آج دو جنوری ہے اور میری یادوں میں دبی ایک چنگاری آج صبح سویرے بھڑک اُٹھی۔یہ دو جنوری 1977ء کا ذکر ہے، یعنی آج سے تقریباً47 سال پہلے۔ میں صدر بازار ملتان کینٹ میں اپنے گھر کے باہر موجود تھا۔اُس زمانے میں میرے گھر کے سامنے گٹ فٹ ٹیلرز نام کی دکان ہوتی تھی،یہ دکان درحقیقت پیپلزپارٹی صدر بازار کا دفتر تھا، میں اکثر وہاں جا بیٹھتا، جہاں دوسرے کارکن بھی آ جاتے۔ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اور ہم لوگموں کے چھوٹے موٹے کام کرانے کے لئے بھی گٹ فٹ ٹیلر کے مالک جو یہاں پارٹی کے صدر بھی تھے،ساتھ موجود رہتے۔ یہاں سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر کھرہاؤس بھی تھا۔یہ عمارت اب بھی موجود ہے۔ غلام مصطفی کھر جب پنجاب کے گورنر تھر تو اس عمارت میں ہر وقت رونق لگی رہتی تھی،اسی جگہ کئی بار ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھنے اور اُن سے ہاتھ ملانے کا موقع بھی ملا۔ دو جنوری1977ء کی صبح یہ اعلان ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو ملتان آ رہے ہیں اور گٹ فٹ ٹیلرز صدر بازار کے دفتر میں کارکنوں سے ملاقات کریں گے۔میں تو چونکہ رہتا ہی سامنے تھا،اس لئے تیار ہو کر پہنچ گیا۔میری ڈیوٹی لگائی گئی کہ میں کارکنوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بھٹوکو خوش آمدید کہوں گا۔وہ بہت اچھا زمانہ تھا۔وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے آنے پر ہٹو بچو کی صورتحال پیدا نہیں ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اسی صدر بازار میں ذوالفقار علی بھٹو کھر ہاؤس سے نکل کر عوام کے درمیان پہنچ جاتے تھے۔ کوئی ساڑھے تین بجے کا وقت ہو گا،جب ذوالفقار علی بھٹو وہاں پہنچ گئے۔اُن کے ساتھ غلام مصطفے کھر، مولانا کوثر نیازی، معراج خالد اور دیگر رہنماء بھی تھے۔بھٹو حسبِ عادت کارکنوں میں گھل مل گئے،انہیں دفتر لے جایا گیا۔ زیادہ کرسیوں کی گنجائش نہیں تھی، کارکن باہر سڑک تک کھڑے تھے،نعرے بھی لگ رہے تھے، کچھ دیر بعد سٹیج سیکرٹری نے مجھے خطاب کی دعوت دی، بہت بڑا موقع تھا۔ میں پہلی باراس لیڈر کے سامنے بولنے لگا تھا،جس کی شخصیت ہمارے لئے بہت سحر انگیز تھی۔ خیر میں نے ہمت کر کے بات کی اور کہا نوجوان آپ کے ساتھ ہیں،بلکہ آپ کا ہر اول دستہ ہیں،کیونکہ ہم سمجھتے ہیں آپ ہی ہمیں ایک محفوظ اور خوشحال پاکستان دیں گے۔مجھے یاد ہے میری بات پر بھٹو کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔ دیگر چند مقررین کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو گو خطاب کے لئے آئے تو بہت دیر تک زور دار تالیاں بجتی رہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے بہت اچھا خطاب کیا تاہم مجھے اُن کی یہ بات آج تک یاد ہے کہ اگر مجھے اگلے پانچ سال بھی مل گئے تو میں پاکستان کو ایشیاء کا سب سے مضبوط اور خوشحال ملک بناؤں گا۔اس پر ہم نے فخرِ ایشیاء کے نعرے لگائے تھے۔ اس واقعہ کے بعد اسی 1977ء میں کیا کچھ ہوا یہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔بھٹو کا مزید پانچ سال تک حکمرانی کا خواب شرمندہئ تعبیر نہ ہ سکا۔انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اپوزیشن نے جو تحریک چلائی وہ چلتے چلتے مارشل لاء پر منتج ہوئی،اس کے اگلے گیارہ سال پاکستان ضیاء الحق کی اکثریت کا شکار رہا اور آج جن بے شمار مسائل میں ہم گھرے ہوئے ہیں،یہ اُسی عرصے کی دین ہیں۔
بھٹو کو بھی پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے مزید پانچ سال چاہئے تھے اور بعد میں آنے والے حکمران بھی یہی کہتے رہے انہیں دوبارہ منتخب کیا گیا تو پاکستان ایشین ٹائیگر بن جائے گا،حتیٰ کہ تین تین باریاں لینے والوں نے بھی اگلی باری کی شرائط رکھ دی کہ اس بار تو پاکستان کو بلندیوں پر ضرور لے جائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بہت سازگار ماحول ملا تھا۔وہ مقبول بھی بہت تھے جو کرناچاہتے کر سکتے تھے، مگر وہ نہ کر سکے۔اُن کی حکمرانی اُس ویژن سے محروم رہی جو بڑی کامیابیوں اور تبدیلیوں کے لئے ضروری ہوتا ہے۔انہوں نے سطحی اقدامات کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش کی، سب سے بڑی غلطی نجی صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کر کے کی۔بنکوں اور مالیاتی اداروں پر حکومتی کنٹرول نے سارا ڈھانچہ بکھیر کر رکھ دیا۔زرعی اصلاحات کیں تو اُن میں ایسے خلاء رکھ دیئے جو اُلٹا گلے پڑ گئے۔اپنی اور دوسرے وڈیروں کی زمینیں بچا لیں۔جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تھاتو وہ ایک غیر روایتی حکمران تھے، مگر اقتدار ملنے کے بعد وہ روایتی سیاست دان بن گئے۔اُن کے اردگرد اکٹھے ہونے والے بیر بلوں نے انہیں ایک ایسے دائرے میں مقید کر دیا،جس میں اقتدار کی چکا چوند تو تھی، لیکن وہ روزن نہیں تھا جو روشنی کی طرف کھلتا ہے۔ آمروں کی تو بات ہی الگ ہے،یہ ہمارے جمہوری حکمران جن میں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، عمران خان شامل ہیں،اسی مخمصے کا شکار ہوئے کہ اگلی باری پر بڑے فیصلے اور بڑے اقدامات کریں گے۔یہ تو پاکستانی سیاست کی دین ہے کہ ہر بار ناکامی کے باوجود بے نظیر اور نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آتے رہے۔ اُنہیں وقت سے پہلے اقتدار سے نکالا گیا، تاہم وہ کسی ایک کام کی وجہ سے نہیں نکالے گئے،جو انہوں نے عوام کے حالات بدلنے یا انہیں آئینی حقوق دینے کے لئے کیا ہو۔وہ اپنے خاص ایجنڈے اور مفادات کے تحفظ کی وجہ سے اقتدار کو برقرار نہ رکھ سکے اور دلچسپ بات یہ ہے اُن کی رخصتی پر عوام نے شکرانے کے نوافل ادا کئے،تالیاں بھی بجائیں۔ عمران خان بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے،انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ساڑھے تین سال بعد رخصت ہونا پڑا۔انہیں بھی عوام نے ایک بڑا مینڈیٹ دیا تھا اور توقعات باندھی تھیں کہ وہ غیر روایتی اقدامات کے ذریعے اُس تبدیلی کو یقینی بنائیں گے جس کا وہ انتخابی مہم میں دعویٰ کرتے تھے،مگر ایسا نہ ہو سکا۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ کہیں اور ہے۔بھٹو نے کہہ تو دیا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، مگر شاید جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا تھا، ایسا نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے،مگر سوال یہ ہے کس حکمران نے اپنے دورِ اقتدار میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھتا ہے۔ہوتا تو یہ رہا ہے کہ بڑے بڑے دعوے کر کے اقتدار میں آنے والے بھی سب سے پہلاکام یہی کرتے رہے کہ عوام کو بھول جائیں،انہیں نظرانداز کر دیں۔اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ کسی سول حکمران کے اپنی کابینہ میں عام آدمی کی نمائندگی کرنے والوں کوجگہ نہیں دی۔چُن چُن کر وڈیرے، جاگیردار، سرمایہ دار اور طاقتور حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل کئے۔ایسے افراد کی موجودگی میں اگر کوئی سمجھتا ہے وہ غیر روایتی حکمرانی کر سکتا ہے تو یہ اُس کی بڑی خوش فہمی ہو گی۔مشکل وقت میں یہ سب لوگ آوارہ پرندوں کی طرح اُڑ جاتے ہیں۔ پکڑا صرف وزیراعظم جاتا ہے،وہ بھٹو ہو، نواز شریف ہو، بے نظیر بھٹو یا عمران خان۔جتنے بھی وزرائے اعظم اقتدار سے جبراً نکالے گئے،ایسا نہیں کہ اُنہیں پہلے سے یہ علم نہیں تھا اُنہیں نکالنے کے جتن اور سازشیں کی جا رہی ہیں،انہیں سب معلوم تھا مگر وہ آخر وقت تک اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے۔اُن میں اگر جرأت ہوتی، اقتدار اُن کی کمزوری نہ ہوتا تو وہ ازخود استعفا دے کر باہر آتے اور عوام سے رجوع کرتے۔کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ ایک وزیراعظم نے بھی سازش بھانپ کر استعفا نہیں دیا اور نکالے جانے پر گیا اور پھر یہ بھی پوچھتا رہا،مجھے کیوں نکالا؟اس کا جواب گریبان میں جھانکنے سے ہی مل سکتا ہے،کوئی دوسرا تو نہیں دے سکتا۔
٭٭٭٭٭