صدرِ مملکت کی بے یقینی
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ صاف شفاف اور قابل ِ اعتبار الیکشن ہوں بصورت دیگر یہ پاؤں کی زنجیر بن جائیں گے، تمام سیاسی جماعتوں کے مفاد کے لئے وقت پر انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں تاہم اْنہیں یقین نہیں ہے کہ جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات ہوں گے۔اْن کا کہنا تھا کہ اْنہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لئے الیکشن کمشنر کو بلایا لیکن وہ نہ آئے، پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لئے لکھے گئے خط کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، الیکشن کمیشن کو دعوت دی تھی کہ آئیں ساتھ بیٹھ کر طے کرلیں تو جواب آیا کہ ضرورت ہی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ستمبر 2023ء میں لکھے گئے خط کے بارے میں صدر علوی کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کا ایک آرٹیکل تھا 57/1 جسے تبدیل کر دیا گیا تاہم اْنہوں نے اِس پر دستخط نہیں کیے تھے کیونکہ وہ حج کی سعادت حاصل کرنے گئے ہوئے تھے اور جب واپس آئے تو ترمیم ہوچکی تھی، اگر وہ ایوانِ صدر میں ہوتے، حج پر نہ گئے ہوتے تو الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم کو مسترد کر دیتے اور اس پر کبھی دستخط نہ کرتے۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ وہ ایسی خبریں پڑھ رہے تھے کہ حالات اچھے نہیں ہیں اِس لئے انتخابات نہیں ہوسکتے، حکومت کے اِس موقف پر اْنہوں نے خط میں یہ بھی لکھا کہ ایک زمانے میں واشنگٹن پر حملہ ہوا تھا، اِسے آگ لگا دی گئی تھی، لوگ وہاں سے بھاگ گئے تھے تاہم اِس سب کے باوجود وہاں انتخابات کرائے گئے۔ صدرِ مملکت نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ انتخابات 90دن میں ہوں تو اْنہوں نے اِسی حساب سے 6 نومبر کی تاریخ تجویز کی جبکہ وزارت قانون کا موقف تھا کہ کہ اْن کے پاس تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے جبکہ پنجاب اور کے پی انتخابات کے حوالے سے عدالتوں نے حتمی فیصلہ دینا تھا لیکن وہ نہیں ہو سکا، اپنے خط میں بھی یہی لکھا کہ آپ سپریم جیوڈیشری سے مشورہ کر کے اِسے طے کرلیں،اب معاملہ سپریم جیوڈیشری کے پاس چلا گیا ہے اور اْمید ہے وہاں سے مناسب فیصلہ آ جائے گا۔ صدرِ مملکت کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کام کو سراہتے ہیں کہ اْنہوں نے سپریم کورٹ میں اتفاق پیدا کیا، تمام ججوں کو اکٹھے بٹھایا اور اب الیکشن سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے کہ یہ کیس جلدی کیوں نہیں لگوایا گیا، معاملہ بہت اہم اور ضروری تھا اِس لئے جلدی لگنا چاہئے تھا۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ عوام کو عدلیہ پر بڑا بھروسہ ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بھی قوم کو بڑی اْمیدیں ہیں، وہ شفاف انداز میں بینچ بنا رہے ہیں، الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 57 میں ترمیم آئین کے خلاف ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اْن کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اْنہوں نے نہیں بھیجا تھا بلکہ وزیراعظم ہاؤس سے آیا تھا تاہم بعد میں سابق وزیراعظم نے بھی کہہ دیا تھا کہ وہ ریفرنس بھیجنا نہیں چاہتے تھے۔ اِس سوال پر کہ آپ کے عہدے کی مدت پوری ہو چکی ہے، آپ نے عہدہ کیوں نہیں چھوڑا؟ صدر عارف علوی نے کہا کہ آئین کہتا ہے جب تک اسمبلیاں دوسرے صدر کا انتخاب نہ کرلیں صدر اپنا کام جاری رکھے۔
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ایماندار اور محب وطن ہیں، آج بھی اْن کے لیڈر ہیں، لوگوں کو اٹھا لینے اور ایمان بدلوانے سے عمران خان کی مقبولیت کم نہیں ہو رہی بلکہ بڑھ رہی ہے۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ سے توڑ پھوڑ کے خلاف ہیں اور ایسا نہیں ہونا چاہئے، اْنہوں نے بطور صدر 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آگے جانے کا راستہ کھلنا چاہئے، وہ ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگانے پر ہمیشہ زرداری صاحب کو کریڈٹ دیں گے جبکہ بینظیر بھٹو نے حکومت میں آکر جیلوں میں تشدد کا ماحول بدل دیا جو ضیاء الحق دور کی پہچان تھا۔صدرِ مملکت کا کہنا تھا کہ مینارِ پاکستان جلسے میں نواز شریف نے سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی، پھر اگلے دن سروے میں عوام کی اکثریت 70 فیصد نے کہہ دیا کہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی سے محاذ آرائی کے خاتمے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی حمایت کرتے ہیں، اِس طرح مسلم لیگ(ن) جس بیانیے کی تلاش میں تھی وہ عوام نے نوازشریف کے ہاتھ میں تھما دیا ہے، اِس وقت ملک کو جوڑنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق چند روز قبل عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 90 دنوں والی بات ممکن نہیں، وہ بات بتائیں جو ممکن ہو، آپ کا سارا مقدمہ ہی صدرِ مملکت کے اختیارات کا ہے، اگر تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے تو پھر تاخیر کا ذمہ دارکون ہے؟ آئینی کام میں تاخیر کے نتائج ہوں گے،کیا صدرِ مملکت نے آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی؟ جس دستاویز کا حوالہ دیا جا رہا ہے اس میں صدر خود رائے مانگ رہے ہیں، کیا سپریم کورٹ ایک ٹویٹ پر فیصلے دے؟ وہ ٹویٹ جس میں صدرِمملکت اپنے آئینی اختیارات کی بات نہیں کر رہے، صدرِ مملکت نے جب تاریخ دے دی تو پھر اْنہوں نے خود خلاف ورزی کردی؟ چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ دینے کا اختیار ہے جبکہ آئین کے مطابق صدرِ مملکت نے تاریخ دینا ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر صدر کے پاس اختیار تھا تو تاریخ کیوں نہیں دی؟ کوئی تو ذمہ دار ہے؟ کیا آپ صدرِمملکت کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں؟دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کے روز وہی بات کی جو صدرِ مملکت نے مسلم لیگ(ن) کے بیانیے سے متعلق گفتگو کے دوران کہی کہ اْن کی جماعت کی کسی سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی، نوازشریف کہہ چکے ہیں کہ وہ انتقام کی سیاست نہیں کریں گے، اقتدار میں آئے تو بیانیہ مفاہمت ہی ہو گا۔
ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی کوششیں جاری ہیں،حال ہی میں اِس محاذ پر مثبت اشاریے بھی سامنے آئے ہیں تاہم دیر پا معاشی ترقی کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کا مل جل کر ایک ہی سمت میں کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاسی استحکام پیدا کیے بغیر معاشی مسائل پر قابو پانا ممکن ہی نہیں ہے۔سیاسی جماعتوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز نہ صرف اِس بات کو محسوس کر رہے ہیں بلکہ اِس کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ صدرِ مملکت نے بھی آگے بڑھنے کے لئے راستہ تلاش کرنے کی بات کی ہے۔اْنہوں نے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرنے کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی کہ اِس کے بغیر کرائے گئے انتخابات سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آ سکے گا جو براہِ راست معاشی مسائل پر قابو پانے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی بھی مسلسل یہی تقاضا کر رہی ہے۔ صدرِ مملکت نے انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے اپنے موقف اور مجبوریوں کی تفصیل سے وضاحت کر دی ہے، اب معاملہ عدالت میں ہے اور وہاں سے فیصلہ سامنے آ ہی جائے گا تاہم پیپلز پارٹی سمیت لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ دیے جانے کا تقاضا کرتی نظر آ رہی ہیں،بہتر یہی ہے کہ الیکشن کمیشن جلد از جلد انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کر دے تاکہ اِس سے متعلق شکوک شبہات کا خاتمہ ہو اور ملک میں قائم بے یقینی کی دھند چھٹ جائے