رسول اللہﷺ پر وحی ضرور آتی تھی لیکن وہ اپنی رائے کو دوسروں کی رائے سے نہ کم تر سمجھتے تھے نہ برتر لیکن ہم جو جانتے تھے وہ جانتے تھے۔ ہمیں ہمیشہ اُن کی فوقیت کا پورا پورا ادراک رہتا تھا۔ اُن کی زباں سے جو لفظ نکلتا، اس قدر پاکیزہ، اس قدر معقول ہوتا تھا کہ وہ ہمارے لئے حکم اور قانون کا درجہ رکھتا تھا۔
بعض دفعہ جب وہ محسوس فرماتے کہ اُن کے احترام میں غلو سے کام لیا جارہا ہے تو رنجیدہ ہو جاتے اور خاصی خاصی دیر تک گہری سوچ میں مستغرق رہتے۔ اُن کو اس کیفیت میں دیکھ کر ہم پر اُن کے جلال کی ہیبت طاری ہو جایا کرتی تھی جسے ہم مختلف سوالوں اور ہلکی پھلکی باتوں میں چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ ایسے موقعوں پر وہ بہت پریشان ہو جایا کرتے اور فرمایا کرتے تھے:
’’میں محض انسان ہوں، محض انسان ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ اللہ نے میری تقدیر میں کیا لکھا ہے‘‘۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر80 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ ہم میں ہر ایک سے بلند مرتبے پر فائز تھے لیکن ان کے گھر میں دنیوی مال و متاع عام لوگوں سے بھی کم تھا۔ انہیں اپنے اوپر نہ سختی کرنے کا شوق تھا نہ فاقہ کشی کا۔ اگر کسی رات بھوکے سو رہے تو محض اس لئے کہ انہوں نے اپنا کھانا کسی اور کو دے دیا جو اُن کے خیال میں اُن سے زیادہ بھوکا تھا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی انسان کے عام فہم دائرے سے باہر بات نہیں کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبیؐ تھے اور رہتی دنیا تک کل عالم انسانیت کی ہدایت اور رہبری پر مامور تھے۔ اُن کی گفتگو میں، اُن کے عمل میں، اُن کے احکامات اور تعلیمات میں ابہام ممکن نہیں تھا کیونکہ اُن کے بعد منشائے الٰہی کی مزید توضیح کے لئے کوئی اور پیغام نہیں آنا تھا۔
ایک روز سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے میں آرام فرما رہے تھے۔ میں حجرۂ مبارک کے باہر اپنے کرتے کے دامن کو پیوند لگا رہا تھا کہ ایک انصاری خاتون زینبؓ آئیں اور مجھ سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کر دو کہ میں اپنا صدقہ اپنے دیور کے یتیم بچوں کو دے سکتی ہوں یا نہیں۔ میں اندر جانے کے لئے اُٹھنے ہی لگا تھا کہ ایک اور خاتون تشریف لے آئیں۔ اتفاق سے اُن کا نام بھی زینبؓ ہی تھا، عبداللہ ابنِ مسعودؓ کی بیوی۔ مزید اتفاق یہ کہ وہ بھی وہی مسئلہ دریافت کرنا چاہتی تھیں۔ وہ بھی اپنا صدقہ اپنے کسی غریب عزیز کو دینا چاہتی تھیں۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور خواتین کا مسئلہ پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کون عورتیں ہیں۔ میں نے عرض کی عبداللہ ابن مسعودؓ کی بیوی زینبؓ اور دوسری زینبؓ الانصاریہ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک یہ صدقہ دینا درست ہے۔ اُن خواتین کو بتا دو کہ انہیں دُہرا اجر ملے گا۔ ایک صدقے کا اور دوسرا صلہء رحمی کا۔
روزمرہ زندگی میں آپ نے اپنے لئے مساوات پسند کی۔ کسی اعزازی سلوک کی نہ تمنا کی، نہ اجازت دی۔ نہ مجالس میں نمایاں مقام پر نشست پسند کی۔ نہ یہ چاہا کہ لوگ اُن کے لئے تعظیماً کھڑے ہوں یا اُن کے لئے آقاؤں اور سرداروں جیسے القابِ احترام استعمال کریں۔ کوئی غیر اگر ہماری مجلس میں آ جاتا تو اُسے پوچھنا پڑتاکہ آپ میں محمدؐ کون ہے۔ ضمام بن ثعلبہؓ جب اُن سے ملنے کے لئے آئے تھے تو اُن کو یہی صورت درپیش تھی۔
کوئی مجھے پوچھے تو میں یہی کہوں گا کہ وحی کے علاوہ میں نے اُن میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جسے حدودِ بشریت سے ماورا قرار دیا جا سکے یا جسے معجزہ کہہ سکیں لیکن اتنی ساری بشری خوبیوں کا جن میں سے ہر ایک خوبی بشری امکانات کی آخری حد تھی، ایک ذات میں یکجا ہو جانا بجائے خود ایک معجزہ تھا۔ اُن کی یہ کاملیت سمجھ میں آنے کے باوجود ایک ایسا کرشمہ تھی کہ انسان دیکھے اور دیکھتا ہی رہے۔ سوچے تو سوچتا ہی جائے مگر اُس کی رفعتوں کو نہ پا سکے۔ وہ معجزہ تو نہیں تھے لیکن ایک بیش بہا نعمت ضرور تھے کہ اُن کو دیکھتے ہی بے ساختہ منہ سے نکلتا۔ فبای الاء ربکما تکذِبان۔
زندگی اور یادیں
زندگی اور اُس کی یادیں۔ ایک ضعیف آدمی کا سب کچھ یہی ہوتا ہے۔ میں اپنی ذات میں تو نہ پہلے کبھی کچھ تھا، نہ آج ہوں۔ میرا کوئی ذاتی اعزاز نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے صرف میرے دوستوں کے حوالے سے یاد کریں۔ کوئی میرے بارے میں پوچھے کہ بلال کون تھا تو اُسے صرف یہ بتا دیا جائے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی تھا۔
میں نے ایسے وقتوں میں زندگی گزاری ہے جو اس کائنات کا بہترین دور تھا کیونکہ اس دور میں اللہ کا آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں رونق افروز تھا۔ آئندہ کسی کو یہ سنہری دور نصیب نہیں ہو گا لیکن اُس دور کی عظمتوں کی شہادت ہر شخص کے پاس پہنچے گی۔
کوئی مجھے یہ اعزاز بھی نہ دے کہ میں بہت اچھا مؤذن تھا۔ ایک دفعہ تو میری غلطی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت سب کی نماز قضا ہو گئی۔ تبوک کا سفر تھا۔ ایک مقام پر رات زیادہ ہو گئی توصحابہؓ نے عرض کیا کہ یہاں قیام کا حکم ہو جائے تو مناسب ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہیں نیند ہمیں نمازِ فجر سے نہ غافل کر دے۔ مجھے اپنی شب بیداری پر بڑا اعتماد تھا۔ میں نے سب کو صبح وقت پر جگانے کا ذمہ لے لیا۔ پڑاؤ ڈال دیا گیا۔ مجھے راتوں کو جاگنے کی عادت تھی۔ اُس رات مزید احتیاط کے لئے میں کجاوے پر ہی ٹیک لگائے، آسمان پر پھیلے ستاروں کو تکتا رہا جو اُس رات معمول سے زیادہ روشن تھے۔ ستاروں کی گردش مجھے پل پل کی خبر دے رہی تھی کہ اب اذانِ سحر میں کتنا وقت رہ گیا ہے۔ میں اپنے فرض کی ادائیگی سے مطمئن تھا مگر اذان کے وقت سے کچھ دیر پہلے میری آنکھ لگ گئی اور طلوعِ آفتاب تک نہ کھلی۔ جب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے پوچھا:
’’بلال! تمہاری ذمے داری کیا ہوئی‘‘۔
میں نے عرض کی:
’’یا رسول اللہ! زندگی بھر کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ آج پتا نہیں کیسی غفلت طاری ہو گئی۔‘‘
مسکرا کر فرمایا:
’’بے شک اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے، روحوں پر قبضہ کر لیتا ہے۔ اب فوراً اذان دو اور سب کو نماز کے لئے جمع کرو۔‘‘
میری اذان کے تاثر کی بات بھی جانے دیجیے۔ ایک دفعہ سخت سردی کے موسم میں، میں نے فجر کی اذان دی تو ایک شخص بھی نماز کے لئے نہیں پہنچا۔ میں نے دوبارہ اذان دی، پھر بھی کوئی نہیں آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لا چکے تھے۔ فرمانے لگے:
’’بلال! آج نمازیوں کو کیا ہو گیا ہے‘‘
میں نے کہا:
’’یا رسول اللہ! شاید سردی کی شدت نے انہیں روک رکھا ہے۔‘‘
اس پر رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سردی کے اثرات کو اُن سے دور فرما دے۔ کچھ دیر کے بعد لوگ آ گئے تو جماعت ہوئی۔ نہ میری آواز کی بلندی کام آئی نہ اُس کی تاثیر ۔ کام آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا۔
یوں بھی میری اذان کا معیار ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا تھا۔ کبھی تیز ہوائیں میرے الفاظ مجھے واپس لوٹا دیتیں۔ کبھی صبح کی خنکی کی وجہ سے میرے گلے میں خراش ہو جاتی۔ کبھی کبوتر مجھے پریشان کرتے۔ صرف یہ یاد رکھئے گا اور اہالیانِ عرش بھی یہ بات نہ بھولیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فجر کی نمازکے وقت ارشاد فرمایا تھا:
’’میں جنت میں سب سے پہلے داخل کیا جاؤں گا اور میرے ناقے کی مہار تھامے بلال مجھ سے آگے آگے پیدل چل رہا ہو گا۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے میری طرف دیکھا اور فرمایا:
’’بلال! میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ اپنے آگے سُنی ہے۔ مجھے بتاؤ کہ تمہارا کون سا عمل ہے جس پر تمہیں ثواب کی سب سے زیادہ توقع ہے۔‘‘
میں خاکسار بھلا کیا جواب دیتا۔ مؤدبانہ عرض کیا:
’’یارسول اللہ، میرا ایسا عمل تو کوئی نہیں ہے،۔ البتہ دن رات میں، میں نے کوئی وضو ایسا نہیں کیا، اور کوئی اذان ایسی نہیں دی جس کے بعد میں نے شکرانے کے دو نفل نہ ادا کئے ہوں‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اور مجھے دعا دی۔
آج میں اپنے گرد نظر دوڑاتا ہوں، پران ساتھیوں میں سے بہت کم لوگ رہ گئے ہیں اور جو باقی ہیں انہیں بھی، مجھ سمیت، یہاں سے رخصت ہونا ہے۔ موت کی آرزو کرنا اچھی بات نہیں لیکن موت کے لئے تیار رہنا اچھی بات ہے۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں