ایک پاکستانی پر تشدد:
تین خیمے قریب قریب تھے۔ میرے قریب کے خیمے میں ایک پاکستانی بھائی بھی تھا جس کے دانت میں شدید درد تھا اور نرس اسے صرف(Talinol)گولی دیتی تھی جو وہ ہر مریض کو دیتی تھی۔ بیچارا بہت چیخا کوئی سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اسی اثناء میں بندر نما سرخ رنگ والا ایک چھوٹے قید کا فوجی روٹی تقسیم کرنے آیا تو پاکستانی بھائی کو دیر ہوگئی ۔اس لیے کہ وہ کھا نہیں سکتا تھا اور کھانے کا وقت 30منٹ ختم ہوگئے تو اس نے فوجی سے مزید کھانے کا وقت مانگا، کمبخت فوجی نے اس کو دروازے کے پاس بلایا اور وہاں اس کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر منہ پر زور زور سے مارتا رہا اور اس کو شدید زخمی کیا۔ دوسرے دن جب کھانا آیا تو ہم نے کھانا لینے اور کھانے سے انکار کر دیا۔ یہ بات آگے کی طرح پوری جیل میں پھیل گئی اور جیل کا سپرنٹنڈنٹ فوراً ہمارے پاس آیا کہ تم لوگ کھانا کیوں نہیں لیتے ہو؟
ہم نے گزشتہ واقعہ اس کو سانایا تو اس نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا پھر ہم نے کھانا لے لیا۔
ایک دن جب یہی بدبخت بندر نما فوجی آیا تو اس نے محمد نواب جو کہ سعودی شہری تھا اور بہت شدید بیمار تھا کی شدید پٹائی کی۔ یہ کمبخت فوجی ہمارے ساتھ پہلے سے تعصب رکھتا تھا اور ہم کسی کو نہیں بتا سکتے تھے اور یہی وہ بے غیرت فوجی تھا جس نے قرآن کی بے حرمتی کی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔ دسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
قرآن مجید کی بے حرمتی پر مسلمانوں کاغمزدہ ہونا:
ایک دن میں سویا ہوا تھا کہ اچانک رونے کی آوازیں اتنی زور اور کثرت سے میں نے سنیں کہ میں جاگ گیا ۔دیکھا کہ سارے قیدی تمام خیموں میں زور زور سے رو رہے تھے جبکہ اس سے پہلے وہ تلاوت اور ذکر و اذکار میں مصروف ہوتے تھے۔
میں نے تمام ساتھیوں کو ایسا غمزدہ پریشان اور زار و قطار روتے دیکھا کہ اس سے پہلے میں نے کسی کو اس حال میں نہیں دیکھا میں نے رونے کی وجہ پوچھی تو سعودی عرب کے رہنے والے محمد نواب نے مجھے اس موٹے کافر فوجی کی نشاندہی کی (جس نے پاکستانی بھائی کو منہ پر مارا تھا اور ہم نے اس پر احتجاج کیا تھا )اور کہا کہ اس نے قرآن مجید پر پیشاب کرکے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح قرآن مجید کی بے حرمتی ایک عام مسلمان کے لیے بھی قابل برداشت نہیں۔ یہ ایسا واقعہ تھا کہ جو سب سے زیادہ درد ناک اور اذیت ناک تھا۔
قرآن مجید واپس لے لو!
اس کے بعد ہم نے ہلال احمر کے کارندوں سے کہا کہ جیل میں موجود تمام قیدیوں سے قرآن مجید واپس لے لیے جائیں اس لیے کہ ہم اس کی حفاظت نہیں کر سکتے اور اس کی بے حرمتی ہمارے لیے قطعاً نا قابل برداشت ہے لیکن ہلال احمر نے یہ کام نہیں کیا کیا ۔پتہ انہیں امریکیوں نے منع کیا یا پھر کیوں انہوں نے ایسا نہیں کیا؟ لیکن امریکیوں نے ہمیں اطمینان دلایا کہ آئندہ قرآن مجید کے ساتھ اس طرح نہیں ہوگا اور اس حرامی فوجی کو سزا دی جائے گی لیکن افسوس کہ وہ حرامی فوجی اسی قید خانہ میں گھومتا پھرتا تھا اور اسی طرح دل آزاری اور توہین آمیز سلوک کیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس جیسے تمام لوگوں سے جہنم کو بھر دے (آمین) قرآن کی بے حرمتی کا یہ واقعہ ایک مقامی امریکی رسالے نے بھی شائع کیا۔
امریکی فوجیوں کی ’’بہادری‘‘ کی ویڈیو فلم:
ایک رات جب ہم نے کھانا کھایا تو اچانک ہیلی کاپٹر کی آواز آئی اور پھر کیا دیکھا کہ فوجیوں کا ایک بہت بڑا لشکر خیموں کے اندر آیا اور ایک فوجی گاری جس کے اوپر مووی کیمرے نصب تھے ہمارے درمیان آکر رک گئی اور اس کے بعد ہمیں الٹا لٹانے کا حکم دیا گیا۔ اور ڈنڈوں اور ڈھالوں سے مسلح ایک بڑا فوجی دستہ اچانک داخل ہوا اور ہمیں ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پھینکنا شروع کیا۔ فوجی اس منظر کی ویڈیو فلم بناتے رہے تاکہ امریکی قوم و ملت کو بتایا جا سکے کہ ہمارے فوجی کتنے بہادر اور تیز رفتار ہیں کہ ایک لمحے میں وہ ان کے بقول دہشت گردوں کو گرفتار کرکے انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ انسانی لباس میں انسانیت کے خلاف وحشی امریکا کی ایک بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی تھی۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔