امتِ مسلمہ کی عدالتی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر(2)

Apr 02, 2014

عبدالرشید قمرخطاط


٭قارئین محترم! خلفائے راشدین سربراہ مملکت کی حیثیت میں تمام مسلمانوں سے ایک جیسا سلوک کرتے تھے.... بڑے لوگوں اور عام مسلمانوں میںکوئی فرق نہیں تھا.... اگر کسی حکومتی عہدے دار کے خلاف کوئی شکایت ملتی تو فوراً خود اس کی تحقیق کرتے.... اور ذمہ داروں کو باقاعدہ سزا دیتے ، حتی کہ اگر کسی عہدے دار پر کوئی تہمت لگ جاتی تو فوراً اُسے معزول کردیتے تاکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔ اور اس کا عہدہ، عدل کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
٭ایک موقع پر امیر المومنین سیدنا عمرؓ نے تمام گورنروں کو حج کے موقع پرطلب کیا۔ اور مجمع عام میں کھڑے ہو کر اعلان فرمایا کہ اگر کسی کو میرے خلاف کوئی شکایت ہو تو پیش کرے.... مجمع َمیں سے ایک شخص اُٹھا اور اُس نے کہا کہ آپ کے گورنر عمر بن عاصؓ نے مجھے ناحق 100کوڑے لگوائے ہیں.... میں اُن سے بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ امیر المو¿مین حضرت عمرؓ نے کہا کہ اُٹھو اور اپنا بدلہ لے لو۔ عمرو بن عاصؓ نے کہا: ” اے امیر المومنین! آپ گورنروں کے خلاف یہ راستہ نہ کھولیں.... مگر سیدنا عمرؓ نے فرمایا: ” میں نے خود نبی کریم ﷺ کو اپنے آپ سے بدلہ لیتے دیکھاہے.... اے شخص! اُٹھ اور اپنا بدلہ لے! آخر کار حضرت عمر بن عاصؓ کو ہرکوڑے کے بدلے دو۔ دو اشرفیاں دے کر جان بچانا پڑی۔ (بحوالہ کتاب الخراج از امام یوسفؒ)
٭عہد عمر ؓ کا ایک اور عجیب واقعہ قارئین کرام کی نذر ہے۔ سیدنا عمرؓ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا، جو کہہ رہا تھا۔[وَیل لک یَا عُمر مِنَ النَّارِ] ” اے عمر! تمہارے لیے جہنم کا ویل ہے“ (ویل جہنم کے گڑھوں میں سے ایک خوفناک ترین گڑھے کا نام ہے) سیدنا عمرؓ نے حاضرین میں سے کچھ لوگوں سے کہا کہ اس آدمی کو میرے پاس لا¶.... جب اس آدمی کو لایا گیا توسیدنا عمرؓ نے پوچھا.... تم نے یہ بات کیوں کہی ہے؟ وہ کہنے لگا۔ آپ حکام مقرر کرتے وقت اس سے شرائط تو قبول کرواتے ہیں مگر ان کا محاسبہ نہیں کرتے کہ انھوںنے شرائط پوری کی ہیں یا نہیں....؟ امیر المومنین نے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟.... اس نے کہاکہ آپ کے مصری گورنر نے ان شرائط کو فراموش کردیا ہے.... اور.... آپ کے منع کردہ اُمور کا ارتکاب کیا ہے .... سیدنا عمر فاروقؓ نے شکایت سننے کے فوراً بعد، دو انصاری صحابہ کرام کو مصر روانہ کیا کہ وہاں جا کر تفتیش کریں.... اگر اس آدمی کی بات درست نکلے تو اس گورنر کو اسی وقت گرفتار کرکے میرے پاس حاضر کریں.... وہ مصر پہنچے تو اس کے بارے میں شکایات درست نکلیں.... چنانچہ انھوں نے گورنر کو گرفتار کر لیا اور امیر المومنین کی خدمت میں لے آئے۔ حضرت عمرؓ نے اُسے دیکھا تو حیران رہ گئے.... کیونکہ وہ مصر کا حاکم بنائے جانے سے پہلے گندمی رنگ کا پتلا دبلا جوان تھا.... مگر مصر کی سرسبزی و شادابی اور نشہ¿ اقتدار نے اُسے گورا چٹا اور بھاری بھرکم انسان بنا دیا تھا۔امیر المومنین نے فرمایا: تیرا ستیا ناس ہو.... جس اَمرسے میں نے تجھے منع کیا تھا، تو نے اسی کو گلے لگا لیا .... اور جس بات کا تجھے حکم دیا گیا تھا، تو نے اُسی کو فراموش کردیا.... اﷲ کی قسم! میں تجھے عبرت ناک سزا دوں گا۔
 پھر امیرالمومنین نے اُون کا ایک پھٹا ہوا لباس، ایک لاٹھی اور صدقے میں آئی ہوئی،300بکریاں منگوا کر اُس حاکم مصر کو حکم دیاکہ ” یہ لباس پہنو! ”میںنے تمہارے باپ کو اس سے بھی ردّی لباس پہنے ہوئے دیکھا ہے.... یہ لاٹھی اُٹھا¶، جو تمہارے باپ کی لاٹھی سے بہتر ہے اور فلاں چراگاہ میں جا کر ان بکریوں کو چرا¶.... وہ آدمی(حاکم) فوراً حضرت عمر کے پا¶ں میں گر گیا اور کہنے لگا کہ ”اے امیر المومنین! یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکے گا.... اس سے بہتر ہے ، آپ میری گردن اُڑا دیں.... امیر المومنین ؓ نے فرمایا: ” اچھا :اگر میں تمھیں گزشتہ اُسی منصب پر بحال کردوں توپھر کس طرح کے آدمی ثابت ہوگے....“ اس نے کہا: ”اﷲ کی قسم! اس کے بعد آپ کو وہی کچھ سننے کو ملے گا جو آپ پسند فرماتے ہیں....“ چنانچہ اس کے بعد وہ آدمی مصر کا ایک مثالی گورنر بن گیا.... اوراپنی ذمہ داریاں خوف ،تقویٰ اور اخلاص و للّٰھیت کے ساتھ انجام دینے لگا۔ (بحوالہ قصص العرب و ابن ابی الحدید)
٭اسلامی عدالتوں کا عدل و انصاف پر مبنی ایک ایسا ہی واقعہ سیدنا حضرت علیؓ کے عہد میں پیش آیا۔ جس میں سربراہ حکومت سیدنا علیؓبطور ایک فریق عدالت میں حاضر ہوئے۔ .... اور گواہ پیش نہ کر سکنے کی صورت میں فیصلہ ان کے خلاف صادر فرما دیا گیا ۔ جس کو انھوںنے برضا و خوشی قبول کر لیا۔
یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دن سیدنا امیر المومنین حضرت علیؓ کی زرہ گم ہو گئی۔ آپ نے وہ زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی اور اس یہودی کو کہا کہ یہ زرہ تو میری ہے۔ فلاں دن گم ہو گئی تھی۔ جب کہ یہودی نے مسلمانوں کے خلیفہ امیر المومنین سیدنا علی ؓ کا دعویٰ درست ماننے سے انکارکردیا.... اور کہا کہ اس کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی .... چنانچہ سیدنا علیؓ اور وہ یہودی قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے۔ سیدنا علیؓ نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ یہودی کے پاس زرہ میری ہے ۔ اور یہ فلاں دن گم ہو گئی تھی۔
قاضی صاحب نے یہودی سے پوچھا کہ: ”آپ نے کچھ کہنا ہے؟“ یہودی نے کہا یہ میری زرہ ہے اور میرے قبضے میں ہے، میری ملکیت ہے۔ مجھے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہنا۔ قاضی شریح نے زرہ دیکھی اور بولے کہ اﷲ کی قسم! اے امیر المومنین! یہ زرہ آپ ہی کی ہے ، لیکن قانون کے تقاضوں کو پورا کرنا، آپ پر واجب ہے۔ قانون کے مطابق آپ گواہ پیش کریں.... سیدنا علیؓ نے بطور گواہ اپنے غلام قَنبر کو پیش کیا۔ پھر آپ نے اپنے دونوںبیٹوں حضرت حسن اور حسین(رضی اﷲ عنہما) کو پیش کیا.... انھوں نے بھی آپ کے حق میں گواہی دی.... قاضی شریح نے کہا کہ آپ کے حق میں آپ کے غلام کی گواہی تو قبول کرتا ہوں.... مگر ایک گواہ مزید درکار ہے۔ کیونکہ آپ کے حق میں آپ کے بیٹوں کی گواہی ناقابل قبول ہے.... حضرت علیؓ نے کہا: میں نے عمر بن خطاب ؓ کو رسول اﷲﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ”حسنؓ اور حسینؓ نوجوانان اہل جنت کے سردار ہیں۔“.... قاضی شریح نے کہا: اﷲ کی قسم! یہ بالکل حق ہے.... حضرت علی کرم اﷲ وجہ¾ نے فرمایا: تو پھر آپ ان کی گواہی قبول کیوں نہیں کرتے؟
قاضی شریح نے کہا: یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں اورقانون کے مطابق باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی.... یہ کہہ کر قاضی شریح نے امیر المومنین سیدنا حضرت علیؓ کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور زرہ یہودی کے حوالے کردی۔یہودی کو بہت تعجب ہوا کہ یہ شخص مسلمانوں کا حکمران ہے اور یہ خود مجھے اپنے قاضی کی عدالت میں لایا ہے۔ قاضی نے میرے حق میں اسی کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ا ور اس حاکم وقت نے اپنے خلاف فیصلہ بلا چون چرا قبول کر لیا ہے واﷲ یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے.... پھر یہودی نے امیر المومنین سیدنا حضرت علیؓ کی طرف نگاہ اُٹھائی اور کہنے لگا: اے امیر المومنین! آپ کا دعویٰ بالکل سچ ہے.... یہ زرہ یقیناً آپ ہی کی ہے.... فلاں دن یہ آپ کے اونٹ سے گر گئی تھی تو میں نے اسے اٹھا لیا تھا.... چنانچہ وہ یہودی اس عادلانہ فیصلے سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔(بحوالہ حلیة الا¿ولیائ۔ از علامہ ابن الجوزی، کنز العمال)
٭حکمرانوں اور رعایا کے درمیان نظامِ عدل اور مساواتِ قانون کا یہ سلسلہ خلافتِ راشدہ کے بعد دَورِ ملوکیت تک پوری آن بان کے ساتھ جاری رہا.... حکمران عدالتوںمیں پیش ہوتے رہے اور قانون کا سامنا کرتے رہے۔
٭عتیبی کہتے ہیں کہ میں اُموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے قاضی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں قاضی کی عدالت میں دو آدمی حاضر ہوئے۔ ایک ابراہیم بن محمد نامی کوئی شخص تھا اور دوسرا خلیفہ ہشام کا درباری سپاہی تھا.... دونوں عدالت میں پہنچ کر قاضی کے سامنے بیٹھ گئے.... درباری سپاہی بولا: قاضی صاحب! امیر المومنین خلیفہ ہشام بن عبد الملک اور اس شخص(ابراہیم بن محمد) کے درمیان ایک تنازعہ ہے۔ اس سلسلے میں خلیفہ وقت کی طرف سے میں حاضر ہوا ہوں یعنی انھوں نے مجھے اپنی نیابت کے لیے بھیجا ہے.... قاضی نے کہا کہ خلیفہ کی جگہ تمہاری نیابت کی حقیقت جاننے کےلئے عدالت کو دو گواہ مطلوب ہیں! درباری سپاہی بولاکہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ حالانکہ میرے اور خلیفہ کے درمیان کوئی دُور کا فاصلہ نہیں ہے.... قاضی نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو لیکن شہادت کے بغیر میں تمہیں نہیں سن سکوں گا.... نہ فیصلہ کر سکوں گا۔(جاری ہے)








قاضی صاحب کا دو ٹوک کلام سن کر سپاہی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کی خدمت میں پہنچا .... اور ساری داستان کہہ سنائی.... خلیفہ اُٹھ کھڑا ہوا.... اور تھوڑی ہی دیر بعد خلیفہ وقت عدالت کے باہر موجود تھا۔ عدالت کا دروازہ کھلتے ہی درباری سپاہی آگے بڑھا اور بولا: قاضی صاحب یہ دیکھیے امیر المومنین خلیفہ ہشام بن عبد الملک خود حاضر ہو گئے ہیں.... خلیفہ ہشام کو دیکھتے ہی قاضی صاحب استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے لیکن خلیفہ نے اُنھیں بیٹھنے کا حکم دیا.... پھر قاضی نے ایک مصلّٰی بچھایا، اس مصلّے پر خلیفہ اور اس کا مقابل ابراہیم بن محمد بیٹھ گئے۔ عتیبی بیان کرتے ہیں کہ ہم حاضرین اُس قضیے سے متعلق گفتگو صاف صاف تو نہیں سن پا رہے تھے.... البتہ کچھ باتیں ہمیں سمجھ آرہی تھیں.... فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے.... قاضی صاحب نے مفصل گفتگو سننے کے بعد خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ ( قصص العرب و القصد الفرید)
٭فضل بن ربیع، امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد، قاضی ابو یوسفؒ کے پاس خلیفہ ہارون الرشید کی طرف سے کسی مسئلے میں بحیثیت گواہ حاضر ہوا.... قاضی ابو یوسفؒ نے فضل بن ربیع کی گواہی مسترد کردی۔ خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا کہ آپ نے فضل کی گواہی کو کیوں ردّ کیا ہے؟ قاضی ابویوسفؒ نے جواب دیا کہ میں نے خود اسے ایک دن آپ کی مجلس میں یہ کہتے سنا ہے کہ وہ آپ کا غلام ہے چنانچہ اگر وہ اپنے قول میں صادق ہے تواس کی شہادت ناقابل قبول ہے .... کیونکہ وہ بقول خود آپ کا غلام ہے.... اور اگر وہ اپنے قول میں جھوٹا ہے ، تو اس صورت میں بھی اس کی گواہی ناقابل قبول ہے.... کیونکہ جب وہ آپ کی مجلس میں جھوٹ بولنے کی پرواہ نہیں کرتا.... تو مجلس قضا میں بھی۔(بدرجہ اولیٰ) جھوٹ کی پرواہ نہیں کرے گا....    خلیفہ¿ وقت نے جب قاضی ابو یوسف کا یہ مدلل کلام سنا تو خاموش ہوگئے اوران کے فیصلے پر ان کی تائید کی۔(بحوالہ تاریخ بغداد)
٭ایک موقع پر اہل سمرقند نے اسلامی لشکر کے سپہ سالار قتبیہ بن مسلم کے خلاف اسلامی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ قاضی صاحب نے مسجد کے ایک کونے میں اپنی نشست سنبھالی اور کارروائی کا آغاز کردیا۔ قاضی صاحب کا غلام (اہلکار) ان کے قریب کھڑا بغیر کسی لقب کے امیر لشکر کا فقط نام لے کر بلا رہا ہے ، کہ وہ حاضر ہوں.... چنانچہ امیر لشکر فاتح سمر قند قتیبہ بن مسلم حاضر ہوئے۔ عدالت نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر اہل سمرقند کے سردار کاہن کو بلوایا۔ اور امیر لشکر کے ساتھ بٹھادیا۔اب عدالت کی کارروائی شروع ہوتی ہے:قاضی صاحب اپنی نہایت پست آواز میں مخاطب ہوئے۔ کاہن سے پوچھا بتا¶ کہ تم کیا کہتے ہو؟ کاہن نے کہا کہ ”آپ کا کمانڈر قتیبہ بن مسلم ہمارے ملک میں دھوکے سے داخل ہوا ہے .... اس نے اعلان جنگ نہیں کیا.... اور نہ ہی اس نے ہمیں اسلام کی دعوت دی.... قاضی نے امیر لشکر کی طرف دیکھا اور پوچھا :” تم کیا کہتے ہو؟“ امیر لشکر نے قاضی سے کہا: کہ ”لڑائی تو دھوکہ ہوتی ہے۔ یہ ملک بہت بڑا ہے۔ اس کے باشندوں کو اﷲ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے شرک اور کفر سے بچا لیا ہے اور انہیں مسلمانوں کی وراثت اور ملکیت میں دے دیا ہے۔ قاضی نے پوچھا: کیا تم نے حملے سے پہلے اہل سمرقند کو اسلام کی دعوت دی تھی؟.... یا جزیہ دینے پر آمادہ کیا تھا؟ ....یا دونوں صورتوں میں انکار پر لڑائی کی دعوت دی تھی؟.... سپہ سالار نے کہا: نہیں ایسا تو نہیںہوا.... قاضی نے کہا: تو گویا آپ نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا ہے!!.... اب آگے قاضی صاحب کے الفاظ پر غور کریں.... فرمایا: ” اﷲتعالیٰ نے اس امت کی مدد ہمیشہ اس لیے کی کہ اس نے دین کی اتباع کی اور دھوکہ دہی سے اجتناب کیا.... اﷲ کی قسم! ہم اپنے گھروں سے جہاد فی سبیل اﷲ کے لیے نکلے ہیں.... ہمارا مقصود زمین پر قبضہ جمانا نہیں اور نہ حق کے بغیر وہاں حکومت کرنا مقصود ہے .... میں حکم دیتا ہوں کہ مسلمان اس شہر سے نکل جائیں اور شہر کو اس کے اصل باشندوں کے حوالے کردیں.... ان کو پہلے دین کی دعوت دیں.... جنگ کا چیلنج کریں.... پھر ان سے لڑائی کا اعلان کریں....“ اہل سمرقند نے اس فیصلے کو سنا....ان کے کانوں اور آنکھوں نے جو سنا اور دیکھا اس پر انھیں یقین نہیں آرہا تھا.... تھوڑی ہی دیر میں قاضی کے فیصلے پر عمل درآمد شروع ہو چکا تھا.... اور فوجیں واپس جا رہی تھیں.... وہ افواج جن کے سامنے مدینہ سے لے کر سمر قند تک کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی.... جنھوں نے قیصر و کسریٰ اور خاقان کی قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھ دیا.... ان کے سامنے جو رکاوٹ بھی آئی، خس وخاشاک کی طرح بہا لے گئے.... مگرآج وہی اسلامی فوج ایک کمزور،نحیف و نزار جسم کے مالک قاضی کے فیصلے کے سامنے دست بردار ہو گئی.... ایک شخص جس کے ساتھ صرف ایک غلام ہے اس نے مقدمے کی سماعت کی .... چند منٹوں کی سماعت.... عدالت میں دو طرفہ بیانات سنے.... سپہ سالار کا اقرار .... اور چند فقروں پر مشتمل فیصلہ کہ ”مےں حکم دیتا ہوں کہ مسلمان اس شہر سے نکل جائیں.... شہر کو اس کے اصل باشندوں کے حوالے کر دیں پہلے ان کو دین کی دعوت دیں.... جنگ کا چیلنج کریں.... پھر ان سے لڑائی کریں“ اس عادلانہ فیصلے کو دیکھ کر اہل سمرقند نے اسلامی افواج کے راستے روک لیے گھوڑوں کی باگیں پکڑلیں.... کہ ہمارے ملک سے واپس نہ جائیں.... ہمیںایسے ہی عدل و انصاف کی ضرورت ہے ....پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ سمرقند کی گلیاں اور چوک اﷲ اکبر کے نعروں سے گونج رہے تھے.... لوگ جوق در جوق مسلمان ہورہے تھے.... اور اس طرح سمرقند کی زمین اسلام کی دولت میں داخل ہو گئی۔ (بحوالہ قصص من التاریخ از شیخ علی طنطاوی)
٭عہد اسلام کے اس زرّیں دَور میں بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ سربراہِ مملکت اور حکمران، عدالت میں بطور گواہ حاضر ہوتا ہے، مگر اس کی گواہی کو مسترد کردیا جاتا ہے.... ایک عدالت کا نقشہ کچھ یوں ہے: ”قسطنطنیہ مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کا دارالحکومت تھا۔ جسے آج کل استنبول کہا جاتا ہے۔ وہاں عدالت لگی ہوئی ہے۔ قاضی شمس الدین محمد حمزہ کرسی عدالت پر براجمان ہیں.... مقدمہ پیش ہوا.... قاضی نے گواہان کی فہرست دیکھی.... اس فہرست میں حاکم وقت سلطان بایزید کا نام بھی شامل ہے.... سامنے دیکھا کہ بایزید گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا ہوا ہے۔
اچانک قاضی نے فیصلہ سنا دیا کہ سلطان با یزید کی گواہی کو مسترد کیا جاتا ہے کیونکہ وہ گواہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ عدالت میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ حاکم وقت کی گواہی ناقابل قبول ہے؟ لوگ حیران و ششدر رہ گئے۔سلطان با یزید نے آگے بڑھ کر قاضی کو مخاطب کیا: ”کیا میں پوچھا سکتاہوںکہ مجھے گواہی کے قابل کیوں نہیں سمجھا گیا ہے؟“.... قاضی نے حاکم کی حیثیت اور ہیبت کونظر انداز کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ”گواہ باجماعت نماز ادا نہیں کرتا۔ اس لیے اس کی گواہی ناقابل قبول ہے۔“
قاضی نے حاکم وقت کی گواہی کو مسترد کرتے ہوئے اسلام کی عدالتی نظام کو وقار اور مزید جلا بخشی اور ثابت کردیا کہ کرسی عدالت پر بیٹھ کر چھوٹے اور بڑے میں تمیز نہیں کیجاتی.... ادھر حاکم نے بھی فیصلہ سنا اور اس کے سامنے گردن جھکا دی.... اور اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے حکم دیاکہ فی الفورمیرے محل کے سامنے ایک خوب صورت سی مسجدبنائی جائے.... اس مسجد کی اگلی صف میں اپنے لیے جگہ مخصوص کی اوراس کے بعد نماز جماعت سے غفلت کا کبھی مرتکب نہیں ہوا۔(بحوالہ انسائیکلوپیڈیا تاریخ عالم)
قارئین کرام! تاریخ اسلام ایسے روشن اور عدل و مساوات پر مبنی فیصلوں سے بھری پڑی ہے.... جہاں حکمران.... وزرائ.... گورنر.... عسکری کمانڈر عدالتوں میں پیش ہوتے رہے.... اور قانون کا سامنا کرتے رہے.... اورانکے فیصلوں کے سامنے اپنا سر جھکاتے رہے.... یہ اسلام کا ہی امتیاز ہے کہ اس میں قانونی طور پر تمام انسان برابر ہیں.... سربراہِ مملکت اور ایک عام مسلمان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے کلام پاک .... نبی کریمﷺ کے فرامین.... صحابہ کرامؓ کے ارشادات.... اور تاریخ کے سنہری اوراق کے مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آج ہم زوال پذیر صرف اس لیے ہیں کہ ہم نے اﷲ کریم سے وعدہ کرکے پاکستان کو اسلام کے نام پرحاصل تو کر لیا تھا، لیکن اسلام کے زرّیں اصول اپنانے سے یکسر روگردانی اختیار کر رکھی ہے اور ۶۶برس سے اللہ کریم کے ساتھ انتھا درجے کی بدعہدی کے مسلسل مرتکب ہےں.... ہم نے فرامین ِ الٰہیہ پر عمل کی بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے، ہمہ وقت ترامیم کے متقاضی، نظامِ سیاست و جمہوریت ....اور ”میڈان پاکستان“ آئین کو فوقیت دے رکھی ہے .... یہی وجہ ہے کہ سربراہِ مملکت اور دیگر بڑے لوگوں کوعدالتی بازپرس اور قانونی گرفت سے بالاتر سمجھا اور قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ اسلام اس تصور کو، ہرگز تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام میں اﷲ کی شریعت اور قانون ہی سب سے بالاتر ہے ....ہمارے آئین مےں سربراہِ مملکت یا اور کسی بڑی شخصیت کے استثنیٰ کی اگر کوئی صورت ہے بھی، تو یہ عدل و انصاف کے سراسر منافی ہے اور قوانین الٰہیہ کا صریحاً مذاق ہے.... آئین میں ہر وہ شق جو قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتی اسے بہرطور تبدیل اور ختم کیاجانا چاہئے.... کیونکہ ہمارا دعویٰ بھی تویہی ہے کہ ہمارا آئین اسلامی ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ریاست کے تمام ستونوںکو قرآن و سنت کے مطابق انصاف و عدل کا بول بالا کرنے اور ملک کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ یقین کیجئے اس وقت ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس کے تحت ہم حلفیہ کہتے ہےں کہ جب تک اللہ کی مخلوق پر (تفرقاتی آمیزش سے پاک) اس کے خالق کا نظام، اصل روح کے ساتھ نافذ نہیں کیا جائے گا، ہمارا تنزلی کا یہ سفر تیز سے تیز تر ہوتا جائے گا.... اہل دانش اور ہمارے سیاسی و مذہبی لیڈران کرام نے اس کا ادراک نہ کیا توہم بہت جلد قصہ پارینہ بن جائیں گے اورہمارا نام تک نہ ہو گا داستانوں میں۔

مزیدخبریں