ہندوستان میں اقلیتیں اپنی زندگی اور مذہب کے حوالے سے مسلسل خوف کا شکار ہیں۔ بالادست ہندوتوا حکومت ریاستی پالیسی کے طور پر اقلیتوں کی نسل کشی، ان کے مذہبی مقامات مسمار کرنے اور ان کی بے حرمتی کا ارتکاب کر رہی ہے۔ بھارتی ریاست عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔کشمیریوں کو مسلسل کرفیو، غیرقانونی حراستوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا سامنا ہے۔
بھارتی بدنام زمانہ حکومت گزشتہ سات دہائیوں سے دہشت گردی جاری رکھے ہوئے ہے تاہم 2014 ء کے بعد سے اس میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ہندوستانی حکومت نے اکثریت پسندی یعنی ہندو راشٹرا کی سیاست کے سہارے اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی امتیازی سلوک روا رکھا ہے۔ جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے، آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کے ذریعہ مساجد، گرجا گھروں اور مندروں پر حملوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
فاشسٹ بھارتی حکومت امتیازی قوانین اور میڈیا پروپیگنڈا مہم کی مدد سے اقلیتوں کو کم تر انسان ظاہر کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ ہندوتوا نظریات اقلیتوں کی شناخت، تاریخ، خصوصاً عبادت گاہوں کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بابری مسجد کو شہید کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے حربے اور طریقے ہندوتوا شرپسندوں کے لیے ایک ترجیحی ماڈل بن چکے ہیں۔ ان حربوں اور طریقوں کو دوسری مساجد کو نشانہ بنانے کے لیے بار بار استعمال کیا گیا۔
2021 ء میں بھارت میں مسلمانوں، مسیحیوں اور سکھوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے کل 294 واقعات رپورٹ ہوئے۔ بھارت بھر میں درجنوں تاریخی مساجد ہندو شرپسندوں کے حملوں کی زد میں آئیں۔ 1600 سے زائد مساجد کے خلاف میڈیا میں مہم چلائی جا رہی ہے جبکہ منی پور میں سینکڑوں گرجا گھروں کو نذر آتش کیاگیا۔ بھارت میں مسیحیوں کے خلاف ہر سال مذہبی اور سیاسی بنیاد پر 100 کے قریب تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں۔مسلم اور مسیحی آبادی کو بد نام کرنا بھارت کا سیاسی ایجنڈا ہے۔
بھارتی حکومت 24,496 مذہبی مقامات کو جبری طور پر اپنے کنٹرول میں لے چکی ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ہندوستانی عدلیہ اقلیتوں کی نسل کشی اور تشدد کے مرتکب افراد کو ریلیف دے کر ان کے جرم میں برابر کی شریک ہے۔ سکھوں کو ہندوستان میں مذہبی امتیاز، ظلم و ستم، مقدس مقامات کی بے حرمتی اور قتل عام کا سامنا ہے جبکہ ہندوستانی بدنام زمانہ دہشت گرد نیٹ ورک تمام براعظموں تک پھیل گیا ہے۔ اس بات کا پتہ کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل اور امریکہ میں ایک اور سکھ رہنما کے قتل کی ناکام سازش سے لگایا جا سکتا ہے۔
عالمی برادری ہندوستان سے مطالبہ کرے کہ وہ ”شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے“ کا فریق ہونے کے ناتے انسانی حقوق کے اپنے وعدوں کو برقرار رکھے۔ اقوام متحدہ اپنی ذمہ داریاں پورے کرتے ہوئے ہندوستانی حکومت کو اقوام متحدہ کے اعلانات کا احترام اور بھارت میں اقلیتوں کے قومی، نسلی، ثقافتی، مذہبی اور لسانی تشخص کے تحفظ پر عملدرآمد یقینی بنانے پر مجبور کرے۔
بھارتی ریاست عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ عالمی طاقتیں دہشت گرد بھارتی ریاست کے خلاف سخت اقدامات کریں تاکہ نہ صرف اقلیتوں کو بھارتی ریاستی دہشت گردی سے بچایا جا سکے بلکہ تنازعہ کشمیر کے مستقل حل کو یقینی بنایا جا سکے۔
جنوبی ایشیاء اور دنیا بھر میں حقوق کے وسیع نیٹ ورکس کے حامل انسانی حقوق کے آزاد ادارے کے طور پر، ایچ آر سی پی کا ماننا ہے کہ 5 اگست 2019ء کے بعد سے جموں و کشمیر میں جاری صورتحال نے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا کیا ہے جس سے وہاں کی مشکلات کا شکار آبادی جنگ اور تباہی کے مزید خطرے سے دوچار ہوگئی ہے۔ جموں و کشمیر کے لیے نیا ڈومیسائل قانون بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کا تہیہ کررکھا ہے، جو کشمیری شہریوں کے اپنے حقوق کے لیے نقصان دہ ہے۔
ایچ آر سی پی علاقائی اور بین الاقوامی رہنماؤں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے رہائشیوں کے انسانی حقوق کی حمایت کریں۔ ایچ آر سی پی یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی حکومتیں مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کریں اور ایسے کسی بھی مذاکرات اور تصفیے میں کشمیریوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔
آزادی کشمیر کی جنگ عقیدے اور آزادی کی جنگ ہے جو اپنے مقصد کے حصول تک رکنے والی نہیں۔ اقوامِ متحدہ نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا وعدہ کیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دنیا خاموش ہونے لگی مگر کشمیری خاموش نہیں ہوسکا۔مقبوضہ کشمیر میں جس کثیر تعداد میں بھارتی فوجی موجود ہیں وہ دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو والا بھارت دنیا کے نقشے سے مٹ چکاہے اور اب مودی کا بھارت ہے جو اقلیتوں پر ظلم اوراْن کے بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے سے گریز نہیں کرتا۔بدقسمتی سے آج کے بھارت پر آر ایس ایس کے نظریے کی حکمرانی ہے جس کے انتہا پسند نظریے میں مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران ٹولے بی جے پی نے کشمیریوں کی آوازکو دبانے کیلئے مزید ظالمانہ طریقے اختیار کر لیے ہیں تاکہ ان کی حق خودارادیت کے حصول کیلئے آواز کو دبایاجا سکے۔ جعلی مقابلوں، عصمت دری اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کی شکل میں انسانی مصائب ناقابل بیان ہیں۔