اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 183

Jun 01, 2019 | 01:11 PM

اے حمید

بنو حمید اپنے باغ میں ایک عالی شان آرام دہ کرسی پر بیٹھا بلوریں ظروف میں پڑے عرق کو جانچ رہا تھا۔ وہ حبشی غلام اور ایک بوڑھا شخص اس کے قریب ادب سے کھڑے تھے۔ میں نے جھک کر سلام کیا اور ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ بنو حمید کی پیشانی سے جرات، دلیری اور کشادہ دلی ہویدا تھی۔ اس کے شانے چوڑے اور آنکھیں قدیم مسلمان مور شہزادوں کی طرح نیلی تھیں۔ اس کے شانے چوڑے اور آنکھیں قدیم مسلمان مور شہزادوں کی طرح ہلکی نیلی تھیں۔ اس نے خالص ہسپانوی لہجے میں عربی بولتے ہوئے بوڑھے بزرگ کو کچھ ہدایات دیں اور وہ عرق کی صراحی لے کر تعظیم بجا لانے کے بعد چلا گیا۔ اب بنو حمید نے اپنی ہلکی نیلی شاہانہ آنکھیں اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ میں اس سے کیوں ملنا چاہتا تھا اور کہاں سے آیا ہوں؟ میں نے آداب شاہی کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہا کہ میر انام عبداللہ ہے۔ میں مصر کا رہنے والا نوجوان ہوں۔ جڑی بوٹیوں کی پہچان رکھتا ہوں اور اس کی خدمت میں رہ کر اپنی روزی کمانا چاہتا ہوں۔ بنو حمید مجھ سے کمال خوش اخلاقی سے پیش آیا اور مجھے اپنی معمل گاہ میں اسی وقت ملازم رکھ لیا۔ معمول گاہ جہاں جڑی بوٹیوں کی جانچ پڑتال ہوتی اور انہیں صاف کرنے کے بعد تھیلوں میں بند کیا جاتا تھا ، بنو حمید کی عالی شان حویلی میں ہی تھی۔ میں نے وہاں کام شروع کردیا۔ بنو حمید سے میری ملاقات بہت کم ہوتی تھی لیکن اسے بہت جلد معلوم ہوگیا کہ جڑی بوٹیوں کے بارے میں میرا علم بہت وسیع اور قدیم ہے۔ ایک روز ایسا ہوا کہ شاہی خاندان کی ایک خاتون پر فالج کا حملہ ہوا اور اس کی ایک ٹانگ اور بازو مفلوج ہوکررہ گیا۔ بنو حمید کے خاندانی معالج نے کئی ایک بوٹیوں سے دوائیاں تیار کرکے آزمائیں مگر خاتون کو کوئی افاقہ نہ ہوا۔ جب یہ بات مجھ تک پہنچی تو میں نے بنو حمید کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ جنتال نام کی ایک بوٹی اگر مل جائے تو مریضہ کا علاج ہوسکتا ہے۔ بنو حمید نے پوچھا کہ یہ بوٹی کہاں مل سکے گی۔ میں نے کہا کہ سب سے پہلے مجھے جڑی بوٹیوں کے گودام کی پڑتال کرنی ہوگی۔ اگر ہمارے پاس یہاں موجود نہ ہوئی تو پھر اسے جنگل میں جاکر تلاش کروں گا۔ بنو حمید نے مجھے ساتھ لیا اور ہم حویلی کے گودام میں آگئے جہاں جڑی بوٹیوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ اتفاق سے میری نظر پہلے ہی ڈھیر پر پڑی تو مجھے وہاں جنتال بوٹی نظر آگئی۔ میں نے اسے اٹھا کر بنو حمید سے کہا

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 182 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”شہزادے صاحب! یہی وہ گوہر مقصود ہے جس کی مجھے تلاش تھی۔“
بنو حمید نے تعجب سے بوٹی کو دیکھا ”مگر یہ تو ہم نے بے کار سمجھ کر یہاں پھینک رکھی ہے اور ہمارے شاہیمعالج نے بھی اسے کوئی اہمیت نہ دی۔“ میں نے مسکراکر کہا
”حضور مریضہ کو انشاءاللہ اسی بوٹی سے شفا ملے گی۔“
میں نے بوٹی کو پیس کر اس کا عرق کشید کیا اور مریضہ کو اس کے چار چار قطرے دو دو گھنٹے بعد پلانے شروع کردئیے چوبیس گھنٹوں کے بعد مریضہ پر فالج کا اثر بالکل ختم ہوچکا تھا اور اس کے ہاتھ پاﺅں کام کرنے لگے تھے۔ اس واقعے کے بعد بنو حمید کی مجھ سے دوستی ہوگئی۔ وہ زیادہ وقت مجھے اپنے ساتھ رکھنے لگا۔ میں بھی نوجوان تھا۔ اس کا بھی عالم شباب تھا۔ وہ میری زیر کی اور ذہانت سے بہت متاثر ہوا تھا۔ وہ جڑی بوٹیوں اور علم کیمیا کے علاوہ بعض نجی معاملات میں بھی مجھ سے مشورہ لینے لگا۔ میں نے ابھی اپنی فرض شناسی، خلوص اور احساس ذمہ داری سے اس کے دل میں اپنے لئے مزید جگہ بنالی۔ ابھی تک اس پر میری خفیہ طاقتوں کا راز نہیں کھلا تھا۔ اس کا موقع بھی نہیں آیا تھا اور میری ایسی کوئی خواہش بھی نہیں تھی کہ میں اس پر اپنی خفیہ طاقتوں کا خواہ مخواہ انکشاف کروں۔
بنو حمید کی ذات میں حسن و احسان، شجاعت و بردباری، فیاضی اور دریا دلی کی وہ اعلیٰ صفات موجود تھیں جنہوں نے اس کے آباﺅ اجداد کا نام روشن کیا تھا لیکن میں نے محسوس کیا کہ اکثر وہ ایک دم جیسے اداس ہوجاتا تھا۔ پھر وہ دیر تک ٹکٹکی باندھے ایک سمت تکتا رہتا۔ میں اس کے کافی قریب ہوچکا تھا اور اس کے مزاج میں بھی مجھے ایک حد تک دخل حاصل تھا۔ ایک روز میں نے بنو حمید سے اس کے اچانک اداس ہوجانے کی وجہ دریافت کی تو وہ آہ بھر کر بولا۔
”عبداللہ! میں تمہیں اپنا دوست ہی نہیں ہم راز بھی سمجھتا ہوں۔ میراباپ اندلس کا آخری بادشاہ تھا۔ میں نے قرطبہ کے شاہی محلات میں پرورش پائی ہے۔ مجھے وہ محلات مسجد قرطبہ اور الحمرا کے شاہ نشین آج تک نہیں بھولے۔ جی چاہتا ہے کہ ایک بار اپنے آباﺅ اجداد کے وطن جاﺅں اور ان مقدس مقامات کی ایک بار پھر زیارت کروں۔“
میں نے عرض کی ”محترم شہزادے! ہسپانیہ پر عیسائیوں کی حکومت ہے۔ انہوں نے کسی ایک مسلمان کو اس سرزمین پر باقی نہیں چھوڑا۔ وہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ آپ وہاں کیسے جاسکتے ہیں۔“ بنو حمید نے کوئی جواب نہ دیا۔ خاموش رہا۔ پھر اٹھ کر ہاتھ پشت پر رکھے حویلی کے اندر چلا گیا۔
کچھ دنوں بعد ایک روزمیں معمل گاہ میں جڑی بوٹیوں کا تجزیہ کررہا تھا کہ غلام نے آکر کہا کہ شہزادہ بنو حمید نے مجھے یاد کیا ہے۔
شہزادہ بنو حمید سیاہ گلاب کے باغ کے ایک کنج راحت میں مسند نشیں تھا۔ دو سوڈانی کنیزیں اسے پنکھا جھل رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر اس نے کنیزوں کو چلے جانے کا اشارہ کیا۔ جب ہم تنہا رہ گئے تو بنو حمید نے مجھے اپنے پاس مسند پر بیٹھنے کا اشارہک یا۔ پاس ادب کی خاطر مین ذرا ہچکچایا تو بنو حمید نے اصرار کرکے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ اس کے خوبصورت چہرے پر اداسی کے ساتھ ساتھ گہری سوچ کا تاثر تھا۔ اس کے ہاتھ میں اندلس کا سیاہ گلاب تھا جس کی پنکھڑ پر وہ اپنی انگلی پھیر رہا تھا۔ گہری پر سکون آواز میں میری طرف دیکھے بغیر بولا
”عبداللہ! کل رات میں نے خواب میں اپنے دادا بنو سراج کی قبر دیکھی۔ الحمرا کے شاہی قبرستان میں اس کی قبر ویران تھی۔ اس کا چراغ غائب تھا اور مرمریں پتھر اکھاڑ لیا گیا تھا۔“
میں سمجھ گیا کہ شہزادے پر اس کے آباﺅ اجداد کے وطن کی یاد نے پھر حملہ کردیا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اسے کئی جواب دیتا اس نے اپنی ہلکی نیلی آنکھیں میرے چہرے پر گاڑیں اور کہا
”عبداللہ! میں اپنے اجداد کی قبریں اور محلات کی زیارت کو اندلس جارہا ہوں کیا تم میرے ساتھ چلو گے؟“
میں شہزادے کا منہ تکنے لگا۔ اس نے کہا ”میں جانتا ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ ہم قرطاضبہ کے عیسائی سیاح بن کر جائیں گے۔ کسی کو ہم پر شک نہیں ہوگا۔ میرا دل اپنے بچھڑے ہوئے وطن کی زیارت کو تڑپ رہا ہے۔ میں اپنے دادا کی قبر پر چراغ روشن کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں میرے ماموں اور پھوپھا خاندان کی بڑی خوش اسلوبی سے نگہداشت کرسکتے ہیں۔ بولو کیا تم میرے ساتھ چلو گے؟ میں چاہتا ہوں کہ ماضی کے اس دلگداز سفر میں تم میرا ساتھ دو۔“(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 184 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں