مصنف : عمران الحق چوہان
قسط :38
عقبی گلیاں سار ی کی ساری کچی اور گندی تھیں۔سیمنٹ کے بلاکس سے بنے زیادہ تر ایک منزلہ بے رنگ مکان جن کے صحنوں میں لگے پھل دار درخت منڈیروں سے جھانکتے تھے۔ نالیاں پھلانگتے اور لوگوں سے راستہ پو چھتے چنار باغ کے عقبی گیٹ پر پہنچے جو مقفل تھا۔ گھوم کر مین گیٹ کی طرف جا نا پڑا جو مشرقی جانب دریائے گلگت کے رخ پر کھلتا تھا۔
چناروں کی گھنی اور ٹھنڈی چھاوں میں لپٹی پر سکون سڑک، جس پر آمد و رفت کم اور ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔ باغ کے اندر بھی چناروں کی حاکمیت قائم تھی۔ ہرے بھرے، بلند وبالااور دن میں شام کیے رکھنے والے گھنے چنارہاتھ ہلاکر ہمیں خوش آمدید کہتے تھے۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کو آزادی اتنی آسانی سے نہیں مل گئی تھی۔انھوں نے یہ آزادی اپنے زور ِ بازو سے یعنی ڈوگرہ حکم رانوں سے لڑ کر اور قربانیاں دے کر لی تھی۔اس باغ میں گلگت سکاو¿ٹس کے ان شہدا کی یاد گار قائم ہے جن کی جانیں 1947-48 میں ڈوگروں سے جنگ ِ آزادی لڑتے ہو ئے آزادی کے حصول میں کام آئیں۔ ایک چبوترے پر چھو ٹا مینار جس پر شہدا کے ناموں کی فہرستیںدرج ہیں۔ مینار کے اوپر مارخور کا سنہری مجسمہ۔ صدر ایوب خان نے 1962 میں اس یادگارکا سنگ ِ بنیاد رکھا تھا۔ قریب ہی شہدا کی چند قبریں۔ فاتحہ پڑھ کر ہم ادھر ادھر گھاس پر دراز ہوگئے۔(اب اس یاد گار کو مقامی حکومت اور فوج کے تعا ون سے بہت خوب صورت اور شان دار بنا دیا گیا ہے)
باغ خالی پڑا تھا ۔ فضا میں چناروں کی سبز ٹھنڈک باہر کی نسبت زیادہ تھی۔ کچھ فا صلے پر بلدیہ کے دفاتر تھے۔ ہم کچھ دیر گھاس پر بیٹھ کر سستا تے رہے ۔ سفر کی تھکن کہتی تھی کہ اس نرم اور ٹھنڈی گھاس پر سو جاو لیکن باہر دریائے گلگت ہمیں بلاتا تھا ۔ ہم باہر نکل آئے۔
دریا کنارے ایک پختہ چبوترا تھا جس کے گرد لوہے کی ریلنگ تھی۔ ہم چبوترے پر کھڑے ہو کر دریا کا نظارہ کرنے لگے۔ دریا کے سا حل کے ساتھ ساتھ طویل فٹ پاتھ تھا جو پل تک چلا گیا تھا۔تیز رفتار، سرمئی پانی سے لبا لب بھرا دریائے گلگت۔ چند بچے جن کی عمریں دس بارہ سال سے زیادہ نہیں تھیں دریا میں نہا رہے تھے۔ اور نہانے سے مراد کنارے پر نہا نا نہیں بل کہ اس تند و تیز دریا میں اتر کر، کنارے سے کافی آ گے جا کر نہانا تھا ۔
دریا کا پا نی ایک ہم واری اور تیزی کے ساتھ جنوب کی طرف بہتا تھا۔ جہاں کنکریٹ کا ایک نیاپل تھا اور اس سے تھوڑا آگے قدیم چوبی پل تھا۔دریا کے کنارے پر جہاں ہم کھڑے تھے وہاں بھی چنار کے گھنے درختوں کا سا یہ تھا جو بڑھ کر دریا کے نصف تک پھیل گیا تھا۔ باقی نصف دریا اور اس سے پرے مٹی کی زردپہاڑیو ں پر سنہری دھوپ تھی۔ ہوا میں دریا کے بہاو کی مدھم سی سر سراہٹ تھی اور چنار وں کے پتے شام کی ہوا کے ہلکے جھو نکوں سے ہلتے تھے۔ ہم سیمنٹ کے چبوترے پرلوہے کی ریلنگ کے ساتھ کھڑے بیچ منجدھار میں نہاتے بچوں کی جرات پر حیران ہو رہے تھے۔ ہمیں متوجہ پا کر چند شوخ بچے ہمیں متاثر کرنے کے لیے کرتب دکھا نے لگے۔ وہ اپنی شلواروں کے پا ئنچے گھٹنوں تک چڑھا کر ہوا کا راستہ بند کر تے، پھر ازار بند والے حصے کو کھینچتے اور سورا خ میں پھو نکیں مار مار کر شلوار میں ہوا بھر لیتے جس سے گیلی شلوار مشک کی طرح پھول جاتی۔ پھر وہ ریلنگ پر چڑھ کر دریا میں چھلانگ لگادیتے۔ جب ہم اس عمل سے خاطر خواہ متا ثر ہو چکے تو ان میں زیادہ دیر زیرِ آب رکنے اور دور تک جانے کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ بچے لہروں سے الجھتے دریا میں بہت آ گے تک چلے جاتے اور سانس روک کرپانی کے نیچے رک جاتے۔ وہ اتنی دیر تک زیرِ آب رہتے کہ مجھے ڈر لگنے لگتا لیکن پھر یکے بعد دیگرے ان کے سر سطح پر ابھر تے اورجیتنے والے کے دوست فخر سے نعرے لگاتے۔ ذاکر خان نامی بچہ سب سے زیادہ تیز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ تیر کر دریا عبور کر سکتا ہے لیکن اس کے بڑے بھائی نے اسے سختی سے منع کر رکھا ہے۔ اس نے ثبوت کے طور پر ہمیں نصف دریا عبور کر کے بھی دکھایا۔ یہ ایک دل چسپ اور خوش گوار نظارہ تھا لیکن ہم سہ پہر دنیور میں گزارنا چاہتے تھے، چناں چہ لفٹ کے لیے پرانے پُل کے پاس کسی گاڑی کے انتظار میں کھڑے ہو گئے۔
پُل کے ساتھ ہی پٹ سن کی ریت بھری بو ریوں سے بنا ایک مو رچہ تھا جس میں رینجرز کے2 نوجوان بندوقیں پکڑے مستعد کھڑے تھے۔پرانے پل کا فرش جھریائے ہوئے مو ٹے اور مضبوط لکڑی کے تختوں سے بنا تھا اور اس کی چو ڑا ئی اتنی تھی کہ ایک وقت میں صرف ایک گاڑی گزر سکتی تھی۔ اس پُل کے پار سڑک دنیور جاتی تھی۔)جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔