Daily Pakistan

Get Alerts

ادب وثقافت


اگر ”کاش، اگر، مگر اور چاہیے“ کے حصار میں مقید ہیں اور ان روایات کو توڑ نہیں سکتے جو دوسرے مقرر کرتے ہیں تو پھر آپکی ذات بیرونی حصار میں قید ہے

سیر گوشت لینے والا امیر آدمی سمجھا جاتا ، کھانے میں دیسی گھی استعمال ہوتا تھا، ایک آنے کی بھی قدر تھی،سستا زمانہ، مخلص لوگ اور دکھ درد سانجھے

امریکہ میں ڈیزل انجن کی کامیابی دیکھ کر دیگر ممالک نے بھی دخانی انجنوں کو بتدریج الوداع کہہ دیا، آنجہانی سٹیم انجنوں کے  جگہ جگہ قبرستان بن گئے

 اصول ہر فرد پر نہیں کیے جا سکتے،یہ دنیا ”کاش، اگر، مگر، چاہیے“ سے بھری پڑی ہے جنہیں ہم بغیر سوچے سمجھے معمولات زندگی میں استعمال کرتے ہیں 

تختی لکھنے کیلئے چراغ روشنائی استعمال ہوتی تھی جو لالہ موسیٰ میں بنتی تھی، روشنائی بنانے والا یہ خاندان اب انگلستان میں کامیاب زندگی بسر کر رہا ہے

 دخانی انجن عجائب گھروں میں رکھ دئیے گئے، سٹیم انجن کی خوبصورت سیٹیاں بھی خاموش ہو گئیں اب ہر طرف ڈیزل انجن چیختے چنگھاڑتے پھرتے تھے

 تصور کریں دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان اور موجد اگر ناکامی سے اجتناب پر مبنی رویہ اور طرزعمل اختیار کرتے تو دنیا آج پتھر کے زمانے میں ہوتی

 آدھی چھٹی کے وقت تختی پر”پوچا“ پھیرنے کا مقابلہ ہوتا، تختی گاچنی سے دھوئی جاتی، املا ء میں غلطی نہ کرنیوالے طالبعلم کو استاد صاحب ”ص“ دیتے

  مختلف ملکوں کی کئی کمپنیوں نے بھی ریلوے کے سب سے پہلے آغاز کے دعوے کیے،لیکن عمومی تاریخ اسے جارج اسٹیفنسن کا کارنامہ ہی سمجھتی ہے

  یکسانیت اور مردہ دلی کامیابی کی موت ہے، اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ زندگی کا ہرروز مختلف انداز میں بسر کریں گے، زندہ دل اور خوش باش رہیں گے 

 نانا کی حویلی اس قدر بڑی تھی کہ رات کو ڈر لگتا تھا،2 منزلہ حویلی کے صحن کے گرد 20 کمرے تو ہونگے،سیڑھیاں چڑھتےمحسوس ہوتا کوئی پیچھے آ رہا ہے

 امریکی اور یورپی ممالک نے پٹریوں کا جال بچھانا شروع کر دیا، کمپنیاں خوب کھل کرکھیلیں، امریکہ کے چپے چپے پر دخانی ریل گاڑیاں چلنے لگیں 

 اپنے گھر میں ایسے لوگوں کو مدعو کیجیے جو مختلف نظریات اور رویوں کے مالک ہوں، ان کیساتھ روایتی موضوعات کے بجائے نئے موضوعات پر بات چیت کیجیے

 کبھی وہ نہیں ملتا جس کا انتظار ہوتا ہے، مرتا انسان جسے ملنا چاہتا ہو وہ نہ ملے تو اس کے احساسات اور بے بسی کا اندازہ شاید ہمارے تصور سے بھی باہر ہے

ریل کی پٹری کے آس پاس علیٰحدہ ہی قیامت مچی رہتی، مویشی اس دیو ہیکل، شور مچانے والی شے کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے اور ادھر اْدھر بھاگے پھرتے

جب تک آپ گھسے پٹے منصوبے کے مطابق عمل کرتے ہیں ناکامی کے خوف سے محفوظ رہتے ہیں یہ رویہ اس قدر مہنگا ہوتا ہے کہ آپ تصو رنہیں کر سکتے 

 کندیاں کے لوگ سادہ مگرلڑاکے اور بٹیر بازی کے شوقین تھے، جیت ہار پر ان کے تاثرات دیکھنے والے ہوتے،بعض دفعہ ہار لڑائی میں بدل جاتی 

50 برس اور بیت گئے، بھاپ کی طاقت سے چلنے یا بھاگنے والی کوئی شے نہ بن سکی، انجن کھلی فضاؤں میں نہ نکل سکا محض مشینوں کا پہیہ گھمانے میں مشغول رہا

 آپ ہر چیز کو دولت میں تولتے ہیں،زندگی طے شدہ منصوبے کے مطابق گزارتے ہیں، گھڑی کی سویوں کو رہنما سمجھتے ہیں اور انہی کے مطابق چلتے ہیں 

گھر کے سامنے قبرستان تھا، پرانے درختوں کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں،مغرب کی اذان کے بعد کوئی بھی قبرستان کا رخ نہ کرتا تھا

 کانوں کے اندر آہنی ریل کی پٹری بچھائی گئی، پانی با ہرلے جانے کیلئے حوض نما ڈبے لگائے جاتے، ڈبوں کی مدد سے کوئلہ بھی باہر لایا جاتا تھا

 تلخ اور پریشان کن زندگی کے بجائے تنہا رہیں یا نئی شادی کے تجربے سے گزریں،خود بھی پریشان ہیں اور شریک حیات کو بھی پریشانی میں مبتلا کرتے ہیں 

کندیا ں میں لال آندھی اکثر چلتی، اڑتے ریت کے ذرات اسے خوفناک بنا دیتے، آندھی میں کبھی جن بھوت کا سامنا تو نہ ہوا البتہ انسان نما جن ضرور دیکھے 

 300سال پہلے یورپ اور امریکہ میں سب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا زندگی کی دوڑ اتنی پیچیدہ نہیں ہوئی تھی، لوگ گھوڑوں اور بگھیوں پرہی طویل سفر کرتے تھے

نئے تجربات سے اجتناب، ناکامی کا خوف اور بہترین کارکردگی کا اظہار، وہ عناصر ہیں جن کے باعث آپ صلاحیتوں کے اظہار کو محدود کر لیتے ہیں 

میں 4 جہازوں کی فور میشن لے کر آگرہ پر حملہ آ ور ہوا، رن وے کی چھوٹی لائیٹس جل رہی تھیں، پھر یہ اڈا ہمارے بموں کے رحم و کرم پرتھا

 ”ریل“ کی اصطلاح، پٹری یا ٹریک کے لیے استعمال ہوتی ہے، اپنے ہاں دونوں الفاظ کو ملا کر”ریل گاڑی“ نہ بنا لیا جائے، دل کو چین ہی نہیں پڑتا

 ایڈیسن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن کوشش کرتا رہا بالآخر دنیا کو روشن کرنے میں کامیاب ہو گیا، ناکامی انسان کیلئے رہنما ثابت ہو سکتی ہے

 ابا جی اور امی جی میں نوک جھوک بڑھ جاتی تو میں صلح کا پل بنتا، اپنے باپ سے اس قدر محبت تھی کہ زندگی بھر ان سے پیسے وغیرہ نہیں مانگ سکا

 ہم ہیں کہ ابھی تک ڈرائیور کہنے پربضد ہیں، لوکوپائلٹ کہنے میں وہ لطف کہاں۔ بہر حال جس کا جو جی چاہے کہے، گاڑی تو چلا ہی رہے ہیں نا

ہر قیمت پر کامیابی اور سرگرمیوں کوبہترین انداز میں انجام دینے پر مبنی روئیے اور طرزعمل کے ذریعے خوشگوار سرگرمیوں سے اجتناب کا رویہ مت اپنایئے

 شاہ رخ اچھی کرکٹ کھیلتا ہے،ڈاکٹر نے مجھے دھوپ کا چشمہ لگانے کی ہدایت کی، ابا جی نے مجھے دفتر اپنے ساتھ لے جا ناشروع کر دیا تاکہ میرا دل بہلا رہے

 ریل گاڑی، دیو ہیکل سیاہ انجن اور اس کی آزردہ سی سیٹی سے میرا عشق قدیم اور بھر پور ہے، کتابوں میں دفن محبتوں کے مارے عشاق سے بھی زیادہ

 ناکامی کو ایک جانور کے طرزعمل کی حیثیت سے دیکھیں، بلیاں چوہوں کا شکار کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں تو پھر کوشش کرتی ہیں،واویلا نہیں کرتیں 

 ہاتھ پکڑ کر نہر سے باہر کھینچا تو سکتہ طاری ہو گیا وہ بالکل سوکھا تھا، بت تھا جیسے جسم میں جان ہی نہ ہو، زبان گنگ، اسے باوا جی کی آواز پھر سے سنائی دی

 ریل لائنوں کی تنصیب اور پلوں کی تعمیرسے وابستہ حکایتوں اور لوک قصوں سےداستانوی رنگ پیدا ہوگیا، جیسے ”ریل دیوی“ اپنی سرگذشت سنارہی ہے

مزیدخبریں

نیوزلیٹر





اہم خبریں