قائداعظم کی زندگی ہی میں اُردو کو قومی زبان بنانے کا غلغلہ شروع ہوچکا تھا۔ یہاں تک کہ اُردو زبان کے بڑے چیمپئینز نے قائد اعظم جیسے زیرک رہنما سے ایک ایسی فاش غلطی نادانستہ کروا دی جو مشرقی پاکستان کی بالآخر علیحدگی کا باعث بنی۔ 1948ء مارچ یا اپریل میں قائداعظمؒ نے مشرقی پاکستان کا پہلا اور آخری دورہ کیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے اعلان کر دیا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہو گی۔ یہ تقریر بنگلہ دیش کی بنیاد کی پہلی اینٹ ثابت ہوئی۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان پر دو طبقوں نے یلغار کر دی۔ اُردو سپیکنگ مہاجر بھائیوں نے اُردو کو تمام پاکستان، خاص طور پر سندھ میں لازمی مضمون قرار دینے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور دوسری طرف سیاسی مولویوں نے قراردادِ مقاصد کو پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا،حالانکہ یہ دونوں مقاصد نئے نئے قائم ہونے والے پاکستان کے گھمبیر مسائل کے سامنے اتنی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ سچ پوچھیں تو اُردو بولنے والی اعلیٰ بیوروکریسی اور مہاجر علماء نے اِن دنوں Political teasers کی ابتداء کی تھی۔ اِدھر والے پاکستان کی سیاست پر جاگیردار، پیرزادے، مخدوم، ارباب اور چوہدری قابض ہوگئے۔اِن ابتدائی دِنوں میں فوجی اور CSP افسروں کی بہت قدر دانی تھی۔ لوکل وڈیروں اور چوہدریوں نے اِن افسروں کو بیٹے، بیٹیاں، بہنیں دے کر رشتہ داریاں کر لیں۔
کراچی میں اُردو کو پروموٹ کرنے کی مہم میں بابائے اُردو مولوی عبدالحق، انجام اخبار کے مالکان، مولانا اسد القادری، ماہرِالقادری رئیس امروہوی وغیرہ شامل تھے۔ سڑکوں کے نام،دکانوں کے سائن بورڈ، سرکاری دفتروں اور اہل کاروں کے انگلش ناموں کے اُردو متبادل رائج کئے گئے۔ سندھی قوم پرستوں نے مخالفت میں آواز اٹھانا شروع کر دی، پنجاب میں بھی پچاس ساٹھ کی دھائی میں اُردو اور اسلام کا شدید چرچا شروع کیا گیا۔ اس مہم کے سرکردہ لیڈرز بھی اُردو والے علاقوں سے ہی آئے ہوئے اُردو زبان کے سرخیل ڈاکٹر عبداللہ سید، داکٹر وقار عظیم، ڈاکٹر عبادت یار خاں بریلوی، پیش پیش تھے۔
لاہور کی مال روڈ کا نام بھی تبدیل ہوا اور مال روڈ کی دکانوں کے بورڈ اُردو میں لکھوائے گئے۔ جنرل ایوب خان کا زمانہ تھا لاہور کارپوریشن کے مئیر چوہدری محمد حسین ہوتے تھے۔ واجبی سی تعلیم تھی، شریف انسان تھے۔ مذہبی رجحان رکھتے تھے۔ انہیں خیال سوجھا کہ لاہور کی سڑکوں کے نام کافرانہ ہیں۔چنانچہ سڑکوں کے اسلامی نام رکھے گئے اور اُردو میں رکھے گئے۔ بعض اُردو نام بہت ہی طویل تھے اور عام لاہوریوں کی زبان پر مشکل سے ہی چڑھتے تھے۔ دنوں میں سڑکوں کے نئے اسلامی ناموں والے بورڈلگ گئے۔ لیکن جو نام 100 سال سے تانگے والوں کو، دوکانداروں کو، طالب علموں کو، پوسٹ آفس کے ڈاکیوں کو پشت در پشت زبانی یاد تھے انہیں سرکاری حکم نامے سے عوام میں کیسے پھیلایا جا سکتا تھا۔ پارٹیشن سے پہلے کی سڑکیں گورے حکمرانوں نے بنائی تھیں۔ ظاہر ہے سڑکوں کے اور نئی تعمیر شدہ سرکاری یا پرائیویٹ عمارتوں کے نام بھی اِن گورے افسروں کے نام پر رکھے جانے تھے۔ کیا سڑکوں کو مشرف با اسلام کر دینے سے ہم اپنے آزاد ہونے کا اعلان کر رہے تھے؟ہم تو 77 سالوں میں مزید غلام ہو گئے۔ اِدھر چند سالوں میں ہی اُردو زبان میں لکھے ہوئے سائن بورڈ انگریزی میں دوبارہ لکھے جانے لگے اور مال روڈ بلکہ تمام لاہور کی سڑکوں پر نظر آنے لگے۔ سڑکوں کے اسلامی ناموں والے بورڈ بھی اب تو ختم ہو گئے۔ سرکاری Road signs پر لٹن روڈ، ڈیوس روڈ، منٹگمری روڈ، کوئنز روڈ، مکلوڈروڈ، لکشمی چوک، جین مندر، دھرم پورہ اور مال روڈ واپس آگئے ہیں۔ بلکہ اَب تو ہم نے انگریزی زبان کی نمائش کی انتہا کر دی ہے۔ سڑکوں پر لگے اشتہاری ہورڈنگزپر اُردو عبارت یا Slogans رومن رسم الخط میں لکھے جا رہے ہیں۔ یہ ”خرابی“گھر گھر انگلش میڈیم سکولوں کی یلغار نے پیدا کی ہے۔ اَب تو کچی آبادیوں میں بھی انگریزی ناموں والے سکول آ گئے ہیں۔ ہمارے خواص کو اچانک پاکستان میں مسلمانیت کی ترویج کا، کبھی قومیت کا، کبھی اُردو زبان کا اور کبھی ہنود و یہود کی سازشوں کی گردان کا جوش اٹھتا ہے، یہ جوش کچھ عرصے رہتا ہے لیکن جب ہمارے عوام ا،ن کی بتائی ہوئی ڈگر پر نہیں چلتے تو خواص کا ولولہ بھی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ یہ کلچرل سائیکل 77 سال سے چل رہی ہے، پاکستان کی62%نوجوان آبادی کے ہاتھ میں سمارٹ فون آ گیا ہے۔ یہ 77 سالہ یکساں کلچرل سائیکل اپنے آپ ڈھیلی پڑ جائے گی۔ اُردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کی بیوقت کی راگنی نے انڈیا میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ہندو عصبیت کے جنون کا شکار بنا دیا۔ اُردو جیسی خوبصورت، معصوم اور تمام برِصغیر میں کسی نہ کسی طرح سمجھ میں آجانے والی زبان، جس کو ہندی سنیما نے دوام بخشا، اس یونیورسل زبان کو ہندوستان میں مسلمانوں سے جوڑ دیاگیا۔ BJP کی 14 سالہ حکومت نے اُردو کو پاکستان کے ساتھ گڈمڈ کر دیا۔ اُردو پاکستان میں بھی اپنا جائز مقام نہ پا سکی اور جس خطے میں اس سریلی زبان نے جنم لیا وہیں اس کے دشمن بھی پیدا ہو گئے۔ ماڈرن اُردو کی آبیاری منشی پریم چند سے شروع ہو کر کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی، دیویندر ستھیارتی، گوپامتل، فراق گور کھپوری، جگن ناتھ آزاد، چکبست، خشونت سنگھ سے ہوتی ہوئی گلزار جو زندہ ہیں، تک پہنچی یہ سب ہندو اور سکھ تھے۔ زبانوں کے مذہب نہیں ہوتے۔
manzoor ahmad