صوبائی اسمبلیاں،وزرائے اعلیٰ کار کردگی، خبیر پختونخوا،جام کمال سر فہرست 


لاہور (خصوصی رپورٹ)پلڈاٹ نے 2018 کے عام انتخابات کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے پہلے سال کی کارکردگی کے حوالے سے تقابلی جائزے کی رپورٹ جاری کر دی۔ پہلے سال سندھ اسمبلی نے سب سے زیادہ دن اجلاس بلا کر دیگر تمام اسمبلیوں پر سبقت حاصل کر لی۔   قانون سازی کے حوالے سے خیبرپختونخو ا اسمبلی نے سب سے زیادہ30بلز پاس کئے، بلوچستان کے وزیر اعلی جام کمال 51صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں میں سے 31 میں شرکت کیساتھ سر فہرست رہے جبکہ خیبرپختونخواوہ پہلی اسمبلی تھی جس میں عام انتخابات کے بعد سب سے پہلے تین ماہ کے اندر قائمہ کمیٹیاں تشکیل دیں۔ پلڈاٹ تقابلی جائز ہ کے مطابق سندھ اسمبلی نے پہلے سال کے دوران 91دن پر محیط اجلاس 
بلائے جس کے بعد پنجاب اسمبلی 77دن اجلاس میں رہی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 61دن اجلاس رہے جبکہ بلوچستان 51دن اجلاس میں رہی۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی نے ورکنگ ڈیز کے حوالے سے دیگر اسمبلیوں پر سبقت حاصل کی۔ پہلے سال میں 303گھنٹے اجلاس، جس کی اوسط 3.20گھنٹہ فی نشست بنتی ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی 172.31گھنٹے اجلاس جاری ر ہے جس کی اوسط 2.14گھنٹے فی اجلاس بنتی ہے۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی پہلے سال میں 167.09گھنٹے ورکینگ میں رہی۔ خیبرپختونخوا پہلے سال میں 151.48کے اجلاس رہے جس کی فی سیشن اوسط 2.29بنتی ہے۔ پہلے سال کے دوران بلوچستان اسمبلی میں وزیر اعلی سب سے زیادہ اجلاس کی کارروائیوں کا حصہ رہے انہوں نے 51صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں میں سے 31میں شرکت کی ہے جس کا تناسب 60.78رہا۔ اسی طرح سندھ وزیر اعلی مراد علی شاہ نے 91میں سے 37اجلاسوں میں شرکت کی جس کا تناسب 40.66رہا، وزیر اعلی ٰ پنجاب عثمان بزدار تیسرے نمبر پر رہے جنہوں نے 77میں سے 12اجلاس میں شرکت کی جبکہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے61نشستوں میں سے فقط 9نشستوں میں شرکت کی۔ قائد حزب اختلاف کی ایوان میں موجودگی کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی بازی لے گئی جہاں پراپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان نے 51میں سے 41اجلاسوں میں شرکت کی جس کا تناسب 80.39فیصد رہا۔ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید فردوس شمیم نقوی نے 71اجلاس میں سے 67اجلاسوں میں شرکت کی۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اکرم خان درانی تیسرے نمبر پررہے جنہوں نے فقط 44 اجلا سو ں میں شرکت کی۔ پنجاب اسمبلی حمزہ شہبازنے 77نشستوں میں سے 20اجلاسوں میں شرکت کی۔پہلے سال قانون سازی کے حوا لے سے خیبرپختونخو ا اسمبلی نے سب سے زیادہ30بلز پاس کئے،پنجاب نے 17قوانین کی منظوری دی،سندھ اسمبلی نے 12جبکہ بلوچستا ن اسمبلی نے 8بلز کی منظوری دی۔ عام انتخابات کے بعد قائمہ کمیٹیاں تشکیل دینے میں پنجاب اسمبلی دوسرے نمبر پر رہی جس نے پانچ ماہ، سندھ اسمبلی قائمہ کمیٹیاں 7ماہ کے اندر تشکیل دے کر تیسرے اور بلوچستان اسمبلی کوقائمہ کمیٹیاں تشکیل دینے میں نو ماہ لگ گئے جس کی وجہ سے وہ چوتھے نمبر پر رہی۔ چا ر اسمبلیوں میں سے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی جانب سے اراکین اسمبلی کی حاضری کی شفاف تفصیلات فراہم کی گئیں تاہم سندھ او ر بلوچستان اسمبلی کی جانب سے حاضری کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ خیبرپختونخوا میں اراکین اسمبلی کی حاضری زیادہ رہی جہاں پر اراکین کی اوسط حاضری 75فیصد رہی،اسی طرح پنجاب اسمبلی کے اراکین کی ایوان میں حاضری کا تناسب میں 57فیصدرہا۔ پہلے سال میں عدم شفافیت کی مثال کے طور پر اراکین کی تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے بل منظو ر کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
پلڈاٹ