نام کتاب: حیات درویش
تصنیف: عزیز احمد خلیفہ مجاز ڈاکٹر فدا محمد صاحب مدظلہ
ناشر: خانقاہ اشرفیہ عزیزیہ لوند خوڑ ، مردان صوبہ کے پی کے
صفحات: 487
یہ کتاب ڈاکٹر فدا محمد مد ظلہ کی سوانح حیات ہے۔ مصنف نے کتاب کے آغاز میں دس صفحات پر مشتمل مقدمہ لکھا ہے جس میں کتاب لکھنے کی غرض و غایت بیان کی ہے۔
ڈاکٹر فدا محمد کا شمار دور حاضر کے اہم مبلغین ، مصلحین و مشائخ میں ہوتا ہے۔ آپ 1947ء میں تشکیل پاکستان سے دو ماہ پہلے ضلع مانسہرہ میں پیدا ہوئے۔
جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے برصغیر کے مسلمان ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے تھے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر اپنی جان، اپنے مال کی بے دریغ قربانیاں دے رہے تھے۔ ایسے عالم میں اللہ نے اس پاکستانی علاقے میں لوگوں کی روحانی تربیت کے لیے بعض رجال کو بھی پیدا کیا۔
ان میں ایک شخصیت ڈاکٹر فدا محمدکی ہے۔ آپ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کی تربیت شروع ہی سے دینی ماحول میں ہوئی۔ آپ صاحب مطالعہ بزرگ ہیں۔
آپ کا سلسلہ سلوک مختلف واسطوں سے حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے۔ سلسلہ چشتیہ میں آپ کے مرشدوں میں تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر مولانا انعام الحسنؒ تھے جو مولانا الیاس ؒ کے خلیفہ تھے۔
1971ء کی پاکستان بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان الگ ہوا۔ بنگلہ دیش کہلایا اس جنگ کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر فدا محمد نے مولانا انعام الحسن کے مشورہ سے مولانا محمد اشرف خان سلیمانی ؒ سے نسبت قائم کی۔
مولانا محمد اشرفؒ سید سلیمان ندویؒ اور مولانا فقیر محمد(خلفاء مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ) کے صحبت یافتہ اور خلیفہ تھے۔ کتاب میں آپ کے مشائخ سلوک و تصوف کے آثار و احوال کا تذکرہ بھی ہے جو اس راہ کے قابل قدر اکابرین ہیں جن کا سرا تصوف کے سرخیل حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی ذات تک پہنچتا ہے جن کی ذات یقینی طور پر پاک و ہند میں سلوک و تصوف کی آبیاری و احیا کا ذریعہ بنی۔
1970ء سے لے 1977ء کا زمانہ پاکستان کی تاریخ کا انتہائی پرآشوب دور تھا۔ اسی دوران سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ رونما ہوا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا۔
اسی دورانیے میں پاکستان کے اندر کمیونزم، سوشلزم کے نظریات کو کھل کرپرزے نکالنے کا موقع ملا جن کا مقابلہ پاکستان کے اسلام دوست طبقہ نے ڈٹ کر کیا۔ اس دور کے اہم تاریخی واقعات کا بھی ’’حیات درویش‘‘ میں ذکر ہے اوربعض مستور گوشے وا ہوتے ہیں۔
چترال صوبہ خیبر پختون خوا کا رقبہ کے لحاظ سے بڑا ضلع ہے۔ اس ضلعے میں بعض ایسے قبائل آباد ہیں جن کے نظریات اسلامی نظریات سے متصادم ہیں۔ ’’حیات درویش‘‘ میں ان قبائل کے نظریات اور ان کی مساعی کا تذکرہ بھی ہے اور ان مشائخ کی کوششوں کا بھی ذکر ہے جو انہوں نے اسلامی تعلیمات کو وہاں پر عام کرنے کے لیے سرانجام دیں۔
اس ضمن میں ختم نبوت کے عقیدہ کی آبیاری کے لیے مسلمانوں کی مساعی کا تذکرہ بھی ہے اور اس بارے پاکستان میں 1953ء اور 1974ء میں اٹھنے والی تحریکوں کا تفصیل سے ذکر ہے جو بالآخر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر منتج ہوا۔
کتاب کے مطالعے سے بعض دقیق اسلامی شعائر کا پتہ بھی چلتا ہے جن سے مسلمان عمومی طور پر صرف نظر کرتے ہیں۔ اس طرح کتاب مذکور اصلاح باطن کا ذریعہ بھی بن گئی ہے اور مذکورہ کتاب تقویٰ کی تلقین امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بہترین مرقع ہے۔ ’’حیات درویش‘‘ کے آخری حصہ میں سلسلہ تصوف کے اکابرین کے احوال و آثار کا ذکر ہے۔
اس سلسلے کو خلیفہ راشد جناب حضرت علیؓ سے لے کر ڈاکٹر فدا محمد مدظلہ تک متصل کیا گیا ہے اور اڑتیس حضرات کے مختصر حالات زندگی جمع کر دئیے گئے ہیں جن سے سلسلہ چشت کے احوال کا پتہ چلتا ہے۔ ان اکابر کے تذکرے کے بعد رذائل اخلاق کو بھی واضح کیا گیا ہے جو انسان کی روحانی ترقی میں سد راہ بن کر حائل ہو جاتے ہیں۔
’’حیات درویش‘‘ کے مطالعے سے ان رذائل کو چھوڑ دینے کی تحریص و ترغیب بھی ملتی ہے جو مقصود تصوف ہے جن سے انسان اصلاح باطن کا اعلیٰ ملکہ حاصل کر لیتا ہے۔ روحانی بالیدگی کے متلاشی حضرات کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔