مسلمان جو کبھی ساری دنیا پر حکومت کرتے تھے، اپنی کمزوریوں، سازشوں اور غفلتوں کی وجہ سے علم و عمل کے قافلے سے بچھڑ کر  اب بہت پیچھے رہ گئے

Nov 02, 2024 | 10:02 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:49
 یہاں جید مفتیان کرام بھی مصروف کار رہتے اور اکثر حالات میں اجتماعی اجتہاد کے ذریعے روزمرہ کی سادہ اور پیچیدہ مشکلات کاحل تلاش کرکے مسلمانوں کو ذہنی کشمکش اور الجھنوں سے نجات دلانے کے لئے ان کی اس طرح مدد اور رہنمائی کرتے کہ ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ بھی نہ رہتا اور مسئلے کا ایک قابل عمل حل بھی نکل آتا۔ان کے جاری کئے ہوئے فتاویٰ تمام عالم اسلام میں قدر اور تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
 یونیورسٹی ایک وسیع و عریض رقبے پر قائم ہے۔ چونکہ یہ مقامات اب قاہرہ کے انتہائی گنجان آباد علاقے میں آگئے ہیں لہٰذا کبھی کبھار تنگی دامن کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اسی لئے اب اس یونیورسٹی کے نئے کیمپس شہر سے باہر منتقل ہو رہے ہیں۔
جب ہم اندر داخل ہوئے تو یونیورسٹی کے طلباء اور طالبات اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں مشغول تھے۔ زیادہ تر طالبات مکمل پردے میں تھیں اور جو نہیں تھیں تو وہ باحجاب تھیں۔ ساری دنیا سے علم کے پیاسے لوگ یہاں کھینچے چلے آتے ہیں۔ جن میں پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش وغیرہ کے طالب علم بھی نظر آتے ہیں۔ دین کے علاوہ دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور سائنس، حیاتیات، نباتات، کیمیا، حساب وغیرہ میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے بھی موجود ہیں،جہاں ایک بالکل ہی مختلف ماحول میں طلباء کو زمانہ جدید کے علوم سے آگاہ رکھا جاتا ہے۔
مسلمان جو کبھی اپنے علم اور تحقیق کی بدولت ساری دنیا پر حکومت کرتے تھے، اپنی کمزوریوں، سازشوں اور غفلتوں کی وجہ سے علم و عمل کے قافلے سے بچھڑ کر اب بہت پیچھے رہ گئے تھے ایک وقت تھا کہ مسلمان سائنس دان اور محقق کائنات کے اسرار و رموز، علم طب، فلکیات اور علم الہندسہپر راج کرنے والے اساتذہ،اپنی تحقیق و تصانیف کے اس عروج پر تھے کہ ان کی تحریر کی گئیں درسی کتابیں مغربی دنیا میں اپنے اعلیٰ معیار، مستند تحقیق اور جاندار حوالوں کی بدولت قابل احترام سمجھی جاتی تھیں اور ان میں سے اکثر کو تو انہوں نے باقاعدہ اپنے تعلیمی اور تدریسی نصاب کا حصہ بنا لیا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ ان کا شمار کسی کھاتے میں ہی نہیں آتا۔ پچھلی کئی صدیوں سے آنکھیں کسی مسلمان کا کوئی قابل افتخار شاہکار دیکھنے کو ترس گئی ہیں اور اب جامعہ ازہر کے اساتذہ اور طلباء مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت اور میراث کو واپس لانے کے لئے بے چین تو ہیں اور وہ اس یونیورسٹی میں دن رات تحقیق کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن سامنے پھر بھی کچھ نہ آسکا۔ ان کی آپس کی چپقلشوں، سیاستوں اور  گھناؤنی سازشوں نے کسی تحقیق کو سرے چڑھنے ہی نہیں دیا۔ حتیٰ کہ  اب تو ان کے جاری کئے ہوئے فتوؤں کو بھی ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ اکثر مقامی علماء تو اب اس عظیم ادارہ کے جاری کئے ہوئے فتوؤں کو مانتے ہی نہیں اور اس کو بھی فقہ اور مسلک کے نہ ختم ہونے والے چکرمیں پھنسا کر مشکوک بنا دیتے ہیں۔
ابتدائی دنوں میں ساری تعلیم و تربیت الازہر مسجد کے اندر ہی دی جاتی تھی جس کی تعمیر یونیورسٹی سے پہلے ہی تکمیل پا گئی تھی۔ یہ بھی ایک قدیم اور شاندار مسجد تھی جو فاطمیوں نے تعمیر کروائی تھی اور یہیں سے ہی اسی یونیورسٹی کا آغاز ہوا تھا۔ بعدازاں حالات اور ضروریات کے مطابق یونیورسٹی اور مدرسے اسی مسجد کے اردگرد ہی تعمیر ہوتے گئے۔ مدرسوں کے نئی عمارتوں میں منتقل ہو جانے کے بعد یہ مسجد صرف نماز کیلئے مخصوص ہوگئی۔ قدیم ہونے کے باوجود یہ مسجد آج بھی بہترین حالت میں موجودہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ضروری مرمت اور تبدیلیاں بھی کی جاتی رہی ہیں۔
جامعہ ازہر سے باہر نکلا تو ایک عظیم درسگاہ کو دیکھنے کی خوشی تو یقینا ہوئی تھی لیکن جو کچھ اس کے بارے میں سوچا اور سنا تھا، وہ سحر انگیزتاثر نہ بن سکا اور نہ ہی میں اس سے اتنا متاثر ہوسکا جتنا کہ مجھے ہونا چاہیے تھا۔ ایک بے نام سی تشنگی بڑی دیر تک محسوس ہوتی رہی۔ شائد میں نے جامعہ ازہر کے بارے میں کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ اب میری نظر میں یہ ایک عام سی یونیورسٹی تھی۔ ہوسکتا ہے اندر کہیں کوئی علماء بیٹھے تحقیقی کاموں میں مصروف ہوں جس کی دھوم ساری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی، پر میں کسی کو نہیں دیکھ سکا۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں