Daily Pakistan

ادب وثقافت


 ہمدمِ دیرینہ کیسا ہے جہانِ رنگ و بُو۔۔۔سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو۔۔۔ ایک قدم اور آگے بڑھیے اور جہدِ حیات کے مبلغ اقبال کا جوش و خروش دیکھیں 

 کراچی پہنچنے والے میمن تاجروں نے بڑی تیزی سے وہ خلاء پُر کیا جو ہندوؤں کے چلے جانے کی وجہ سے کارو باری حلقوں میں پیدا ہوا تھا

 یہ معجزہ ہے کہ سفید فاموں کی جنت میں صدیوں سے جہنم کا عذاب بھگتتے ہوئے امریکی سیاہ فام امن و سکون سے رہ رہے ہیں 

 مرول ٹاپ سے آگے کا راستہ تو بہت ہی کٹھن تھا، 1971ء کی جنگ میں ہم نے بہت سے علاقے کھوئے جیسے ترتک، لاتو، بنڈونگ،خاکسار،ہندرمن وغیرہ

دوست وہ ہوتا ہے جو احساس کے ترازو کو کبھی بےوزن ہونے نہیں دیتا۔۔۔

 اقبالؒ نے ایسے فلسفیانہ اور عالمانہ الفاظ کو رواج دیا ہے جن سے لب و لہجہ میں رعب و جلال پیدا ہو جاتا ہے

 قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی کا بڑا کاروبار بوہریوں کے ہاتھوں میں آگیا،بوہری بہت اونچے درجے کے تاجرتھے سامان سے لدا پورے کا پورا بحری جہاز صرف ان ہی کیلئے آیا کرتا تھا

مغربی دنیا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نمائندے گہرے نسلی مسئلے کے حل میں ناکام رہے ہیں، وقت آگیا ہے کہ ہم مل کر بیٹھیں اور سوچیں 

سندھو کا جنم تبت کے پہاڑوں میں ایک چشمے”سنگھ کھاباب“ سے ہو تا ہے اور جسے تم کارگل دریا سمجھتے ہو دراصل یہ شنگو ریور ہے جو پاکستان سے بہتا ہندوستان جاتا ہے

جن معاشروں میں سنی سنائی باتوں پر زندگی بسر کی جارہی ہو وہاں تخلیق اور تحقیق کی کوکھ بانجھ ہی رہتی ہے

ادب کی کہانی ۔۔۔۔ فنون لطیفہ کی واحد شاخ جس میں جذبات اور احساسات کا اظہار تحریری شکل میں ملتا ہے

 دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے۔۔۔کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا۔۔۔ فارسی گوشعراء کا اثر بھی اقبال کے ہاں بہت نظر آتا ہے

 کراچی میں رہنے والے پنجابی زیادہ ترسرکاری اور غیر سرکاری ملازمتوں، پولیس یا مسلح افواج میں خدمات سر انجام دیتے تھے،چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرلیتے تھے

 یہ سفید فاموں پر ہٹلر کے دباؤ کا نتیجہ ہی تھا کہ سیاہ فاموں کو کارخانوں میں مناسب نوکریاں ملیں اور سٹالن نے اس دباؤ کو برقرار رکھا

 مرول ٹاپ سے دور پہاڑ کی چوٹی پر سفید پتھروں کی لکیر دراصل لائن آف کنٹرول ہے،اسی کے دامن سے بہتا میں پاکستان میں داخل ہوا ہوں 

اکثر بہک جاتا ہوں میں، منہ آئی بک جاتا ہوں میں۔۔۔اف سامعین! ہمیں معاف فرمائیے۔ ہم نادم ہیں(شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

ہم ادھوری معلومات سے دوسروں کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔

 وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے۔۔۔تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔۔۔بے یقینی تحیر اور شک شبہ کی کش مکش اقبال کے ہاں نہیں ملتی

پہلےسائیکل رکشا کثرت سے چلا کرتے تھے،پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سارے کراچی کے ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل پر پشتونوں کا مکمل تسلط ہوگیا

 من چاہی تفسیر سفید فام کا واحد نظریاتی ہتھیار ہے جس سے وہ لاکھوں غیر سفید انسانوں کو غلام بناتا چلا آ رہا ہے،9جج مل کر بھی  نیگروز کیلئے کوئی واضح قانون بنانے میں ناکام رہے

یہ چٹانوں اور گہری کھائیوں کا ایسا گورکھ دھندا ہے جس میں انسانی قدم کم ہی پڑتے ہیں،گرمیوں میں یہ وادی انگاروں کی طرح دہکتی ہے

تمہارے سینے میں گدگدیاں نہیں اٹھتیں۔۔۔؟ اب پنڈت چڑی لڑاوا صاحب آ رہے ہیں“ (شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

اپنی صلاحیتوں کو ضائع مت ہونے دیں،بہتر ہے انسان اپنے حالات کے پہاڑ کے سینے کو خود ہی چیرے۔۔۔

 اذاں ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی۔۔۔نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

جب کراچی شہر کی تعمیر نو شروع ہوئی، صوبہ سرحد سے لو گ بڑی تعداد میں نقل مکانی کر آئے عمارتوں، سڑکوں کی تعمیر اور نالوں کی کھدائی والے کام سنبھال لیے

ہم کچی بستیوں کے مکینوں کے متعلق یہ کہا گیا کہ ”یہ مسلمان کسی بھی لحاظ سے نیگرو عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔“پھر ”ایک غیر ذمہ دار نفرت پرست فرقہ“  کا نام دیا گیا 

مجھے ہار جیت سے غرض نہیں۔۔۔میری جنگ تھی سو میں لڑ گیا،ہزاروں کشمیریوں کا خون رنگ لانے کو ہی ہے، آزادی کی سحر اب زیادہ دور نہیں 

تیرے سب خاندان پر عاشق... میرا سب خاندان ہے پیارے (شفیق الرحمان کی مزاح سے بھرپور تحریر )

کسی معاشرے میں جب انحطاط کا سانپ گھس جائے تو ۔۔۔؟

 تیری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

  مہاجروں نے اپنی اچھی تعلیم کو پاکستان آ کر اور بہتر کیا،اس لیے ان کو ملازمت کی تلاش میں زیادہ بھٹکنا نہیں پڑتا تھا

 آج اکثر نیگرو رہنما اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کی عالمی تشہیر سراسر سفید فاموں کے میڈیا اور دیگر ذرائع کی مرہون منت ہے

رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں۔۔۔آگ سلگاؤ آبگینوں میں۔۔۔ سندھو دور نیچے اپنے شور سے اپنے بہنے کا احساس دلا رہا ہے

جب جھوٹ سچ کی چادر میں لپٹ جاتا ہے۔۔۔

 خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا۔۔۔جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا

ایک وقت آیا سارے ہی مہاجر کیمپوں اور جھگیوں سے نکل کر اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو گئے، رہن سہن بہت سادہ تھا اس لیے محدود آمدنی میں ہر کسی نے گزارہ کرنا سیکھ لیا 

مزیدخبریں

نیوزلیٹر





اہم خبریں