حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر79
میں نے اُن سے زیادہ خوب رو کسی کو نہیں دیکھا۔ چہرے پر واقعی چاند کی سی چمک تھی۔ مسکراتے تو پیشانی پر روشنی بکھر جاتی اور آب دار دانتوں سے شعاعیں پھوٹتیں۔ معلوم ہوتا تھا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ پتلیاں سیاہ۔ پلکیں دراز، سر کے بال سیاہ، گنجان اور تھوڑے تھوڑے گھنگریالے۔ بدن مضبوط، گٹھا ہوا۔ قد درمیانہ مگر مائل بہ درازی۔ مجمع میں کھڑے ہوتے تو دوسروں سے قد ذرا نکلتا ہوا معلوم ہوتا۔ سینہ کشادہ، پیٹ ہموار، کلائیاں چوڑی۔ ہتھیلیاں فراخ۔ تلوے اتنے خمیدہ کہ کھڑے ہوں تو نیچے سے پانی بغیر چھوئے گزر جائے۔ بنو خزاعہ کی ام معبدؓ کے بقول دور سے بھی دلفریب، قریب سے بھی کمال حسین۔ نہایت شیریں کلام، واضح الفاظ کلام کمی و بیشی الفاظ سے معرا، گفتگو موتیوں کی لڑی جیسے پروئی ہو، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو۔ مخدوم و مطاع ایسے کہ اُن کے رفیق اُن کے منہ سے بات نکلتے ہی تعمیل کے لئے جھپٹ پڑتے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ عبداللہ بن رواحہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالِ جہاں آرا کی کیفیت اپنے ایک شعر میں یوں بیان کی:
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر78 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ میں کھلی ہوئی نشانیاں نہ بھی ہوتیں تب بھی آپ کا روئے انور خبرِ رسالت دینے اور آپ کو رسولِ برحق ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔‘‘
روزمرہ زندگی کے اصول یہ تھے کہ مکان رہنے کے لئے ہے، لباس ستر پوشی کے لئے اور غذا زندہ رہنے کے لئے۔ کچھ بشری رغبتیں بھی تھیں لیکن شانِ رسالت نے کسی کو گلے کا ہار نہیں بنایا۔ موسم، تمدنی مروجات اور وضو نماز کی ضروریات کے پیشِ نظر جو میسر آ گیا، پہن لیا۔ لباس کو اظہارِ امارت کا ذریعہ بنایا نہ اعلان رہبانیت کا۔ اسی طرح غذا سے بھی نہ بلاوجہ اجتناب برتانہ اُسے لذتِ کام و دہن کا وسیلہ بنایا۔ یہی حال سفر کا تھا۔ موقع کی مناسبت سے جو سواری مل گئی استعمال کر لی۔ چنانچہ خچر، گھوڑے، گدھے، اونٹ سبھی زیر استعمال رہے۔ رہنے کے حجرے بھی ضرورت کے مطابق۔ اُن میں کسی اصراف کاشائبہ بھی نہیں تھا۔ پتھر گارے سے بنے ہوئے، دس بارہ فٹ لمبے اور آٹھ دس فٹ چوڑے حجرے جن کی چھتیں اتنی نیچی تھیں کہ کھڑے ہوں تو چھت کو ہاتھ لگ جائے۔ ایک مرتبہ عائشہؓ نے پتھروں کے کھردرے پن کو چھپانے کے لئے اپنے حجرے کی دیواروں پر کپڑا تان دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عائشہ کپڑا اس لئے نہیں ہوتا کہ پتھروں کو پہنایا جائے۔‘‘
عام لباس، سفید کرتا، سفید تہ بند، سر پر سفید عمامہ یا ٹوپی، شانوں پر سفید چادر جسے کبھی لپیٹ لیتے، کبھی داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لیتے۔ ضرورت پڑنے پر تہہ کر کے تکیہ بھی بنا لیتے۔ کوئی خاص ملاقاتی آتا تو اُتار کر اُس کے بیٹھنے کے لئے بچھا دیتے جیسا کہ مجھے یاد ہے غزوہِ حنین کے بعد جب اُن کی آیا حلیمہ سعدیہؓ کی دختر حذافہ عرف شیما بنو سعد کی قیدی کی حیثیت سے اُن کے سامنے لائی گئی تو اُس کی عزت افزائی کے لئے انہوں نے اس کے بیٹھنے کے لئے اپنی چادر بچھا دی تھی۔ سفید کے علاوہ ہلکا سبز اور ہلکا پیازی رنگ بھی پسندیدہ تھا لیکن دھاریوں کی صورت میں۔ یمن کی بنی ہوئی ہلکے رنگوں والی دھاری دار چادریں اور ہلکے زرد اور مٹیالے رنگ کے لباس بھی پہنتے تھے۔ کپڑے نہ ڈھیلے رکھتے تھے نہ تنگ۔ نہ اُن کی لمبائی علامتِ کبر دکھائی دیتی تھی نہ کوتاہی رہبانیت کا پرچار۔ نئے کپڑے عموماً جمعے کے دن پہنتے تھے، فاضل جوڑے بنوا کر نہیں رکھتے تھے۔ کپڑے پھٹ جاتے تو پیوند لگا لیتے تھے، لیکن صفائی اور نظافت کا حد درجہ خیال رکھتے تھے۔ یہی میانہ روی، یہی تقویٰ، یہی سادگی اُن کا مزاج تھی۔ کبھی کبھی تحفوں میں آئے ہوئے بہت قیمتی کپڑے بھی پہنے لیکن پسند نہیں فرمائے۔ ایک مرتبہ ستائیس اونٹنیوں کے بدلے ایک نہایت قیمتی جوڑا خرید کر پہنا۔ اُس میں نماز بھی پڑھی، پھر کسی کو تحفے میں دے دیا۔ یہ اس لئے کہ اچھے کپڑے سے اجتناب کہیں دین میں حجت ہی نہ بن جائے اور لوگ خواہ مخواہ چیتھڑے نہ لٹکائے پھریں۔ وہ جہاں فضول خرچی سے روکنا چاہتے تھے وہاں یہ بھی خواہش تھی کہ لوگ جوگیوں، راہبوں اور سادھوؤں کی راہ پر نہ چل نکلیں۔ اصل مقصد یہ تھا کہ صاحبِ بصیرت، خوددار اور زیرک لوگوں کا ایک فعال، متحرک اور متوازن معاشرہ قائم ہو جائے۔
کرتا پہنتے تو پہلے دایاں ہاتھ آستین میں ڈالتے، جوتا پہنتے تو پہلے دائیں پاؤں میں۔ داہنی کروٹ سے لیٹتے اور سوتے وقت داہنا رخسار دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر سوتے۔ کسی کو کوئی چیز دیتے تو دائیں ہاتھ سے، لیتے تو دائیں ہاتھ سے۔ دائیں ہاتھ کی فوقیت اور اچھے کاموں کے لئے داہنے ہاتھ کا استعمال اُن کی سکھائی ہوئی اسلامی ثقافت کا ایک اہم عنصر ہے۔
بائیس برس تک آپ کی زندگی کے ہر پہلو کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اُن کی حیاتِ مبارکہ ایک ایسی معیاری اور مثالی زندگی تھی جس کی اقدار میں کوئی تضاد، کوئی خلفشار، کوئی پیچیدگی، کوئی الجھاؤ، کوئی ابہام، کوئی تصادم نہیں تھا۔ وہ ایک ایسے شخص کی زندگی تھی جو اپنی خداداد تمیز طبعی کی بنا پر مزاجِ فطرت سے کامل مطابقت رکھتا تھا۔ جس کے احساسات، فطری طور پر، تمام خارجی عوامل کی طرف من حیث العلت رجوع کرتے تھے۔ ہر بات پر اُن کا ردعمل اس حد تک حسب معمول ہوتا تھا کہ غیر معمولی معلوم ہوتا تھا۔ جب کوئی حل طلب مسئلہ اُن کی خدمت میں پیش ہوتا تو اُن کے اطراف بیٹھے ہوئے ہم سب اپنے اپنے طور پر اُس کا حل سوچنے لگتے کہ اگر یہ مسئلہ ہمیں در پیش ہو تو ہم اسے کیسے سلجھائیں گے۔ تین ہجری کی بات ہے۔ بنو عظفان کے ارادے کچھ نیک نہیں لگتے تھے۔ آئے دن خبریں ملتی رہتی تھیں کہ وہ ہمارے خلاف مہم جوئی کی تیاری کر رہے ہیں۔ خطرہ بڑھ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم، مدینے میں عثمانؓ کو قائم مقام بنا کر پانچ سو مسلمانوں کے ساتھ اُن کی سرکوبی کے لئے پہنچ گئے۔ بنو عظفان کو بھی کسی نے اطلاع دے دی اور وہ ہماری آمد سے پہلے ہی پہاڑوں کی طرف بھاگ نکلے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا حکم دیا۔ ربیع الاول کی درمیانی تاریخیں تھیں، موسم نہایت خوشگوار۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سب سے پیچھے چلنے کا فیصلہ فرمایا۔ جابر بن عبداللہؓ ویسے تو فوج کے ساتھ تھے مگر اُن کا اونٹ اتنا ضعیف اور لاغر تھا کہ وہ پیچھے رہ گئے اور ہماری ٹولی سے آن ملے۔ یہاں بھی وہ پیچھے رہے جاتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ایک مرتبہ یہ صورت دیکھی تو جابرؓ سے کہا:
’’ذرا نیچے اُترو اور اونٹ کو بٹھاؤ‘‘
جابرؓ نے تعمیل کی۔ خود بھی حضورؐ قصواء سے نیچے اُترے اور جابرؓ کے ہاتھ سے ہانکنے کی چھڑی لے کر ان کے اونٹ کو آہستہ آہستہ تین چار چھڑیاں ماریں اور پھر جابرؓ کو سواری کے لئے کہا۔ اب جو جابرؓ کا اونٹ چلا تو اتنا تیز کہ ہاتھ ہی نہیں آ رہا تھا۔آپﷺ کا یہ معجزہ ہی تو تھا ۔
اگلے پڑاؤ پر نمازِ مغرب کے بعد جابرؓ، حضورؐکے ساتھ بیٹھے تھے۔ بنو عظفان کے آئندہ اقدام پر خیال آرائیاں ہو رہی تھیں کہ اچانک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جابر میں تمہارا اونٹ خریدنا چاہتا ہوں‘‘
جابرؓ نے کہا:
’’آپ کی نذر ہے‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نہیں۔ میں اسے قیمتاً خریدنا چاہتا ہوں‘‘
میں حیران تھا کہ یہ جابرؓ کے اونٹ کا کہاں سے ذکر آ گیا اور اُس میں خریدنے کی کون سی بات تھی۔ نحیف و نزار، اپنی جان سے بیزار، کوئی کل سیدھی نہیں تھی۔ جابرؓ نے پھر اپنی پیشکش دہرائی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نہیں جابر نہیں۔ مجھ سے سودا کرو۔ بتاؤ اس کے لئے ایک درہم ٹھیک رہے گا‘‘
جابرؓ نے کہا یہ کم ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے:
’’اچھا چلو دو درہم‘‘
جابرؓ نے پھر کہا کم ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا مسکرا کر رقم بڑھاتے گئے اور بالآخر چالیس درہم پر بات ختم ہو گئی۔
مدینے پہنچ کر اگلے دن میں نمازِ فجر کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جابرؓ کا اونٹ بندھا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم، جابرؓ سے فرما رہے ہیں کہ جاؤ دو رکعت نفل پڑھ کر آؤ۔ جابرؓ چلے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا:
’’بلال جلاؤ چالیس درہم کے برابر سونا تول کر جابر کو دے دو اور ہاں پلڑا ذرا نیچا رکھنا‘‘ میں سونا تول کر لایا تو اتنے میں جابرؓ بھی آ گئے۔ وہ سونا میں نے اُن کی خدمت میں پیش کر دیا۔ انہوں نے سونا سنبھال لیا اور رخصت چاہی۔ دو چار ہی قدم گئے ہوں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس بلایا اور فرمایا:
’’ارے جابر اپنا اونٹ یہیں بھولے جا رہے ہو‘‘
یوں جابرؓ سونا بھی لے گئے اور اپنا اونٹ بھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکثر صحابہ سے اس قسم کا التفات فرماتے رہتے تھے۔
گفتگو میں الفاظ نہایت ٹھہر ٹھہر کے ادا کرتے۔ تاکید کے لئے کلمات تین بار دہراتے تھے۔ زبان نہایت معیاری ہوتی۔کبھی کوئی عامیانہ محاورہ یا بازاری لفظ استعمال نہیں کرتے تھے۔ بات کرتے وقت اکثر چہرے پر مسکراہٹ رہتی۔ ایک مرتبہ عبداللہ بن حارثؓ نے کہا تھا کہ میں نے محمدؐ سے زیادہ مسکراتے کسی کو نہیں دیکھا۔ بات کی وضاحت کے لئے ہاتھوں اور انگلیوں کے اشاروں سے بھی مدد لیتے تھے۔ کسی سمت اشارہ کرتے تو پورا ہاتھ حرکت میں لاتے تھے۔ وہ افصح العرب تھے۔ فصاحتِ زبان و بیاں کے ساتھ ساتھ حسنِ گفتار، لہجے کی شائستگی، آواز کی مٹھاس اور کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معنی پر ودینا اُن کی گفتگو کی امتیازی شان تھی۔ مثال کے طور پر:
اَعْقلِ واء کل (پہلے عقل استعمال کرو پھر توکل کرو)
اَسلِمہ تَسلِمہ (اسلام لاؤ اور سلامتی پاؤ)
انما الاعمال بالنیات (اعمال نیتوں پر منحصر ہیں)
الحرب خدعۃ (جنگ چالوں سے لڑی جاتی ہے)
اَلْآنَ حَمِیُ الْوَطِیْسُ (اب تندور گرم ہوا)
المجالس بالا مانۃ (مجالس کے لئے امانت داری لازم ہے)
من لایرحمہ، لایرحمہ (جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اُس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا)(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر80 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں