بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔دسویں قسط

بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی ...
بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔دسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دوسرا قصہ(کالا فرعون):
دوپہر کے وقت حاضری لینے والا ایک کالا اکلوٹا بندر کی شکل کا فوجی جو کئی دنوں تک مسلسل حاضری لیتا رہا تھا دوپہر کے وقت شدید گرمی میں ساتھی قیدیوں کو آدھا گھنٹہ حاضری لینے سے پہلے شدید لو اور دھوپ میں کھڑا کیے رکھتا تھا اور اللہ کی پناہ اتنے غرور و تکبر سے لائن سیدھی کرنے چلتا تھا کہ میں نے آج تک ایسا کالا فرعون نہیں دیکھا(اللہ تعالیٰ اس کو جہنم واصل کرے۔ آمین ثم آمین) یہ کمبخت ہر روز ہمیں دو گھنٹے شدید لو اور دھوپ میں کھڑا کیے رکھتا تھا۔ یہ قصہ میں اس لیے نہیں بھلا سکتا کہ انسانی حقوق کے ٹھیکیدار جو ایک شیر سے ٹڈی دل تک کے لیے قانون رکھتے اور اس کا پرچار کرتے ہیں مگر ہم بے گناہ مسلمانوں کے لیے ان کے ہاں قانون نام کی کوئی چیز کیوں نہیں ہے؟؟؟؟

گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔نویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
ایک دن اس بد بخت فوجی نے میرے ہاتھوں میں شیشے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا دیکھا اور فوراً مجھ پر ٹوٹ پڑا کہ یہ کیا ہے؟ فوراً مجھے دو۔۔۔میں نے شیشے کا یہ باریک ذرہ اس کی طرف پھینک دیا تو اس نے مجھ سے پوچھا یہ کہاں سے لائے ہو؟ میں نے لا علمی ظاہر کی اور کہا کہ نہ میرا سامان اپنا ہے نہ خود یہاں آیا ہوں اور یہ تو ویران کھنڈر ہے اور یہ مجھے یہیں سے ملا ہے اور یہاں تو سب کچھ ملتا ہے اس لیے کہ ویرانا ہے لیکن وہ چیختا رہا اور کہتا رہا:
I will Fuck you)
پھر صلیب کی طرح مجھے گھٹنوں کے بل کھڑا کیا گیا اور کئی گھنٹوں تک سزا دیتا رہا۔ وہ قیدیوں پر چکر لگاتا رہتا تھا اور میرے پاس پہنچ کر گالی دینا شروع کر دیتا تھا۔ میں پوچھتا کہ کیوں گالیاں دیتے ہو تو وہ مزید گالیاں بکنا شروع کر دیتا تھا۔ فوجیوں کو جواب دینا جرم تھا ان کے لیے کوئی قانون نہیں تھا اور ہم بے بس تھے اس لیے کہ کچھ کہنے پر وہ سخت سزا دیتے تھے میں یہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا کہ ایک حرامی فوجی غلام کے ہاتھ میں مظلوم مسلمان مومن بھائیوں کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں نے کیسے اپنا دین ا ور ایمان بیچ دیا ہے؟
’’اللہ ارحم علینا وا صلح امراء نا‘‘
(یا اللہ! ہمارے حال پر رحم فرما اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما)
بے خوابی کی سزا:
یہ مربع قید خانہ جہازوں کا پرانا ورکشاپ تھا اور اس میں چھوٹی چھوٹی جگہیں تھیں اور جب بھی کسی کو سزا دیتے تھے ایسی چھوٹی چھوٹی جگہوں میں اسے اندر لے جاتے اور سزا دیتے تھے ۔اس قید خانے کی چھ منزلیں تھیں جو کہ لکڑی کی بنی ہوئی تھیں ۔یہاں چوبیس گھنٹے فوجی ہوتے تھے اور ان کے ساتھ کتے پوری رات بھونکتے تھے ۔ یہ فوجی خود بھی ان کے ساتھ چلاتے تھے تاکہ ہمیں سونے نہ دیا جائے اور ہماری نیند خراب ہو۔ یہاں بے خوابی کی سزا دی جاتی تھی اور یہاں پر میں نے سینکڑوں قیدیوں کو ہتھکڑیوں میں بند شدید تکلیف میں دیکھا۔
105سالہ بوڑھا قیدی:
ایک مرتبہ اچانک ہمارے کمرے میں ایک انتہائی سفید ریش بابا قیدی کو کھینچتے ہوئے لایا گیا اور وہ بے ہوش تھا ۔ ضعیف عمر کی وجہ سے شدید تکلیف میں تھا۔ جب ہوش میں آیا تو اس کو تفتیش کاروں نے الٹا لٹانا چاہا لیکن انہیں طریقہ نہیں آتا تھا اور ہم بھی اس کی مدد نہیں کر سکتے تھے بالآخر فوجیوں نے ان کو الٹا لٹایا اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس کے اوپر بیٹھ گئے اور اس کا سر زمین پر دباتے رہے۔ بابا سمجھا کہ شاید اسے ذبح کیا جا رہا ہے۔ وہ زور زور سے چیختے رہے اور کہتے رہے کہ ظالمو! مجھے دو منٹ کے لیے تو چھوڑ دو تاکہ میں دو رکعت نفل کی نماز تو پڑھ لوں۔ میں نے بابا سے کہا کہ بابا پریشان نہ ہو آپ کو ذبح نہیں کیا جا رہا بلکہ آپ کو تحقیق کے لیے لے کر جائیں گے۔ فوجیوں کو بابا کی زبان سمجھ میں نہیں آتی تھی اور اس کو یہ بھی پتہ نہیں تھا پہلے سے موجود قیدی کون ہیں؟ بعد میں جب میں نے بابا سے پوچھا تو وہ ضلع چار چینو صوبہ ارزگان کا رہنے والا تھا اور ان کی عمر105سال تھی۔ یہ بابا کیوبا کی دوزخ نما جیل سے رہائی پانے والا پہلا قیدی تھا۔
امریکی فوجی دوران نماز سر پر بیٹھ گیا:
ایک دن ہم صبح سویرے نماز کی تیاری میں مصروف تھے ۔وضو کی زحمت سے تو ہم پہلے سے ہی بری تھے اس لیے کہ پانی نہ دینے کی وجہ سے نماز کے لیے تیمم کیا کرتے تھے۔ میں امامت کرانے کے لیے آگے بڑھا اور جماعت کھڑی ہوگئی تو باہر سے فوجی ہم میں سے ایک عرب قیدی بھائی جن کا نام عادل تھااور تیونس کا رہنے والا تھا کو پکارتے رہے ۔با ربار آواز لگانے کے باوجود عادل نہ جا سکا اس لیے کہ نماز میں مصروف تھا لیکن جب میں سجدے میں گیا تو فوجی آکر میرے سر پر بیٹھ گیا اور دوسرے عادل کو دوران نماز ہی کھینچتے ہوئے گھسیٹتے ہوئے تحقیق کے لیے لے گئے اور بعد میں ہم نے نماز دوبارہ پڑھی۔ عالمی قوانین میں تمام مذاہب کا احترام موجود ہے اور خصوصاً عبادت کے وقت تو بالکل کسی کو کچھ کہنے کی عالمی قوانین میں بھی اجازت نہیں لیکن امریکا عالمی قوانین کو روندتے ہوئے عبادت بھی سکون سے نہیں کرنے دیتا۔ یہ ہے امریکیوں کی وحشت اور مسلمانوں پر ظلم۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔