Daily Pakistan

Get Alerts

ادب وثقافت


  کوئی رانا ضد پر اَڑ جائے تو رانی بھی اسے منا نہیں سکتی، میری کیا حیثیت ہے، دل پر پتھر رکھتے ہوئے کہا”قبول ہے۔ قبول ہے۔ قبول ہے“

بچپن کی ایک اور یاد جو ذھن کے حافظہ سے محو نہیں ہوئی وہ آپاں اور بی بی جی کی سنائی کہانیاں تھیں،ایسے ہی نہیں کہتے نانیاں دادیاں سیانی ہوتی تھیں 

 ہالٹ حقیقت میں کسی بھی ریلوے اسٹیشن کے نام پر ایک دھبہ ہوتا ہے، ایسے اسٹیشن سیاسی اور با اثر لوگ دباؤ ڈال کر اپنے علاقے میں منظور کروا لیتے ہیں 

  لاہور ہائیکورٹ کے کیانی ہال میں نامور قانون دانوں کی محفل سارا دن سجی رہتی، اکثریت اْنکی تھی جنہوں نے پاکستان تخلیق ہوتے دیکھا تھا

بچپن کی ایک اور یاد ”دیا یا لالٹین“ تھی، مصنوعی روشنی کی یہ عیاشی مغرب سے لے کر عشا ء کی نماز کے کچھ بعد تک ہی ہوتی، پھر دیا بجھا دیا جاتا اور گاؤں سو جاتا

 جذباتی طور پر اسٹیشن پر عموماً 3 طرح کے افراد ہوتے ہیں، ایک وہ مسافر جو اپنوں سے آن ملتے ہیں جیسے برسوں کی جدائی کا روگ کٹ گیا ہو

 پاکستان کو بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا، چلڈرن مسلم لیگ بنائی،بَٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان“کے نعرے لگاتے رہے

 آج بھی مزدور کے ساتھ آئی اس کے گھر کی بنی روٹی،دال،سبزی اور اچار کبھی کبھا ر ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤں تو گاؤں کے  پرانے دن یاد آ جاتے ہیں 

بعض قلی اتنے ضعیف اور نڈھال ہوتے ہیں کہ سامان اٹھا کر لڑ کھڑاتے پھرتے ہیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہیں خود ہی نہ گر جائیں یا سامان نیچے نہ پھینک دیں 

دعا ہے کہ باصلاحیت مخلص، قائد و اقبال کا وژن رکھنے والی قیادت میسر آئے جو گلے سڑے سیاسی، تعلیمی نظاموں اور اداروں کی اصلاح کر سکے

 اُس نے بے وفائی نہ کی ایسی باتیں بھی یاد کرا دیں جو دماغ کے کسی کونے میں دب گئی تھیں، ایسی فلم چلی کہ حیران رہ گیا، مختلف شہروں میں بتائے سال یاد آگئے

 قلی اسٹیشن میں 2 جگہ مورچے جمائے ہوئے ہوتے ہیں، میرے بچپن میں قلی ایک پھیرے کے 4 آنے لیتے تھے،بعدمیں ہر طرف لوٹ مار مچ گئی

زندگی میں ایسے دوست ساتھیوں کو نہیں بھول سکتے جنہوں نے آپ کے خلوص نیت کو پہچانا ہو، جذبات کی قدر کی ہو اور اچھے بْرے حالات میں ساتھ دیا ہو

اگلا میچ کھیلنے ساہیوال چلے آئے، میچ ہم ہار گئے اور وہ اپنا دل، تحریری امتحان کی چھٹی ملی، امتحان دے کر دل مطمئن تھا کہ یہاں سلیکشن ہو جائے گی

واشنگ لائن پر بیک وقت کئی گاڑیاں دھل رہی ہوتی ہیں، ملازمین ہا ہا کار مچائے رکھتے ہیں، ایک کو دھو سنوار کر فارغ نہیں ہوتے کہ اگلی آن پہنچتی ہے

معروف دانشور، ادیب اور صحافی سرور منیر راؤ کی نئی کتاب "مدینہ منورہ تاریخ کے آئینے میں" شائع ہو گئی

  آج کی سیاست میں آگے بڑھنے کیلئے بااصول، دیانت دار اور حق گو ہونا اور ملک و قوم کی خدمت کی تڑپ رکھنا خوبیاں نہیں بلکہ کمزوریاں گنی جاتی ہیں 

سلام دعا کے بعد میں نے کہا”سر! آپ بہت کم ظرف انسان ہیں“ ان کے چہرے سے مسکراہٹ یوں غائب ہوئی جیسے کبھی آئی ہی نہیں تھی

ریلوے کی محبت میں گرفتار ہونے کے باوجود حسرت رہی کہ سمجھ سکوں سپیکر پرکیا کہا جاتا ہے؟ صرف یہ سمجھ آتا ہے ”آ رہی ہے“ یا ”جا رہی ہے“ 

 قیام پاکستان کی تحریک کا حصہ ہونے پر فخر ہے،1947ء میں ہجرت کے بعد ملکی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے کے مواقع ملنا اللہ کی خاص عنایت ہے

 امید کی کرن کبھی بجھتی نہیں کہیں نہ کہیں روشن رہتی ہے، بڑی مایوسی کا وقت تھا، ”دنیا ختم نہیں ہوئی، بڑی زندگی پڑی ہے اللہ ضرور کوئی اور موقع دے گا“

جیسے ہی کوئی مسافر گاڑی اسٹیشن پر آ کر رکتی ہے مختلف شعبوں کے عملے کے افراد حرکت میں آ جاتے ہیں،کچھ تو چھلانگ لگا کر گاڑی کی چھت پر چڑھ جاتے ہیں 

 سی ایس ایس کا امتحان دیا ہی تھا کہ بیوی کی تلاش شروع، معاشرے کا تضاد ملاحظہ ہو داماد بیٹی کے نخرے اٹھائے تو خوش قسمتی بیٹا بیوی کا خیال کرے تو رن مرید

اسٹیشن کے عملے کا انحصار اْس کی جسامت و ضخامت، گاڑیوں کی آمد و رفت اور مسافروں کی تعداد پر ہوتا ہے،افرادی قوت کے لحاظ سے اسٹیشنز کو 3 اقسام ہیں 

 کامیاب لوگ جب پھسل جاتے ہیں تو واویلا نہیں کرتے،اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، کیچڑ صاف کرتے ہیں اور زندگی کی رونقوں میں جذب ہوجاتے ہیں 

اس قوم کی تھیوری ہی یہ ہے”کم نہ کر تے غم نہ کر“ اور”فکر نہ کر تے ذکر نہ کر“اور ”آؤ باتیں کریں“ ہم سارا دن ہی نہیں ساری عمر  باتوں کے گرد گزار دیتے ہیں 

پھینک آیا ہوں ریل کی پٹری پہ بدن،موت کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے لوگ اشاروں کنائیوں اور اشعار میں اپنے ارادے کا اظہار کر گئے

 وہ خود کو نسل انسانی کا رکن سمجھتے ہیں،خود کو کسی سرحد کا پابند نہیں سمجھتے، انہیں یہ بھی گوارا نہیں کہ ان کے دشمن مر جائیں کیونکہ انکے دشمن بھی انسان ہیں 

وہ محبتوں کا، یاریوں کادور تھا، اب ویسی شراتیں رہیں نہ مذاق برداشت کرنے کے حوصلے،ممی ڈیڈی بچے  برگر کھاتے اور برگر جیسے ہی مذاق کرتے ہیں 

گاڑی کے سامنے لیٹ کر جان دینے کی”رسم بڑی مقبول“ رہی ہے،تعلیم یافتہ افراد،خصوصاً صاحب دل شعراء اور ادبا ء میں یہ رحجان بہت زیادہ رہا 

بعض لوگ بہت کم نیند لیتے ہیں لیکن پھر بھی صحت مند رہتے ہیں،د نیا کو کسی خاص نظرئیے سے نہیں دیکھتے،عملی طور پر زندگی گزارتے ہیں 

جیتنا شروع ہو ئے تو جیتتے ہی چلے گئے بس ”جھاکا“ اترنے کی دیر تھی، کرکٹ سے جڑی یادوں کا حسین میلہ ہے، دن میں میچ کھیلتے  رات کو شرارتیں کرتے 

مفت کے مسافر اس وقت تک چھپے رہتے جب تک ”خطرہ“ نہ ٹل جاتالیکن ٹی ٹی بابو کہیں نہ کہیں سے تلاش کر کے کسی چوزے کی طرح دبوچ لاتا

 کامیاب لوگوں کی ایک اور خوبی ”ایمانداری“ ہے،قطعی طو رپر جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی کسی چیز کے متعلق مصنوعی طرزعمل اختیار کرتے ہیں 

 ’’باؤ! گوڈا سدھا کر“ مجھ سے ہلا نہیں جا رہا تھا، پیچھے بیٹھا شخص اٹھا کندھوں پر ہاتھ رکھا اور جانی پہلوان نے مکا مارا، میری چیخیں آسمان تک گئی ہوں گی

ٹی ٹی با بو کی ”بے ٹکٹوں“ سے بالکل نہیں بنتی، انہیں دیکھتے ہی کچھ تیزی سے بیت الخلاء کی طرف بھاگتے ہیں کچھ چادر اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں 

مزیدخبریں

نیوزلیٹر





اہم خبریں
History

Close |

Clear History