پاکستان کا سب سے بڑا اور گھمبیر مسئلہ، جو اس ملک کے ذرائع پیداوار کو ہر سال نگل رہا ہے،بے لگام بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ یہ مسئلہ کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہا سوائے ایوب خان کی حکومت کے جس کے زمانے میں اس خطرے کی سنگینی کا نوٹس لیا گیا تھا۔ دراصل 1950ء میں دنیا کو ادراک ہوا کہ ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں آبادی کا بے قابو رجحان اِن ملکوں کی معیشت کو پنپنے نہیں دے گا،چنانچہ یو این او نے فیملی پلاننگ کے لئے بہت بڑا فنڈ قائم کیا،اس طرح خاندانی منصوبہ بندی کے لئے پاکستان کو بھی خطیر گرانٹس ملیں۔ ہمارے سرکاری افسروں کے لئے یہ ایک نئی نوعیت کے فرائض تھے۔ اب تک ہمارے حاکم افسر عوام پر حکم صادر کیا کرتے تھے یا فائلوں پر نوٹ لکھ کر اوپر کے افسر کو بھیج دیتے تھے۔خاندانی منصوبہ بندی کے محکمے کو چلانے کے لئے ایسی مارکیٹنگ کا ہنر درکار تھا جس سے ہمارے اَن پڑھ عوام قائل ہوتے۔ غریب عوام میں پرچار کرنے کے لئے کہ ”بچے کم ہی اچھے“ سرکاری عملے کو ایک سیل مین کی طرح کام کرنے کی ضرورت تھی۔ فیملی پلاننگ کی بیوروکریسی کا بالکل الگ مزاج اور مخصوص تربیت حاصل ہونی چاہئے تھی۔ 1953ء میں فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن APWA کی تحریک قائم ہوئی۔ اس کی بہت متحرک سربراہ ایک خاتون ڈاکٹر عطیہ عنائت اللہ تھیں۔ اُنہوں نے اس شعبے کو بڑی گرم جوشی سے چلایا۔ وہ2013ء تک فیملی پلاننگ کی وفاقی وزیر بھی رہیں۔ مغربی پاکستان کی 1947ء میں کل آبادی 3 کروڑ اور 50 لاکھ تھی،جو اَب 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جب پاکستان قائم ہوا تو ہماری آبادی کی شرح Growth 4.5 فی ہزار تھی یا مَیں یوں کہوں گا کہ مغربی پاکستان کی ہر عورت اوسطاً 7 بچوں کی ماں تھی۔ یہ ایک خطرناک رجحان تھا۔
1950ء تک حکومت کو اور نہ ہی عوام کو یہ آگاہی تھی کہ پاکستان میں آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، اُسی رفتار سے یہ ہمارے ذرائع پیداوار کو ھڑپ کرتی جائے گی۔ اب بھی آبادی (2021ء) 2.6 افراد فی ہزار کی تعداد سے بڑھ رہی ہے جو ہماری ترقی کے لئے آج بھی خطرہ ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی کی گروتھ ایک بچہ فی ہزار، ہندوستان کی آبادی بھی ایک بچہ فی ہزار پر آگئی ہے جو 1971ء میں 3 بچے فی ہزار تھی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو اگر ابھی بھی War footing پر حل نہ کیا گیا تو آبادی کا عفریت پاکستان کو مستقل تباہی اور بربادی کے بھنور سے باہر کبھی بھی نہیں نکلنے دے گا، خواہ کتنے ہی قابل اور دیانتدار حکمران آجائیں۔ ہمارا ہر مسئلہ، خواہ معاشی ہو، سماجی ہو، تعلیم اور صحت کا ہو، اقتصادیات کا ہو، جرائم کی شرح کثرت کا ہو، زرعی زمین پر بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز، DHAs اور بحریہ ٹاؤن کی بھر مار کا ہو، مہنگائی کا ہو، رشتوں میں محبت کے فقدان کا ہو، نوجوانوں میں نشے اور لا قانونیت کا عام ہو جانا، غرض یہ سب کچھ اس لئے ہو گا، کیونکہ ہمارے ذرائع پیداوار بڑھتی ہوئی آبادی سے کم تر رہیں گے۔ ہمارا زرِ مبادلہ خوراک کی امپورٹ پر خرچ ہو گا۔ہمارے پاس صنعتی ترقی کے لئے کچھ نہیں بچے گا۔ 70 سال میں اب تک خاندانی منصوبہ بندی پر جو رقم خرچ کی گئی ہے، اس کا اُلٹا اثر یہ ہوا ہے کہ ہماری شہری آبادی کے پڑھے لکھے طبقے نے بچوں کی تعداد کو تو کنٹرول کر لیا، لیکن ہماری دیہی اورغریب آبادی نے خاندانی منصوبہ بندی کے غیر دلچسپ پروپیگنڈے سے بالکل اثر نہیں لیا۔ پھر یہ ہوا کہ پچھلے 70 سال میں ہماری آبادی کا سماجی ڈھانچہ کچھ اس طرح بن گیا کہ:-
1۔ہمارے پڑھے لکھے شہری اور دیہی خوشحال طبقوں کے بچے دو،تین یا بہت ہوا تو چار سے زیادہ نہیں بڑھے۔ اِن شہری اور خوشحال بچوں کو تعلیم دینے کے لئے کمرشل انگلش میڈیم سکول میدان میں آ گئے۔ اِن بچوں میں سے اکثر خوش نصیب باہر پڑھنے چلے گئے،پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ پھر یہی بچے اپنے دوسرے بہن بھائیوں اور ماں باپ کی Immigration کا باعث بنے جس کی وجہ سے Dual Nationality والا طبقہ پیدا ہوا۔ اس خوشحال طبقے کی ہی اولاد ایڈمنسٹریشن اور اعلیٰ شعبوں میں آئی۔ اس میں Exceptions بھی ہیں کہ غریب کا بچہ اپنی محنت اور غیر معمولی قابلیت سے اوپر آ گیا، لیکن یہ معمول نہیں ہے۔
2۔ہماری حکومتوں نے شرح پیدائش کو سائنسی طریقوں سے کنٹرول نہیں کیا، اسی لئے آج بھی سکول کی عمر کے ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔غریبوں کے بچے جو سکول جاتے بھی ہیں،وہ میٹرک تک پہنچنے تک صرف 10فیصد رہ جاتے ہیں۔ باقی ماندہ Drop out ہو جاتے ہیں۔ میَں نے یہ سب اعدادو شمار سرکاری ریکارڈ سے لئے ہیں۔
3۔اس غیر متوازن معاشرے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری بہت زیادہ آبادی نفسیات کی زبان میں اوسط یا اس سے بھی کم”IQ“ کی حامل ہے، اسی لئے یہ طبقہ جذباتیت، غیر ذمہ دارانہ رویے، مذہبی عصبیت اور شخصیت پرستی کا شکار ہو جاتاہے۔ اس طبقے کی خوشامد پرستی، لالچی پن اور جذباتیت نے ہی ہماری سیاست کو ابھی تک پراگندہ رکھا ہوا ہے۔ ہم میں مذہبی شدت پسندی ہے، ہم جمہوریت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ”مجھے کیا ملے گا“؟چونکہ عوام کو پاکستانی جمہوریت سے کچھ نہیں ملتا جو کچھ بھی ملتاہے وہ مخصوص لوگوں کو ملتا ہے، اس لئے وہ فوج کے Take over کے خلاف اور سیاسی جماعتوں کے حق میں سڑکوں پر بھی نہیں آتے۔ خواہ آصف علی زرداری کو ہٹا دیا جائے یا نواز شریف کو نکال دیا جائے۔
4۔میَں پچھلے 40 سال سے انگریزی اور اردو اخبارات میں لکھ رہا ہوں کہ فیملی پلاننگ کی تشہیر غلط طریقے سے ہو رہی ہے۔ فیملی پلاننگ کا پیغام اصل طبقے کی طرف نہیں جا رہا، بلکہ شہری اور خوشحال طبقے کی طرف جا رہا ہے۔ میرے اپنے ڈرائیور کے 11 بچے تھے، جن میں سے اُس وقت تک 9 زندہ تھے۔ دراصل اسی چیز سے مجھے اس موضوع پر لکھنے کی تحریک اگر آپ کو یاد ہو، پاکستان ٹیلی ویژن نے فیملی پلاننگ پر بہت اچھا ایک ڈرامہ سیریل بنایا تھا: ”جنجال پورہ“……اسی سے Inspire ہو کر میں نے اس وقت کی پنجاب حکومت کو ایک مکمل منصوبہ بنا کر دیا کہ Visual Publicity دلچسپ ڈراموں اور کثرتِ اولاد پر بنے ہوئے کارٹونوں کے ذریعے موبائل Vans پر گاؤں گاؤں جا کر کی جائے۔ اس موبائل پبلسٹی کے لئے سرمایہ پرائیویٹ سیکٹر کے اشتہارات سے حاصل کیا جا سکتا تھا۔ اس وقت کے کوکا کولا کارپوریشن کے انٹرنیشنل ڈائریکٹر میری تجویز پر دس عدد پبلسٹی وین دینے کے لئے تیار ہو گئے تھے، کیونکہ اس قسم کی موبائیل پبلسٹی سے کوکالالاکی دُور دُور تک تشہیر ہوتی۔ یہ شائد 1992/93ء کا زمانہ تھا۔ مَیں نے اس قسم کے متحرک تجربے کا مشاہدہ اور اس کی کامیابی Botswana، Zimbabwe اور South Africa میں دیکھی تھی اپنے متعدد دوروں کے دوران۔
منو بھائی جو میرے دوست تھے، اِن کو میں نے مزید لکھنے کے لئے تیار کیا، کیونکہ ”جنجال پورہ“کے ڈرامہ نویس وہی تھے، لیکن حکو مت کی طرف سے کچھ نہ ہوا۔ مَیں تو ان دنوں فارن بینک کی ملازمت کے دوران ملک سے باہر ہوتا تھا۔ مزید Follow up کے لئے وقت ہی نہیں ملا۔ میرا جذبہ بھی ٹھنڈا ہو گیا۔ مَیں نے تو ایک ذمہ دار، شہری کی حیثیت سے ایک تجویز دی تھی، جوں جوں ہمارے ملک میں جاہلانہ مذہبیت بڑھتی جائے گی، خاندانی منصوبہ بندی مشکل ترین ہوتی جائے گی اور جمہوریت پر فوج کا غلبہ بھی یونہی برقرار رہے گا، خواہ امریکہ اور اس کے منظورِ نظر حواری فوج کو Discredit کرنے کے لئے کتنا ہی زور لگا لیں۔ دنیا میں یہ مانا ہوا تجربہ ہے کہ جس ملک کی آبادی ذرائع سے زیادہ ہو جائے گی، وہاں غربت اور بے کاری لازمی ہو گی۔ فوج کو بھرتی بھی اسی طبقے سے زیادہ ملے گی، اس طرح فوج پاکستان میں مقبول ہی رہے گی۔ پاکستان کا تیزی سے بڑھتا ہواآبادی کا سیلاب ہماری ملکی پیداوار کو Optimum سطح پر آنے ہی نہیں دے گا۔ ہماری آبادی میں نوجوانوں اور کم عمر بچوں کی تعداد بڑھتی رہے گی، جس کی وجہ سے ہماری قومی پیداوار بھی منفی رہے گی۔ فیملی پلاننگ کا نام خواہ منصوبہ بندی رکھ دو یا آج کل کا رائج نام ”راہ نما“ رکھ دو، جب تک افزائشِ آبادی کی خوفناکیوں سے عوام کو دلچسپ اور موثر طریقے سے آگاہ نہیں کیا جائے گا،ہماری مسجدوں کے اِماموں کا تعاؤن حاصل نہیں کیا جائے گا، ہماری آبادی آج سے صرف 28 سال بعد 45 کروڑ ہو جائے گی۔ ہم آبادی کے اِتنے بڑے اژدھے کے لئے محدود زمین اور محدود ذرائع سے کتنی خوراک حاصل کر لیں گے؟ ذرا سوچئے۔