Daily Pakistan

Get Alerts

ادب وثقافت


محتاجی اور انحصاری شادی شدہ زندگی کی بنیاد ثابت ہوتی ہے، بااختیار ساتھی مرد ہو یا خاتون، شریک حیات کیلئے غلام کی حیثیت سے مطمئن نہیں ہوتا

ٹیلی فون کی سہو لت گھر گھر نہ تھی،والد نے ٹیلی گرام لکھنی سکھا ئی کہ”کو ما اور فل سٹاپ“  استعمال نہیں کرتے ان کے بھی پیسے بھرنے پڑتے تھے

بر صغیر میں مسافر گاڑیاں چلنا شروع ہوئیں تو اس سستے اور تیز رفتار سفر سے فائدہ اٹھانے سب ہی نکل پڑے، انگریزوں نے امیر غریب کا فرق قائم رکھا

خاتون (بیوی) کی طرف سے آزادی و خودمختاری کا اظہار خاوند کے لیے بآسانی قابل قبول نہیں، اسی لیے وہ دھمکی آمیز انداز اپناتا ہے

لاہور میں منی بس نئی نئی چلنا شروع ہوئی تھی، اس میں کھڑے ہو کرسفر کرنا کسی ڈورائے خواب اور سزا سے کم نہ تھا، خواتین کیلئے تو سفر امتحان ہو تا تھا

مسافروں کو لے کر انجن کے پیچھے پیچھے سر جھکائے ہوئی جو گاڑیاں بھاگتی ہیں ان کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، اس کو بوگی، کوچ یا کمپارٹمنٹ کہتے ہیں 

گوشۂ ادب کوئٹہ سے شائع شدہ کتاب "کمال اقبال اوراکیسویں صدی "کیلیے صدارتی ایوارڈ

جب خاوند پیشہ وارانہ طور پرمسلسل کامیابیاں حاصل کرتا جاتا ہے  تب ایک مایوس، دل گرفتہ، بدصورت اوربے ڈول بیوی اس سے برداشت نہیں ہوتی

گھر میں کرکٹ کھیلتے تو چپقلش کھیل کا رنگ بدل دیتی، رات کے آخری پہر بھوک لگتی تو ڈبل روٹی، آملیٹ اور مکھن ہار کی خفت  بڑی حد تک دور کر دیتے 

ہارس اینڈکیٹل ٹرین کی دیواروں پر گدے لگے ہوتے ہیں تاکہ گھوڑے اور مویشی گاڑی کے جھٹکوں سے بدک نہ جائیں اور خود کو زخمی نہ کر لیں 

 اکثر شادیوں کو قائم رکھنے والا عنصر ”حکم اور اطاعت“ پر مشتمل ہوتا ہے، کردار مختلف زندگیوں کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں لیکن یہ عنصر موجو درہتا ہے

بھانجے بھانجیوں کو پہلا سبق”کا کا بلی کتھے اڑ چلی“ اور ”الف بے بتوا“ سکھایا، بہنیں ناراض ہوتیں کہ بھائی بچوں کو کیا سکھا رہے ہو،اپنے بچوں کو بھی یہی سکھایا

ایک گاڑی خاص مواقع پر ہی چلتی ہے ,اس کا چلنا کوئی خیر کی خبر نہیں ہوتی، اسےریلیف ٹرین کہتے ہیں جہاں کہیں حادثہ ہو روانہ کر دی جاتی ہے

 اکثر لوگ شادی شدہ زندگی پسند نہیں کرتے لیکن اگر انہیں شادی شدہ زندگی بسرکرنے پر مجبور کر دیا جائے تو پھر نفسیاتی الجھنیں اور بحران جنم لیتے ہیں 

حافظ صاحب باغ و بہار شخصیت  کے مالک تھے، آدھے ماڈل ٹاؤن نے قرآن کی تعلیم انہی سے حاصل کی،ایک بازو تقسیم ہند کے وقت کٹ گیا تھا

پاکستان چاہے تو ایسی گاڑیاں چلا سکتا ہے جو تاریخی مقامات کاسفر کریں اور سیاحوں کو سیر کروائیں، پاکستان میں بھی دیکھنے کو بہت کچھ ہے 

 اپنی بقاء کے لیے خود جدوجہد کریں، والدین سے مشورہ اور بوقت ضرورت مدد ضرور طلب کریں لیکن اپنے شفیق والدین کے لیے بوجھ نہ بن جائیں 

 بے شک ماں اللہ کی نعمتوں میں سب سے اعلیٰ ہے،دونوں خالائیں امی کی”گوڑی“ سہیلیاں تھیں،میری والدہ کے خاندان کا آپس کا پیار مثالی ہے 

کچھ گاڑیاں ایسی ہیں جن کو تاریخی یا سیاحتی مقامات تک چلایا جاتا ہے، خیبر ہیریٹیج ٹرین سو سال قدیم پٹریوں پر درۂ خیبر کے راستے لنڈی کوتل تک جاتی تھی

 انسانی زندگی کے ارتقائی مرحلے میں خاندان اہم اکائی ہے لیکن یہ اکائی مستقل نہیں ہونی چاہیے، شرمندگی اورندامت کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے 

میری ماں نے بوڑھی عورتوں کے وظیفے مقرر کر رکھے تھے،صفائی والی ”ویرو“ نے کہا ”آپاں جی معاف کر دینا ایتھوں جا کے توہاڈی قدر آئی جے“ 

طبقۂ اشرافیہ ریل کار میں سفر کو ترجیح دیتا تھا، سفر بہت اچھے اور ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں ہوتا تھا اس کو راہ دینے کی خاطر”جغادری“ گاڑیوں کو روک لیا جاتا تھا

محمد عاصم بٹ کی کتاب" کافکا کہانیاں" کو بہترین ترجمہ کی کیٹگری میں ادبی انعام مل گیا

 آزادانہ زندگی کی بچے کی خواہش بہت شدید ہوتی ہے لیکن جب قربانی کا جذباتی نعرہ بلند کیا جاتا ہے تو یہ مسئلہ بحران کی حیثیت اختیار کیا جاتا ہے

ابا جی کمرے میں آئے اور کہا”یار! تمھیں دوستوں کے سامنے ڈانٹ دیا“ میں نے والد کو گلے لگایا، ماتھے پر پیار کیا اور کہا”آپ کو حق ہے“

 پسنجر گاڑی نے حلف اٹھا رکھا ہوتا ہے کہ وہ دو گھڑی دم لے کر ہی آگے جائے گی، گاڑی رفتار پکڑنے بھی نہیں پاتی کہ بریکیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں 

جانوروں میں یہ خصوصیت ہے کہ اپنے بچوں کو ضروری طورطریقے اور مہارتیں سکھاتے ہیں پھر خودمختار زندگی گزارنے کی اجازت دے دیتے ہیں 

 دادی کے قبضے میں ”جِن“ تھا،اس نے سڑک پر کھڑے ہو کر تیسری منزل پر دہی پکڑایا تو ہم سب بے ہوش ہو گئے، اس کا راز فاش ہو گیا اور چلا گیا

1947ء میں ہندوستان کے ساتھ ریل کا بٹوارہ بھی ہوا، پاکستان کے حصے میں ابتدائی طور پر 2 میل گاڑیاں آئی تھیں۔ ایک خیبر میل، دوسری بولان میل  

اپنی شخصیت کی تشکیل خود کریں روزمرہ معمولات زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق انجام دیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کے ساتھ وعدہ خلافی کریں 

ترلے منیتیں کرکے کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا، ماں باپ کا اکلوتا بیٹا، ٹینا ثانی کا چچا زاد بھائی، کر کٹ کھیلنے کا دلدادہ، ہنس مکھ، ملنسار، اسکے والد بھی کمال انسان تھے

جاپان والے ایسی گاڑی بنا چکے ہیں جس کی رفتار 600 کلومیٹر تھی،رفتار کی سوئی ابھی اور آگے جانے کو بے چین تھی کہ اسے وہیں روک لیا گیا

 نہایت حوصلہ مندی اور ہمت کیساتھ خدشات کا اظہار کیجیے یہ بھی جائزہ لیجیے کہ کیا آپ یہ کام صرف اپنے کسی عذر یا بہانے کے سب ملتوی کر رہے ہیں؟ 

 ابا جی نے ہمیشہ ہی بناء مانگے ہم بہن بھائیوں کو سب کچھ خرید کر دیا،جب خود باپ بنا تو بہت سی باتیں سمجھ آ گئیں جو بچپن یا جوانی میں سمجھ نہ آ تی تھیں 

ایک دن شمسی توانائی سے چلنے والا انجن بھی آپ کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہو گا، بے آواز، ماحول دوست مگر بے حد طاقتور اور ہر دم چلنے کے لیے تیار

 اگر آپ اپنے پسندیدہ کام میں مصروف نہیں تو پھر ابھی سے شروع کر دیجیے کیونکہ زندگی اس قدر مختصر ہے کہ اس میں آپ کیلیے قطعی گنجائش موجود نہیں 

مزیدخبریں

نیوزلیٹر





اہم خبریں
History

Close |

Clear History