گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 70

Nov 04, 2017 | 03:47 PM

1947ء کے سرما کا زمانہ یہ دیکھتے گزرگیا کہ پنجاب کی نئی اور تجربہ کار حکومت تقسیم ہند اور لاکھوں عوام کے تبادلہ آبادی کے عظیم اور بے پایاں مسائل سے کس طرح عہدہ برآہوتی ہے۔ میری اہلیہ دوسرے لیگی کارکنوں کے ساتھ مہاجرین کی دل جوئی میں مصروف تھیں اور میں حتی المقدور ان کی مدد کررہا تھا۔ انہوں نے مہاجرین میں لاکھوں رضائیاں تقسیم کیں تاکہ سرما کی یخ بستہ راتوں میں ان کے ٹھٹھرے ہوئے جسموں کو راحت میسر آئے۔ یہ مہاجر ہندوؤں کے ویران مندروں، سکولوں یا پھر کھلے میدانوں میں پڑاؤ ڈالے پڑے تھے۔
نومبر 1947ء میں، آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے بعد، جس کا ایک رکن مجھے بھی منتخب کیا گیا تھا، قائداعظم نے مجھے مشرق وسطیٰ کا درہ کرنے کی ہدایت کی تاکہ مسلمان ممالک سے رابطہ کیا جائے۔ میں نے سعودی عرب کے شاہ ابن سعود اور اردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقاتیں کیں اور پھر لبنان گیا جہاں آئین کی رو سے وزیراعظم اور صدر میں سے ایک عیسائی اور دوسرا مسلمان ہوتا ہے۔اس کے بعد میں ترکی گیا اور وہاں سے بغداد جارہا تھا کہ وہاں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی لہٰذا کراچی واپس آگیا۔ میں نے قائداعظم کو اپنے دورے کی طویل اور مفصل روداد ارسال کی تھی جسے انہوں نے بہت پسند کیا تھا۔ ایک دن خارجہ امور کے سیکرٹری مسٹر اکرام اللہ قائداعظم کے پاس میری ان یادداشتوں کی نقول لے کر گئے جو میں نے قائداعظم کے لئے انہیں ارسال کی تھیں۔ قائداعظم نے بے تابی سے کہا ’’انہیں آپ نے اپنے پاس کیوں رکھا ہے؟ یہ تو میرے لئے ہیں۔ انہیں یہیں چھوڑ جائیے۔‘‘ افسوس ہے کہ جب قائداعظم کو میرے اور میرے کام کے متعلق جاننے کا موقع ملا تو (11 ستمبر 1947ء کو) ان کا انتقال ہوگیا۔

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 69  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جب میں ترکی کے دورے پر تھا تو اتاترک کے ایک رفیق کار نے مجھے قائداعظم کے نام ایک پیغام دیا جو کراچی واپس پہنچنے پر میں نے انہیں پہنچادیا۔ اتاترک کے رفیق نے کہا تھا ’’براہ مہربانی قائداعظم سے کہہ دیجیے گا کہ وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے ان کے پاس صرف دو سال کا عرصہ ہے۔ اتاترک نے اپنی حکومت کے ابتدائی دو برسوں میں عظیم کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد عوام کا جوش و خروش کم ہوگیا تھا۔‘‘ میرا خیال ہے کہ عوم کے ذہنوں پر بہترین افراد کی گرفت بھی وقت گزرنے کے ساتھ کمزور پڑنے لگتی ہے۔ کسی انتظامیہ کا آغاز خواہ کتنا ہی شاندار کیوں نہ ہو لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے اس سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں جن کی وجہ سے نامقبول ہوتی ہے۔ لندن میں ایک ممتاز کنزرویٹو لیڈر کو میں نے یہ کہتے سنا تھا کہ جنگ کے بعد لیبر پارٹی کو برسراقتدار آنے دو۔ ان کے سامنے کتنے ہی حل طلب مسائل ہوں گے اور وہ یہ مسائل حل نہیں کرسکیں گے۔ تاریخ میں مجھے ایسی کسی حکومت کا نام نہیں ملتا جس نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی یا جس نے عوام کے تمام مطالبے پورے کردئیے ہوں۔
لیکن قائداعظم کو بمشکل ایک سال کا عرصہ ملا تھا اور اسی عرصے میں انہیں ایک نئی مملکت کی بنیادیں رکھنی تھیں۔ انہوں نے، میں اور میری طرح اور بہت سے لوگوں نے کبھی یہ سوچا تھا کہ کشمیر اور حیدرآباد میں یہ کچھ ہو جائے گا۔ یہ بات بھی ہمارے سان گمان میں نہ تھی کہ برطانوی حکومت ہندوستان کی ریاستوں سے کئے گئے اپنے تمام مواعد اور معاہدات یک طرفہ طور پر فسخ کردے گی۔
1949ء میں پہلی بار میں نے اکیفے(ECAFE) کے اجلاس سنگاپور میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ وہاں مجھے اتفاق رائے سے کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا۔ یہاں تک کہ روس نے بھی میری تائید کی جسے ہم نے بہت سراہا۔
دوسری بار حکومت نے مجھے پاکستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے اجلاس میں شرکت کے لئے واشنگٹن بھیجا۔ خوش قسمتی سے اس وقت اجلاس کے صدر لارڈ بروس تھے جو لندن میں بطور آسٹریلوی ہائی کمشنر میرے ہمعصر رہ چکے تھے۔ ہماری مساعی بار آور ہوئیں اور ہم عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی کونسل کے لئے جس کا سالانہ اجلاس روم میں ہوتا ہے، ایک پاکستانی نمائندے کو منتخب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
تقسیم کے وقت بیشتر برطانوی سول افسروں نے ہندوستان سے چلے جانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جیک ہرن میرے ان نفیس دوستوں میں سے تھے کہ چند برطانوی سول افسر یہاں رہیں کیونکہ ہمیں ان کی خدمات کی ضرورت تھی لیکن زیادہ تر افسروں، خاص طور پر نوجوانوں کی حوصلہ شکنی خود ان کی قوم کے لوگوں نے کی۔ جیک ہرن چھ فٹ سات انچ کے لحیم شحیم آدمی تھے اور ان کی بیوی، عورتوں کے اوسط قد می رعایت سے بھی پست قامت تھیں لیکن وہ بڑی حرلی خاتون تھیں اور ہمیشہ اپنے خاوند کے ساتھ باہر جایا کرتی تھیں، حالانکہ ان کے ایک قدم کا فاصلہ طے کرنے کے لئے انہیں تین قدم بڑھانے پڑتے تھے۔ شوہر کی رفاقت میں انہیں دیہات کے لوگوں کو بیشتر انگریز افسران کی بیگمات کی نسبت بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ وہ اکثر بے تکلف ہندوستانی گھروں میں پہنچ جاتی تھیں اور اس سلوک کی بنا پر وہ مقامی عورتوں میں ہر دل عزیز ہوگئی تھیں۔ ہمارے عوام کا یہ وہ طبقہ ہے جسے ماضی میں نظر انداز کیا گیا ہے۔
ایک اتوار کا ذکر ہے کہ ہم لوگ گنے کے کھیت میں کالے تیتر کا شکر کرنے کے بعد تھکن سے چور، پکنک کا کھانا کھانے کے بعد ایک درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھے آرام کررہے تھے۔ یہ اُن اونچی اور بھاری بھرکم چارپائیوں سے تھی جو ہمارے دیہات میں استعمال ہوتی ہیں۔ ہم میں سے کوئی شخص بھی اتنا لمبا نہ تھا کہ اس کا پاؤں نیچے پہنچتا۔ البتہ جیک کے پاؤں تقریباً زمین کو چھورہے تھے۔ میرے شناساؤں میں وہ اکیلے یورپی تھے جو ایسے مواقع پر کسی دیہاتی سے اپنے پاؤں کی مالش کرالیتے تھے۔ ہم ہنسی مذاق اور خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ ایک بوڑھا لاٹھی ٹیکتا، آہستہ آہستہ ہمارے پاس آیااور اس نے جیک کو مودبانہ سلام کیا کیونکہ 1947ء میں آزادی کے بعد بھی گورے آدمی کا بڑا وقار اور دبدبہ تھا۔ جیک نے سوال کیا ’’کون ہے یہ بوڑھا؟‘‘ کسی دیہاتی نے جواب دیا ’’حضور، یہ عیسائی ہے‘‘ ایک اور دیہاتی نے بتایا ’’لیکن حضور، آج کل اس کا بہت برا حال ہے‘‘ اس پر ایک اور شحص نے کسی استفسار کے بغیر درمیان میں ٹکڑا لگایا ’’حضور تقسیم سے پہلے عیسائی مشنری اس گاؤں میں آتے تھے۔ ہر مشنری کے پاس ایک رجسٹر ہوتا تھا اور وہ رجسٹر پر بوڑھے کے انگوٹھے کا نشان لے کر اُسے روپے دیتا تھا لیکن اب ادھر کوئی نہیں آتا اور غریب بوڑھا بہت پریشان سا رہتا ہے‘‘ ان لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ رومن کیتھولک عقیدے اور سیونتھ ڈے ایڈونٹس ازم کے درمیان امتاز نہ کریں۔ انہیں تو پیسہ چاہیے، خواہ کسی طرف سے آئے، وہ اس کا خیر مقدم کریں گے۔(جاری ہے )

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں