Daily Pakistan

Get Alerts

ادب وثقافت


خون کے عطیات جمع کرنے کیلئے موبائل یونٹ بنانے کا فیصلہ ہوا،مالی اخراجات کیلئے چوہدری ظہورالٰہی نے 5ہزار روپے کا چیک ملک معراج خالد کو پیش کیا

اختلاف رائے اور تنقید ہم برداشت ہی نہیں کر سکتے، سیاستدانوں کے بس میں ہو تو مخالفین کی گردن ہی دبوچ لیں،ہم عوام کو ریلیف دینے کے قائل ہی نہیں 

 جب جب بھی ہندوستان کو فتح کرنے کی کوشش ہوئی افغانستان سے آتے حملہ آوروں کے گھوڑوں کے سموں کی ٹاپیں سب سے پہلے پشاور میں سنائی دیں 

بھارت سے جنگ میں جہازوں کے گرنے کے واقعات دیکھے، لاہور کے شہری طیاروں کی لڑائی اس طرح دیکھتے جیسے پتنگوں کے پیچ لڑائے جا رہے ہوں 

 سیاسی مداخلت ہر دور میں رہی ہے، یہ اتنی بڑھ چکی ہے کہ سرکاری ملازمت میاؤں بلی ہی بن گئی ہے،ہر کوئی ڈراتا اور سنگین نتائج کی دھمکی دیتا ہے

 رسالپورمیں ایئر فورس اکیڈمی بھی ہے جہاں سارا سال کیڈٹوں کی تعلیم و تربیت چلتی رہتی ہے،یہاں غیر ملکی پائلٹ بھی تربیت کے لیے آتے ہیں 

 ہمارے ساتھ عام شہری بھی شامل ہوجاتے،  بسکٹ، پکوڑے، چپس بنوا کر لاتے اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے فوجیوں کا آتے جاتے استقبال کرتے

میری سیاست اس روز ختم ہو گئی تھی جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی اور جو تھوڑا بہت سیاست کا کیڑا بچا تھا وہ بی بی کی شہادت نے ختم کر دیا تھا

 حسن ابدال آبادی کے لحاظ سے چھوٹا مگر بین الاقوامی طور پرانتہائی اہمیت کا حامل قصبہ ہے،یہاں سکھوں کا متبرک مقام گورودوارہ پنجہ صاحب ہے

 کشمیر کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کربھارت نے کھلی جارحیت کا آغاز کر دیا،صدر ایوب خان نے قوم سے کہا بزدل دشمن پر کلمہ کا ورد کرتے ہوئے ٹوٹ پڑیں 

 کبھی اکیلا ہوتا تو ماں کی یادیں اور پرانے انڈین گانے میرے ہمسفر ہوتے، ریل میں بیٹھا مسافر کبھی اکیلے پن کا شکار نہیں ہوتا  چھک چھک ہمیشہ ساتھ رہتی ہے

مستقبل میں اہم اور بڑا جنکشن بننے جا رہا ہے ریل گاڑیاں خنجراب اور کاشغر تک چلیں گی، جہاں سے اسے چین کے مختلف شہروں سے ملا دیا جائے گا

  1965ء کی جنگ کے دوران قوم بالخصوص نوجوانوں کا جذبہ دیدنی تھا،17روزہ جنگ کے دوران کوئی چوری، ڈاکہ، قتل کی واردات نہیں ہوئی

 گزارا وقت شاندار تھا، بہت محبت ملی، ماتحتوں سے، کولیگزسے اور عام پبلک سے بھی۔ تبادلہ تکلیف دہ تھا، بہت سی آنکھیں اشک بار تھیں، عجیب سماں تھا

 اسلام آباد نے ہاتھ پیر پھیلانے شروع کیے تو ایک دن چْپ چاپ جغرافیائی حدود کو پھلانگ کر گولڑہ تک آن پہنچا اب یہ اسلام آباد کا حصہ ہی تصور ہوتا ہے

 کشمیر جنگ 1948ء، رن آف کچھ جھڑپ اور پاک، بھارت جنگ 1965ء تینوں جنگوں میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا،71ء میں ایثار کی ضرورت تھی

 وثوق سے کہہ سکتا ہوں نمائندے خواہ کسی جماعت سے منتخب ہوں سوچ اور مفادات سبھی کے ایک جیسے ہیں، تبادلے کا دکھ تھا مگر  چلے جانا ہی بہتر تھا

 جب اسلام آباد تعمیر ہو چکا تو راولپنڈی کی حیثیت تھوڑی کم ہو گئی، تاہم آج بھی بڑا شہر ہے جہاں دور جدید کی سہولتوں کیساتھ  قدیم محلے اور عمارتیں ہیں 

انڈین آرمی چیف آدھا پنجاب جنگِ ستمبر میں پاکستان کے حوالے کرنے کو تیار ہو چکا تھاجس میں سکھوں کا مقدس ترین گولڈن ٹیمپل اور امرتسر شہر بھی شامل تھا

انہوں نے چٹھی میرے سامنے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی، میں ان کا شکریہ ادا کرکے واپس آیا اور شکوہ کیا”استاد  آپ نے حماقت کروا دی“

 راولپنڈی اسٹیشن 1881ء میں تعمیر ہوا، ایک طرف ٹیکسلا، دوسری طرف اسلام آباد، دبے پاؤں چلتا ہوا روات اور گوجر خان کے گریبان تک بھی آن پہنچا ہے

  چین کے وزیراعظم چواین لائی نے پاکستان کا دورہ کیا، عالمی سیاست نے نئی کروٹ لی،دورہ ختم ہوتے ہی امریکہ نے پاکستان کی امداد بند کر دی

افسوس ہوتا ہے کہ ہم سرکار کا پیسہ بے دردی سے خرچتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ بے دردی سے ضائع کرتے ہیں، بھائی یہاں کون کسی کو پوچھتا ہے؟

 مندرہ بھی جنکشن ہوا کرتا تھا،پھر وہی انجام ہوا جو درجنوں بدقسمت برانچ لائنوں کا ہوا،پتہ ہی نہ چلا اور ایک دن چْپ چاپ ہی یہ لائن بھی مر کھپ گئی

1965ء کی جنگ پاکستان نے مشکل حالات میں کامیابی سے لڑی،امریکا نے اعلان کیا پاکستان امریکا سے حاصل کردہ اسلحہ انڈیا کیخلاف استعمال نہیں کریگا

دفتر کے سامنے وسیع لان میں کرکٹ کھیلنے کیلئے سیمنٹ کی وکٹ بنوا دی، روز ان کیساتھ کھیلتا، دوتین دیہا توں سے بھی بچے آ کر یہاں کھیلنے لگے

 ذکر جہلم کا ہے، بات ہے دینے کی،چاند پکھراج کا، رات پشمینے کی،جہلم اور دینہ سے جیسے ہی ریل گاڑی روانہ ہوتی ہے تو پہاڑی علاقہ شروع ہو جاتا ہے 

اب سمجھ آ رہی تھی کہ روزانہ رات کو زار و قطار روتے ہوئے کیوں اسکی یاد رہ رہ کر آ رہی تھی،کیوں اسے خط لکھ کر اپنا دل ہلکا کیا کرتا تھا اور صبح اْٹھ پھاڑ دیتا تھا 

ہم نے خاص و عام کے چکر میں ملک کا کیا حال کر دیا ہے، پسینے چھوٹ رہے تھے، ڈچ خاتون افسر نے ایسی بات کہہ ڈالی جو آج بھی ذھن سے نکل نہیں سکی

گجرات صاف ستھری ثقافت،تہذیب اور ادب کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے، لوک داستان سوہنی مہینوال کے کردار بھی یہیں کے ہی تھے

عشق کا بھوت تھا جو بغیر ایک دوسرے کو دیکھے ہم دونوں پر سوار ہو کررہا، ایک طرح سے روحانی تعلق تھا جو حقیقی محبت کے روپ میں ڈھل گیا

دفتر بیٹھا بوریت محسوس کر رہا تھا،لاہور کا پلا بڑھا کہاں لالہ موسیٰ جیسے قصبے میں وقت گزار سکتا تھا،بچے لاہور تھے، ان دنوں کابلی پلاؤ کا بہت رواج ہوا تھا

 وزیرآباد سے نکل کر دریائے چناب پر بنے الیگزینڈریہ ریلوے پْل کو عبور کرتے ہی خوبصورت شہرگجرات آجاتا ہے جو 2 دریاؤں کے بیچ میں بسا ہے

بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اخلاص و محبت کے رشتے کا گلا گھونٹ دیا جائے، اْسے خط کا جواب نہ دیا جائے، ہم اندھیرے میں ہی رہیں 

معصوم بچہ کیا جانتا تھا کہ دنیا کے زہریلے ترین سانپوں میں سے ایک اس کے سامنے تھا، جانے کہاں سے ہمت آئی اینٹ اٹھائی اور کوبرے پر لہرا دی

اربابِِ اختیار کو نور جہاں کی بے کسی پر ترس آگیا، آہستہ آہستہ مزار کی تعمیر نو شروع ہوگئی،اب ریل گاڑیاں مقبرے کی چار دیواری سے ہو کر گزرتی ہیں 

مزیدخبریں

نیوزلیٹر





اہم خبریں
History

Close |

Clear History