرنے کا الزام لگا کر اُسے مارا پیٹا، جس کے بعد وہ عسکریت پسندی کی طرف مائل ہونے لگا۔گزشتہ سال19مارچ کو وہ کام پر گیا،لیکن واپس نہیں آیا، والدین کے مطابق انہوں نے اُسے تین ماہ تک تلاش کیا پھر تھک ہار کر بیٹھ گئے، علاقے کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عادل ڈار کبھی پاکستان نہیں گیا۔گزشتہ برس اُس کا گھر گرایا گیا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی، جس پر اُس کے سینے میں بدلے کی آگ بھڑکنے لگی تھی۔
بھارت کے دفاعی مبصرین اب یہ تسلیم کرنے لگے اور عالمی جریدوں میں اس مفہوم کے آرٹیکل لکھ رہے ہیں کہ کشمیر کے لوگوں کے لئے اپنے غصے یا خواہش کے اظہار کا کوئی موقع نہیں رہا، کشمیر میں لڑنے والے وہیں پلے بڑھے ہیں، وہ پاکستان سے دراندازی کرنے نہیں آتے، جو بات تجزیہ نگاروں کو سمجھ آ رہی ہے حیرت کی بات ہے کہ وہ حکومت یا نریندر مودی سمجھنے سے قاصر ہیں اور اپنی حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے والا میڈیا بھی معروضی صورتِ حال کو سمجھنے کی بجائے اپنے اُن سیاسی رہنماؤں کے لتیّ لینا شروع ہو گیا ہے،جو کہہ رہے ہیں کہ اِس معاملے میں پاکستان ملوث نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ جب خود کش حملہ آور کے بارے میں معلوم ہو چکا ہے وہ کون ہے، اُس کے والدین حیات ہیں، جو اُس کے عسکریت پسند بننے کی وجوہ بھی بتا رہے ہیں ایسے میں بھارت کی حکومت کا فرض تو یہ ہے کہ وہ یہ سراغ لگائے کہ کشمیر کے لوگ اس کے خلاف کیوں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بھارتی ظلم و ستم نے کشمیر کی ساری نوجوان نسل کو جس راستے پر ڈال دیا ہے اس کی وجوہ تلاش کرنے کی بجائے بھارتی حکومت نے نہ صرف پاکستان پر الزام تراشی کا افسوس ناک راستہ اختیار کر لیا ہے،بلکہ حسبِ سابق دھمکیوں کا سلسلہ بھی دراز کر دیا ہے، حالانکہ ضرورت تھی کہ بھارتی قیادت اِس بات پر ٹھنڈے دِل سے غور کرتی کہ بیس سال سے بھی کم عمر کے ایک نوجوان نے اپنے آپ کو خود کش بمبار کیوں بنایا اور اُس کے اِس راستہ پر چلنے میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کس حد تک ذمے دار ہیں۔
مودی سرجیکل سٹرائیک کے فسانے سناتے سناتے اب براہِ راست دھمکیوں پر اُتر آئے ہیں۔ مودی کو اپنی ترجیحات درست کرنے کی ضرورت ہے، لیکن لگتا ہے اُن کی ٹھنڈی ٹھار انتخابی مہم نے اُن کے اوسان خطا کر دیئے ہیں اور غالباً وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ2014ء کی انتخابی مہم کیسے واپس لا پائیں گے،اِس لئے جونہی خودکش دھماکہ ہوا اُنہیں پاکستان پر الزام تراشی کا تازہ موقع مل گیا اور انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پاکستان پر پرانے الزامات دہرا دیئے اور اُن کے حامیوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ اپنے اُن ہم وطنوں کو بھی رگیدنا شروع کر دیا جو یہ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی وطن اور مذہب نہیں ہوتا، اور برف پوش پہاڑوں کے دشوار گزار علاقوں سے کسی دہشت گرد کا پاکستان آنا ممکن ہی نہیں۔نہیں معلوم عقل و خرد کو خیر باد کہہ کر الزام تراشی کا رویہ اختیار کرنے والی بھارتی قیادت زمینی حقیقتوں اور کشمیر میں بہتے ہوئے خون پر نگاہ کب ڈالے گی۔