میری والدہ نے کہا تھا جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے،چیف جسٹس پاکستان کے کمرۂ عدالت میں ریمارکس

Oct 02, 2024 | 01:23 PM

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی اپیلوں پرسماعت  کے دوران چیف جسٹس  پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ میرا گناہ یہ ٹھہرا کہ میں برداشت کر جاتا ہوں،میری والدہ نے کہا تھا جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔

"سماء ٹی وی "کے مطابق آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت کے دوران پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آگئے ، وکیل مصطفین کاظمی نے کہاکہ میں پی ٹی آئی سے ہوں، ہم اس کیس میں متاثرہ فریق ہیں۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پولیس کو بلائیں اور اس بندے کو باہر نکالیں۔

وکیل مصطفین کاظمی نے کہاکہ باہر 500وکیل ہیں، دیکھتے ہیں ہمارے خلاف فیصلہ کیسے آتا ہے۔

چیف جسٹس نے مصطفین کاظمی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ اب آپ ہمیں دھمکی دے رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ اداروں کو ایسے چلانا چاہتے ہیں،روز کہا جاتا ہے ججز کے 2گروپ ہیں

چیف جسٹس نے کہاکہ ایک سابق چیف جسٹس نے کتنے ارکان پارلیمنٹ کو جیل بھیجا؟ثاقب نثار نے کہاکہ آپ کے کتنےا رکان پارلیمنٹ جیل پہنچائے؟

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وکیل وکیل مصطفین کاظمی عدالت سے چلے گئے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ابھی جو کچھ عدالت میں ہوا اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اس کے ذمہ دار ہیں، آپ کیس نہیں چلانا چاہتے نہ چلائیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ میں اس معاملے پر آپ کے ساتھ ہوں، مجھے دشمن نہ بنائیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ الیکشن آپ کی پارٹی کی درخواست پر ہوا، اس وقت گالیاں کیوں نہ دیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ہمارے ایک جج صاحب نے کچھ لوگوں کو ضمانت دی تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ میں نے انہیں کہا آج کل آپ کے بڑے چرچے ہیں،جج صاحب نے کہاکہ یہ لوگ خلاف فیصلہ سن کر مجھے گالیاں بھی دے چکے ہیں،علی ظفر صاحب عزت سے بڑی کوئی چیز نہیں ہوتی،بہت کہا جاتا ہے ہم ججز پتہ نہیں کتنی تنخواہ لے گئے،ہماری تنخواہوں سے زیادہ تو آپ وکلاء کمائی کا ٹیکس دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ جو صاحب بدتمیزی کرکے گئے ہیں، دیکھیے گا اب یوٹیوب پر چلیں گے۔

مزیدخبریں