پاکستان کا موجودہ نظامِ تعلیم  

Oct 01, 2021

عارف حمید ،لاہور


یہ ایک نا قابلِ فراموش حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار علم اور تعلیم پر ہوتا ہے۔ جس طرح زندہ رہنے کیلئے انسان کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح حصولِ علم و فن بھی زندگی کا ایک ایسا لازمی جزو ہے، جس کیلئے افراد کو تمام عمر تحقیق اور مطالعے کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔ ہمارا ماضی ایسی قد آور او ر قابل شخصیات سے بھرا پڑا ہے جو اپنی تمام عمر علوم و فنون کی ترویج میں مصروف رہے ایک عالم ان سے استفادہ کرتا رہا اور آج تک کر رہا ہے۔ وہ لوگ غور و فکر اور مشاہدہ میں آزاد تھے اور ان کے نزدیک ایک ہی معیار پایا جاتا اور وہ تھا      "میرٹ" یعنی اہلیت اور قابلیت۔ یہ میرٹ ہی تھا جس کے سبب ہمارے اکابر اساتذہ اور ان کی قائم کردہ درس گاہوں کو ایک مستند مقام حاصل تھا۔ مختلف شعبوں میں ان کی تحقیقات اور انکشافات کو دنیا تسلیم کرتی تھی۔ لیکن صد افسوس کہ آج ہمارا نظامِ تعلیم آزادی فکر اور میرٹ سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں پائے جانے والے نقائص، ان کے اسباب اور مجوزہ اصلاحات ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں: +
ہمارے تعلیمی ادارے حکومت کے وضع کردہ تعلیمی نصاب کے محتاج ہو چکے ہیں۔ متعدد مرتبہ تبدیل ہونے والی حکومتی تعلیمی پالیسیوں اور مخصوص نصاب نے طلباء کو محض تقلید اور رٹنے کی جانب دھکیل دیا ہے۔ ناقص حکومتی پالیسیوں میں سیاسی مداخلت، بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم، سرکاری اداروں میں اساتذہ کے غیر ضروری تبادلے وغیرہ شامل ہیں۔اکثر اوقات نصاب میں ایسے موضوعات بھی شامل کر دیئے جاتے ہیں جن کی نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ اہمیت، مگر چونکہ انہیں کورس میں شامل کر دیا جاتا ہے، لہٰذا اساتذہ پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ موضوعات طلباء کو پڑھائیں۔ یوں استاد کی حیثیت محض ایک کیسٹ کی سی ہو جاتی ہے اور مشاہدہ، تجربہ اور ذاتی غور و فکر کے مقاصد فوت ہو جاتے ہیں!
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ؟


ہمارے نظام کی ناکامی کی ایک وجہ سہولیات اور وسائل کا فقدان بھی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ ملک کے کل GDP کا کم از کم پانچ فیصد حصہ تعلیمی اور تحقیقاتی اداروں کے لئے مختص کرے مگر کرپشن اور بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث اداروں کی اکثریت وسائل سے محروم ہے۔
 تعلیمی نظام کے نقائص میں سے ایک نقص ایجوکیشنل کاؤنسلنگ کی کمی بھی ہے جس کے باعث ایک بھاری اکثریت کا حصول علم کی جانب میلان ہی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال پاکستان کی شرح خواندگی 59.13فیصد ہے جو کہ غیر معمولی طور پر کم ہے۔ آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اہل وطن کو علم اور تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا جائے، انہیں نفع بخش علوم و فنون کے متعلق معلومات فراہم کی جائیں تاکہ ان کا تعلیم کی جانب رجحان پیدا ہو۔ فرمانِ پیغمبرِ مکرمؐ بھی ہماری ہدایت کے لئے موجود ہے کہ ”علم کی طلب ہر مسلمان اور مسلمہ پر فرض ہے“۔


تعلیمی اداروں میں سفارش کی بنیاد پر ناتجربہ کار اساتذہ کی بھرتیاں بھی ایجوکیشنل سسٹم کی ناکامی کی وجہ بنتی ہے۔ بہت سے سکولوں کالجوں میں ایسے کم عمر اور ناقابل کار افراد کو تعلیمی ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں جنہیں ابھی خود تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر انہی افراد کو امتحانات کی چیکنگ کے لئے آگے بھیجا جاتا ہے اور میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں،لہٰذا اداروں کو باقاعدہ ٹیسٹ کے ذریعے امیدوار افراد کی علمی قابلیت، فنِ تدریسی اور اخلاقیات کی مکمل جانچ پڑتال کرنی چاہیے تاکہ طلباء کا مستقبل محفوظ رہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق تعلیم و تربیت ملتی رہے۔


مزید یہ کہ ہر دور کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے جس کے تحت اس چیز کی ضرورت ہے کہ نصاب میں وقت کے ساتھ ساتھ ضروری تبدیلیاں لائی جائیں۔ افسوس کہ ہمارا نصاب آج بھی وہیں کا وہیں ہے جہاں نصف صدی قبل تھا۔ اور ایسا صرف سکولوں میں نہیں بلکہ یونیورسٹیوں کے نصاب بھی اس فرسودہ تعلیمی معیار کی زد میں ہیں۔ نئے دور کی تعلیمی ضروریات کے تحت ملک میں ایک اپ ٹو ڈیٹ نصاب رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں، اس امرکی طرف بھی توجہ دینا لازم ہے کہ طلباء کو اپنے فہم، عمر اور دلچسپی کی بنا پر مضامین اور مخصوص موضوعات پڑھنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ پیشہ وارانہ زندگی میں اپنی پڑھائی کو بروئے کار لا سکیں۔ یہاں فریڈرک نطشے کے الفاظ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے:
"All higher education belongs to the expectations alone:
one must be privileged to have a right to so higher privilege. Great and fine things can never be common property"
[Twilight of the Idols, 75]


آخر میں ایک اور اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائیں گے کہ ہ ماری قومی زبان اردو کی تدریس کو بھی یقینی بنایا جائے۔ ملک کا اکثر نصاب انگریزی میں ہے حالانکہ تعلیمی نصاب ایسی زبان میں مرتب کیا جانا چاہیے جو معلم اور متعلم دونوں کے لئے قابل فہم ہو اور آپس میں تبادلہ خیال میں بھی مددگار رہے۔ طلباء کی ایک بڑی جماعت قومی زبان میں پڑھائی کو ترجیح دیتی ہے، لہٰذا حکومت سے گزارش ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد کے کورسز میں انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو کتب بھی فراہم کی جائیں اور اہم کتب اور ریسرچ پیپرز کے اردو تراجم کئے جائیں تاکہ تمام طلبا نصاب سے یکساں مستفید ہو سکیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک چین کی ترقی کے رازوں میں سے ایک راز یہ بھی ہے کہ ان کا تعلیمی نصاب چینی زبان میں ہی ہے اور وہ انگریزی نہ بولنے یا سمجھ پانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

مزیدخبریں