حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر80
بعثت کے چوتھے سال میں جب تبلیغ دین کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مجھے اور ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر عکاظ کے میلے میں گئے۔ یہ عربوں کا قومی میلہ تھا جو ہر سال مکے میں لگتا تھا اور اس میں شرکت کرنے کے لئے عرب کے گوشے گوشے سے لوگ آتے تھے۔ ایک جگہ لوگوں کا اجتماع دیکھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوتِ حق دینے کی کوشش کی۔ یہ دیکھتے ہی مشرکین کے ایک جمِ غفیر نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور اُن کی باتوں کا اس قدر مذاق اڑایا کہ وہ مزید کچھ نہ کہہ سکے۔ ہم دونوں اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے تھے مگر بے بس تھے۔ قبیلہ بنو سلیم کا ایک جواں سال بدوی اس سارے طوفانِ بدتمیزی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر و تحمل سے اس درجہ متاثر ہوا کہ ہجوم کے چھٹ جانے کے بعد وہ اُن کے پاس آیا اور اُن کی دعوت کی تفصیل جاننے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس بدوی کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ سُنیے:
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر79 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بدوی۔ کیسا ایمان افضل ہے۔؟
حضورؐ۔ جس کے ساتھ پسندیدہ اخلاق پایا جائے۔
بدوی۔ اے اللہ کے رسول میں بھی آپ پر ایمان لاتا ہوں۔
حضورؐ۔ آج کل ہم لوگ مظالم کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ ان کا برداشت کرنا تمہاری طاقت سے باہر ہے۔ فی الحال اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ جب اسلام کا غلبہ ہو جائے تو میں جہاں ہوں وہاں آ جانا۔
یہ خوش نصیب بدوی عمرؓ و بن عبسہ تھے اور اُس عظیم ماں کے فرزند تھے جن کے بطن سے جلیل القدر صحابی ابوذر غفاریؓ پیدا ہوئے تھے۔ جو خود بھی کم و بیش اسی آن بان سے اسلام لائے تھے۔ اُس خوش بخت خاتون کا نام رملہ بنتِ وقیعہ تھا۔ عمروؓ فتحِ مکہ سے کچھ عرصہ قبل مدینے آئے اور فتح مکہ پر جانے والی سپاہ میں شریک ہوئے۔
علیؓ نے ایک مرتبہ آپ سے درخواست کی کہ وہ انہیں اپنے ذاتی مسلک کے بارے میں بتائیں تاکہ سب کی رہبری ہو۔ اس کے جواب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فکر و عمل کی اتنی جامع وضاحت فرمائی کہ اُس کا ایک ایک لفظ ہم سب کو ازبر ہو گیا۔ مجھے وہ ارشاد آج بھی یاد ہے:
’’عرفان میرا سرمایہ ہے، عقل میرے دین کی اساس ہے، محبت میری بنیاد ہے، شوق میری سواری ہے، ذکرِ الٰہی میرا سرمایہ ہے، اعتماد میرا خزانہ ہے، حُزن میرا رفیق ہے، علم میرا ہتھیار ہے، صبر میرا لباس ہے، اللہ کی رضا میری سعادت ہے، عجز میرا اعزاز ہے، زہد میرا پیشہ ہے، یقین میری طاقت ہے، صدق میری سفارش ہے، اطاعت میرا دفاع ہے، جہاد میرا کردار ہے اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔‘‘
کھلی کتاب
اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ایک بین الانسانی مشن کی داستان ہے اور اُن کا لایا ہوا صحیفہ، ابدی اور اصولوں کی کتاب ہے جسے عمل کی زبان میں مرتب کیا گیا ہے۔ ولادت سے لے کر وفات تک اُن کی کوئی بات، کوئی عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اُن کو لوگوں نے ہر حال میں دیکھا ہے۔ بچپن میں، جوانی میں، ادھیڑ عمر میں، ضعیفی میں، تنگدستی میں، خوش حالی میں، فتح میں، شکست میں، صحت میں، بیماری میں، اختیار میں، بے اختیاری میں، شوہر کی حیثیت سے، باپ کی حیثیت سے، گھر کے چھوٹے فرد کی حیثیت سے، تاجر کی حیثیت سے، قائدِ انقلاب کی حیثیت سے، منصف و عادل کی حیثیت سے، فرماں روائے حکومت کی حیثیت سے۔ جب سے یہ دنیا قائم ہوئی ہے آج تک کسی پیشوا، کسی شاہ، کسی شہنشاہ، کسی پیغمبر، کسی بھی انسان کی زندگی کے بارے میں اتنی تفصیل موجود نہیں ہے۔ اُن کی زندگی کے ایک ایک دن کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے تھے۔ ہر ادنیٰ، ارفع کے دائرۂ فہم میں، سب کی نظروں کے سامنے۔ اُن سے ہر وقت ملا جا سکتا تھا۔ مدینے کی گلیوں کوچوں میں لوگ اُن سے سلام دعا لیتے، مصافحے کرتے، معانقے کرتے۔ وہ خود سلام میں پہل کرتے، سب کی خیریت دریافت کرتے، لوگوں کے گھروں میں بیمار پُرسی کے لئے جاتے۔ گلیوں میں کھیلتے ہوئے بچوں سے باتیں کرتے، غریب غربا کے دکھ سنتے، سب سے برابر کی سطح پر ملتے۔ نہ کسی سے کوئی خصوصیت برتتے، نہ اپنے لئے کوئی خصوصیت چاہتے۔ کوئی پکارتا تو’لبیک‘ یعنی میں حاضر ہوں کہہ کر جواب دیتے۔ خطاب کرنے والے کی جانب سے اُس وقت تک رُخ نہ پھیرتے جب تک کہ وہ خود منہ نہ پھیرلے۔ کسی کو کوئی پیغام بھجواتے تو سلام ضرور کہلواتے۔ کسی کا سلام اُن تک پہنچایا جاتا تو بھیجنے والے اور لانے والے دونوں کو الگ الگ سلام کہتے۔ نماز میں بھی کوئی سلام کہتا تو اشارے سے جواب دے دیتے تھے۔
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہؓ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ کسی نہایت سنجیدہ موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک نیم پاگل خاتون، جس کے مرض سے سبھی واقف تھے، آئی اور اصرار کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تخلئے میں اُس کی بات سُنیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت خندہ پیشانی سے اُٹھے اور اس کے ساتھ باہر گلی میں چلے گئے اور کچھ دیر بعد اُس کی بات سن کر آ گئے۔ مجھے ابو رافعؓ نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی وہ دو دفعہ اپنی بے معنی باتیں سنانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ چکی ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی دلآزاری نہیں کرتے تھے۔
صبح اذان سے پہلے میں انہیں بیدار کرنے کے لئے اُن کے دروازے پر دستک دیتا تھا۔ وہ خود باہر تشریف لاتے، اکثر آنکھیں ملتے ہوئے۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کبھی کبھی صبح کے دھندلکے میں وہ پاؤں سے ٹٹول ٹٹول کر اپنی چپل تلاش کرتے تھے۔ بالکل عام آدمی کی طرح۔ اُن کی صبحوں کا یہ دستور نہ تھا کہ تمام اہلِ خانہ اور خدّام اُن کے اٹھنے سے پہلے اپنے کام کاج میں لگے ہوں اور وہ سب سے آخر میں بادشاہ کی طرح خواب گاہ سے باہر نکلیں۔ ایک دفعہ ابن مسعودؓ نے مجھے ایک واقعہ سنایا کہ ایک اجنبی اُن کے پاس حاضر ہوا اور اُس نے جیسے ہی گفتگو شروع کی تو اُس پر کپکپی طاری ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’گھبراؤ مت، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں،۔ میں تو ایک ایسی ماں کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینے تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ نر اور مادہ کھجوروں کے خوشے ملا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ تم کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا ہم اسی طرح کیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید تمہارے لئے بہتر ہو۔ چنانچہ لوگوں نے اُس سال مادہ کھجوروں کے پھولوں میں نر کھجور کے پھولوں کے ڈنٹھل رکھنے چھوڑ دئیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فصل بہت کم ہوئی۔ جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں تو ایک انسان ہوں۔ جب تمہیں کوئی دین کی بات بتاؤں تو مان لیا کرو۔ جب اپنی رائے سے کچھ کہوں، تو یاد رکھو میں محض ایک انسان ہوں۔‘‘
اُن کی قیادت محبت کی قیادت تھی۔ وہ شفقت اور پیار سے لوگوں کو تعلیم دیتے تھے۔ اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ سب کی سنتے تھے اور پھر مشورے کے انداز میں انہیں نیک و بد سمجھا دیتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں کیا کہ محض حکم دے کر فارغ ہو گئے ہوں۔ اُن کے مزاج میں شرمیلا پن تھا۔ اس لئے گفتگو میں پہل بہت کم کرتے تھے۔ اگر ضروری بھی ہوا تو نہایت مہذب اور شائستہ انداز میں، ہزار حسن و لطافت اور تکلفات کے ساتھ۔ محفل میں کبھی کوئی بات چھڑ جائے تو اُسے اس انہماک سے سنتے تھے جیسے کوئی نوجوان بڑوں کی باتیں سن کرکچھ سیکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ کسی سے اختلاف کرتے تھے تو کبھی سخت لہجہ اختیار نہیں کرتے تھے۔ اُن کے جوابات مختصر ہوتے تھے لیکن وہ اس لئے کہ اُن کے سوچنے کی رفتار بہت تیز تھی اور شاید اس لئے بھی کہ ان کے ارشادات میں افراط و تفریط کی گنجائش نہ پیدا ہونے پائے۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر81 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں