کسان ہے پریشان

May 03, 2024

خالد ارشاد صوفی

  پنجابی کی ایک نظم کے دوبند:

چیت چڑھیا تے تینوں اسی تکیا

ساڈا جگ سی ویران اَج وسیا

کہ نینی خواب ہرے بھرے

وا ڈالیاں دی مینڈی پئی کھولدی 

رنگاں دی جنج چڑھے چڑھے

چیت چڑھیا تے تینوں اسی تکیا

یہ گیت جوانی اور اس کے رنگوں، اس کی ترنگوں کا عکاس ہے۔ ویسے ہی رنگ فصل کاٹنے اور پیداوار ٹھکانے لگانے پر کسان کے چہرے پر بھی روشن نظر آتے ہیں۔ چیت کے مہینے میں فصل کے پروان چڑھنے پر جو مسرت کسان کے دل میں موجزن ہوتی ہے بیساکھ میں وہ متشکل ہو کرسامنے آ جاتی ہے، اس مہینے میں کسان گندم کی فصل کاٹ کر فارغ ہوتا ہے تو اپنی چارچھ ماہ کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے موج میلوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ بیساکھی کا میلہ ایسا ہی ایک تہوار ہے۔ماضی میں بیساکھی کا میلہ کسی خاص مذہب سے منسوب نہیں تھا۔بڑے بوڑھوں کے مطابق آزادی سے پہلے پنجاب کے تمام کسان ہر طرح کی تفریق سے بالاتر ہو کر ربیع کی فصلوں کی کٹائی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تھے اور میلے منعقد ہوتے تھے۔

 فصلاں دی مک گئی راکھی

 جٹا آئی  وساکھی، آئی وساکھی

چیت کا مہینہ ابھی ابھی ختم ہوا ہے اور بیساکھ کے رنگ فضا میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ رنگ پھیکے ہیں۔ کسان کے چہرے پر وہ رونق اور وہ چمک دمک نظر نہیں آتی جو گندم کی پکی ہوئی فصل دیکھ کر آتی ہے اور وجہ یہ ہے کہ اسے اس بات کا یقین نہیں کہ جب وہ فصل کاٹ لے گا اور گندم سے بھری بوریاں تیار کر لے گا تو اسے کوئی مناسب خریدار مل سکے گا۔ کسانوں کی طرف سے اپنی فصل اونے پونے بیچنے کی وجہ سے مارکیٹ میں گندم کی قیمت حکومت کے مقرر کردہ نرخ یعنی 3900 روپے فی من کے بجائے بعض علاقوں میں 2900 روپے فی من تک گر چکی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گندم کی قیمت میں ہونے والی اس کمی کا فائدہ عام لوگوں کو نہیں پہنچ رہا،پرائیویٹ چکیوں پر آٹے کی قیمت اب بھی وہی ہے جو بیرون ملک سے آنے والی گندم یا اندرون ملک پیدا ہونے والی گندم مارکیٹ میں آنے سے پہلے تھی۔ حکومت کے لیے گندم کی نئی پیداوار سنبھالنا شاید اتنا مشکل نہ ہوتا اگر بیرون ملک سے گندم کی وافر مقدار درآمد نہ کر لی گئی ہوتی۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس وقت گندم درآمد کرنے کی کیا تُک بنتی ہے جب اندرون ملک گندم کی فصل پکنے کے قریب ہو؟ مسئلہ شاید نئی گندم سنبھالنا نہیں،بلکہ یہ ہے کہ گوداموں میں پچھلے سیزن کی گندم بھی موجود تھی،اس پر مستزاد یہ کہ خاصی بڑی مقدار میں گندم درآمد کر لی گئی‘ وہ بھی پڑی ہے اور گندم کی نئی فصل بھی مارکیٹ میں آ رہی ہے۔ ان صاحب کا پتا چلایا جانا چاہیے جنہوں نے گندم درآمد کرنے کی اوچھی اور فضول حرکت کی ہے اور پھر ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ یہ فیصلہ کیوں‘ کیسے اور کس کے کہنے پر کیا گیا۔ اب یہ بات تسلیم کر لی جانی چاہیے کہ ہمارا ملک اس وقت زوال کی جس نہج تک پہنچ چکا ہے اس کی وجہ اسی طرح کے لا یعنی‘ بے سوچے سمجھے اور فضول قسم کے فیصلے ہیں۔ سخت جواب طلبی ہو گی تو ہی آئندہ ملک اور عوام کے ساتھ اس طرح کے مذاق بند ہوں گے۔

اب خطرہ اور خدشہ یہ ہے کہ جو سرپلس گندم موجود ہے اور جو گندم کسانوں اور کاشتکاروں سے نہیں خریدی جا سکے گی‘ وہ اس کو کم قیمت پر ہی سہی پرائیویٹ سیکٹر میں فروخت کریں گے‘ اور اس میں سے اچھی خاصی مقدار سمگل ہو جائے گی۔ باقی سٹور کر لی جائے گی اور جب حکومتی ذخیروں میں کچھ کمی واقع ہو گی تو یہ گندم مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کی جائے گی۔ اس کا ایک اور بھی نتیجہ نکلے گا۔ یہ کہ اس برس اگر کسانوں کو ان کی پیداوار کا مناسب صلہ نہ ملا تو اگلے سال وہ گندم کاشت ہی نہیں کریں گے یا کم کاشت کریں گے‘ جس کا نتیجہ ملک میں ایک بار پھر گندم اور آٹے کی قلت کے بحران کی صورت میں نکلے گا۔ کوئی تو ہو جو گندم درآمد کی صورت میں اس ملک کے ساتھ کیے گئے مذاق پر آواز بلند کرے۔ کوئی وکیل عدالت سے ہی رجوع کر لے تاکہ جنہوں نے گندم پکنے کے موسم میں گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا‘ ان سے کچھ تو باز پرس ہو سکے۔ ان سے ان کی دانشمندی کے کچھ تو راز حاصل کیے جا سکیں۔

 کسان اس لیے احتجاج کناں ہیں کہ وہ اپنی مٹی اپنی زمین اپنے لوگوں اور اپنے ملک سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن انہیں اس محبت کا کوئی مثبت جواب‘ کوئی صلہ نہیں ملتا۔ پاکستان میں کاشت کاری کرنا آسان نہیں ہے۔ کسان بہت سی مشکلات اور بہت سے مسائل پر قابو پا کر فصل پیدا کرتا ہے اور جب اسے اس کی محنت کا مناسب صلہ نہیں ملتا تو وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کا حکومت اور نظام پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ کسان کے لیے فصل کاشت کرنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سب سے پہلے اسے اچھی پیداوار والا بیج نہیں ملتا۔ بیج بھی ملاوٹ والا ہوتا ہے جس میں کم  پیداوار والے سستے بیچ بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ حل ہو جائے تو کسانوں کو کھاد سرکاری ریٹ پر نہیں ملتی‘ بلیک میں خریدنا پڑتی ہے‘ بعض اوقات دوگنا نرخوں پر۔ بیج اور کھاد مل جائیں تو پانی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ باران رحمت برس جائے تو ٹھیک ورنہ انہیں بجلی اور ڈیزل کے ذریعے چلنے والے ٹیوب ویلوں سے زیر زمین پانی نکال کر آبپاشی کے لیے استعمال کرنا پڑتا ہے جس پر بھاری اخراجات آتے ہیں کیونکہ نہ تو بجلی سستی ہے اور نہ ہی پیٹرول کی قیمتوں میں کوئی استحکام ہے۔ یہ تینوں مسائل کسی نہ کسی طرح حل ہو جائیں تو کیڑے مار ادویات کا مسئلہ سر اٹھا لیتا ہے۔ اس کے باوجود کسان فصل تیار کر لیتا ہے تو اسے ایک اور مافیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مافیا ہے ذخیرہ اندوزوں‘ سرمایہ کاروں اور مڈل مینوں کا مافیا۔ حکومت اگر کسان کی پوری فصل اٹھانے کے قابل نہ ہو تو اس مافیا کی چاندی ہو جاتی ہے۔ وہ کم قیمت پر فصلیں خرید کر سٹور کرتے ہیں اور پھر مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے اپنی مرضی کی قیمتیں وصول کرتے ہیں۔

مزیدخبریں