دن کا وقت تھا ۔اکاّ دکاّ لوگ آجا رہے تھے، اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ گیٹ پھلانگ کر اندر داخل ہوں۔ میں ابھی کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ گیٹ کی چھوٹی کھڑی خود بخود کھل گئی۔ میں جلدی سے اندر داخل ہوا۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا کاریڈور کراس کرنا میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا مجھے پر لگ جائیں اور میں اڑکر اندر پہنچ جاؤں، جیسے ہی میں بیڈ روم کے قریب پہنچا میرے قدم جیسے زمین نے جکڑ لئے۔ مجھے اپنی سماعت پریقین نہ آیا۔ بیڈ روم سے میری آواز آرہی تھی۔ جی ہاں میری آواز اندر سے آرہی تھی۔ ساتھ ہی صائمہ کی ہنسی کی مدہر جھنکار بھی۔ میں تیزی سے آگے بڑھا لیکن جلدی میں فون کی تار کو بھول گیا جو کاریڈور میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تارمیں نے کچھ دن قبل بڑھائی تھی کہ فون کو بیڈ روم تک لایا جا سکے۔ تار سے میرا پیر الجھا اور میں منہ کے بل جاگرا۔ ایک دھماکے سے میرا سر دیوار سے ٹکرایا اور ہر سو اندھیرا چھا گیا۔ پھر جگنو سا چمکا اور میرے کانوں مدہم مدہم آوازیں آنے لگیں۔ بمشکل میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا سفید اور آل پہنے ایک ڈاکٹر میرے اوپر جھکا ہوا تھا۔ سر بری طرح چکرا رہا تھا اور شدت کا درد تھا۔ آنکھیں کھلتے دیکھ کر ڈاکٹر نے کچھ کہا جسے میں پوری طرح نہ سمجھ سکا۔ آہستہ آہستہ سے مجھے سب کچھ یاد آتا گیا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر76 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’پین کلر انجکشن لگا دو‘‘ مجھے ایک مردانہ آواز سنائی دی۔ اس کے بعد بازو میں سوئی کی چبھن محسوس ہوئی اور میں ایک بار پھر ہوش کی دنیا سے دور چلا گیا۔ دوبارہ ہوش آنے کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو کمرے میں ہلکاہلکا اندھیرا تھا۔ حلق میں پیاس کے مارے کانٹے چبھ رہے تھے۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی بیڈ کے ساتھ کرسی پر صائمہ بے خبر سو رہی تھی۔
’’صائمہ‘‘ بمشکل میری آواز نکل سکی۔ بولنے سے میرے سر میں شدید درد اٹھا میں کراہ کر رہ گیا۔ صائمہ بدستور غافل تھا۔ سربھاری بھاری سا محسوس ہو رہا تھا میں ے ہاتھ لگایا۔ سارا سر پیٹوں سے جکڑا ہوا تھا۔ شاید دیوار سے ٹکرانے سے سر پھٹ گیا تھا میں نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی یہ کسی ہسپتال کا کمرہ تھا۔ سر بری طرح چکرانے لگا بمشکل ہمت کرکے دوبارہ صائمہ کو پکارا۔ اس بار وہ چونک کر اٹھ گئی لپک کر قریب آئی اورمیرے اوپر جھک گئی۔
’’فاروق!‘‘ اس کی رندھی ہوئی آواز میرے کان میں پڑی۔ ’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے آپ کو ہوش آگیا۔ پتا ہے آپ کے سر پر تیرہ ٹانکے لگے ہیں‘‘ اس نے مجھے بتایا۔
’’ڈاکٹرز کہہ رہے تھے اگر آپ کو ہوش آگیا تو ٹھیک ہے ورنہ آپ کے سر کا آپریشن کرنا پڑے گا‘‘ وہ مجھے بتا رہی تھی۔
’’مم۔۔۔مجھے پپ۔۔۔پانی پلا دو۔‘‘ بمشکل چند الفاظ ادا ہوئے۔ اس نے جلدی سے پاس پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور میرے ہونٹوں سے لگا دیا۔ میں نے بدقت چند گھونٹ حلق سے اتارے ۔اتنا کرنے سے میرے سر میں دھماکے ہونے لگے میں کراہ کر رہ گیا۔ صائمہ جلدی سے ڈاکٹر کو بلا لائی اس نے میرا معائنہ کیا اور تسلی دی کہ اب میری حالت خطرے سے باہر ہے۔
’’میں کہاں ہوں؟‘‘ خود مجھے اپنی آواز مشکل سے سنائی دی۔ صائمہ نے جھک کر اپنا کان میرے منہ سے لگا دیا۔ میں نے اپنا سوال دہرایا۔
’’آپ کاریڈور میں گر گئے تھے۔ جلدی میں آپ فون کا تار نہ دیکھ سکے جس سے آپ کا پیر الجھ گیا تھا۔ میں سو رہی تھی، دھماکے کی آواز سے میری آنکھ کھلی جب میں نے باہر آکر دیکھا تو آپ کاریڈور میں بے ہوش پڑے تھے۔ آپ کے سر سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ سمجھ نہ آرہا تھا کیا کروں۔ آخر کار ہمت کرکے آپ کے سر پر دوپٹا باندھا اور بمشکل آپ کو گھسیٹ کر گیراج تک لائی گاڑی بھی باہر کھڑی تھی اسے اندر لا کر آپ کو اس میں ڈالا اور ہسپتال لے آئی۔راستوں سے واقفیت تو تھی نہیں بس ایسے ہی باہر نکل آئی تھی۔ ایک جگہ یہ پرائیویٹ ہسپتال کا بورڈ نظر آیا تو فوراً آپ کو یہاں لے آئی۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے یہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اتنی قوت دی اور میں یہ سب کرگزری۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ ٹھیک ہو جائیں گے‘‘ اس نے میر اہاتھ تھپتھپا کر مجھے تسلی دی۔ صائمہ کا کہنا تھا کہ وہ سو رہی تھی جبکہ میں نے خود اس کی ہنسی کی آواز سنی تھی یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا میری سماعت نے مجھے دھوکہ دیا تھا؟ اگر اسے سچ سمجھ لیا جائے تو گیٹ کس نے کھولا تھا؟ کیونکہ اچھی طرح ہلانے پر گیٹ بند ملا تھا۔ یا خدا۔۔۔! یہ کیا ماجرا ہے؟ سوچ سوچ کر میرا سر مزید دکھنے لگا۔
’’فاروق‘‘ صائمہ کی مدہم سے آواز میرے کان میں پڑی۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔
’’آپ پریشان نہ ہوں اللہ کا شکر ہے خطرے والی کوئی بات نہیں میری ابھی ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے وہ کہہ رہا تھا احتیاط کریں باقی سب خیریت ہے‘‘ اس نے کہا۔ میں زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آیا۔ صائمہ کا پریشان چہرہ مجھ سے دیکھا نہ گیا۔ باربار میرے ذہن میں گزرا ہوا واقعہ آرہا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ سب اسی حرامزادے کی شرارت ہو۔ میں نے سوچا لیکن صائمہ کیوں جھوٹ بولتی؟ میرے ذہن نے فوراً اس خیال کو رد کر دیا اگر اس کے پاس کوئی موجود تھا تو وہ کیوں کہتی کہ میں سو رہی تھی؟ مجھ پر ایک بار پھر ہلکی ہلکی غنودگی طاری ہونے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد ساری پریشانیوں سے چھٹکارہ مل گیا اور میں گہری نیند سوگیا۔ دوبارہ جب میری آنکھ کھلی تو دن کا اجالا پھیلا ہوا تھا۔ سر کے درد میں کچھ کمی تھی۔ میں نے آہستہ سے سر اٹھا کر دیکھا۔ صائمہ جائے نماز پر بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھی۔
’’صائمہ۔۔۔!‘‘ میں نے آہستہ سے آواز دی۔ وہ لپک کر میرے پاس آگئی۔
’’کیسی طبیعت ہے‘‘ اس نے پیار سے میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’کافی بہتر محسوس کر رہاہوں۔‘‘
’’آپ کلی کر لیں میں آپ کے لیے ناشتہ لاتی ہوں‘‘ اس نے کہا اور پانی کی بوتل میری طرف بڑھائی۔ میں نے پاس پڑی باسکٹ میں کلیاں کیں۔ صائمہ چائے اور بسکٹ لے آئی اور چائے میں ڈبو ڈبو کر مجھے کھلانے لگی۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے میں نے کچھ بھی نہ کھایا تھا۔ پورا بسکٹوں کاڈبہ کھا گیا۔ کچھ توانائی محسوس ہوئی میں دوبارہ لیٹ گیا۔ گزرا ہوا واقعہ ایک بار پھر میرے ذہن میں تازہ ہونے لگا۔
’’عمران بھائی بتا رہے تھے کہ آپ کوئی فائل لینے گھر آئے تھے؟‘‘ صائمہ نے میرے پاس بیٹھ کر پوچھا۔
’’ہاں ایک ضروری فائل گھر رہ گئی تھی‘‘میں نے اس کی طرف بغور دیکھا۔
’’لیکن تم گیٹ کیوں نہیں کھول رہی تھیں۔ میں نے گاڑی کا ہارن بجایا بیل بجائی لیکن۔۔۔‘‘
’’میں سو گئی تھی۔۔۔رات نہ جانے کیوں ٹھیک سے نیند نہیں آئی ذرا لیٹی تو آنکھ لگ گئی۔ نہ میں سوتی نہ آپ کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا۔‘‘ وہ تاسف سے بولی۔
’’یوں نہیں کہتے ،گناہ ہوتا ہے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہو پوراہو کر ہی رہتا ہے‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔
’’سارے دکھ آپ ہی کی قسمت میں لکھے ہیں‘‘ وہ آب دیدہ ہوگئی۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’شکر کرو ہر بار بچ جاتا ہوں‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔ دروازہ کھلا اور ڈاکٹر بمعہ نرس اندر آگیا۔ مجھے جاگتا دیکھ کر خوش اخلاقی سے بولا۔
’’کیا حال ہیں فاورق صاحب!؟ شکر کریں اللہ تعالیٰ نے کرم کیا ہے ورنہ جس قدر شدید ضرب آپ کو آئی تھی اس میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ بینائی بھی متاثر ہو سکتی تھی‘‘ وہ میری نبض چیک کرتے ہوئے بولا۔
’’جی ہاں اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ڈاکٹر صاحب‘‘ صائمہ نے جواب دیا۔
’’اگر گھر جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں لیکن احتیاط کی ضرورت ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے نرس کو پٹی چینج کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے مجھ سے کہا۔
’’اگر آپ کی اجازت ہو تو میں چلا جاتا ہوں‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’اوکے۔۔۔ابھی آپ کی ڈسچارج سلب تیار ہو جاتی ہے۔ پھرآپ چلے جائیے گا۔ ایمبولینس کی ضرورت ہو تو بتائیں۔‘‘ اس نے آخری فقرہ صائمہ کی طرف دیکھ کرکہا۔
’’شکریہ ڈاکٹر صاحب! ہمارے پاس گاڑی ہے‘‘ صائمہ نے کہا۔ آدھے گھنٹے بعد ہم گھر جا رہے تھے۔ گاری صائمہ ڈرائیور کر رہی تھی۔ میں تکیہ سرکے نیچے رکھے پچھلی سیٹ پر دراز تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم گھر پہنچ گئے۔ بچے مجھے دیکھ کر خوش ہوگئے۔ اتنے دنوں سے نازش اور عمران ہی ہمارے گھر پر بچوں کو سنبھال رہے تھے۔ (جاری ہے )
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر78 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں