پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، اب تک لاکھوں افراد متاثر ہوئے،سینکڑوں جانیں گئیں،ہزاروں لوگ بے گھر ہو کر بیماریوں میں مبتلا ہیں اور سب سے بڑھ کر صوبے کی زرعی معیشت کا مستقبل داو پر لگ چکا ہے، چاول، کپاس، مکئی اور سبزیوں سمیت دیگر فصلیں تباہ ہوئیں،انسانوں اور جانوروں کی ہجرت نے بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے،اس کے اسباب میں صرف موسمی تغیرات شامل نہیں بلکہ ہماری کمزوریاں بھی ہیں، قدرتی چیلنج تو ایک حقیقت ہے، تاہم کمزور حکومتی حکمت عملی، ناکافی امدادی ڈھانچہ اور دیر سے ہونے والی معاونت نے نقصان کو مزید گہرا بنا دیا ہے،،فطرت نے کڑی آزمائش بھیجی ہے، اب حکومتی سطح پر جلد اقدامات، شفاف امدادی نظام، اور متاثرین کے لئے موثر بحالی کے منصوبے ناگزیر ہیں،سب سے بڑھ کر متاثرین کے لئے صحت کی موثر اور جلد سہولتیں سب سے ضروری ہیں۔
پنجاب میں صحت کے حوالے سے ایک منفرد انتظامی ڈھانچہ موجود ہے جس میں صحت کے دو الگ الگ محکمے ہیں، محکمہ ہیلتھ اینڈ پاپولیشن اور محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن،ان محکموں کی تقسیم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں، چھوٹے بڑے ہسپتالوں اور دیہی مراکز صحت کی کارکردگی میں اضافہ ہو، اور بڑے شہروں کے ٹیچنگ ہسپتال جدید سہولتوں سے آراستہ ہوں، لیکن بدقسمتی سے یہ تقسیم عوامی ریلیف کی بجائے ایک پیچیدہ بیوروکریٹک نظام میں بدل گئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو عوام مطمئن ہیں اور نہ ہی ہسپتالوں میں سہولیات پوری طرح میسر ہیں۔
پنجاب کے محکمہ صحت میں دو وزیر ہیں،دونوں خواجگان کا تعلق لاہور سے ہے اور ان کی شہرت محنتی اور سیاسی ورکروں کی ہے،لاہور کو مسلم لیگ(ن) کا شہر کہا جاتا ہے اس حوالے سے ان دونوں وزرا پر محکمانہ اور پارٹی دونوں سطح پر ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے،دوسری طرف صحت کے دونوں محکموں کے سیکرٹری اپنے وزراء سے زیادہ بااختیار ہیں، جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ ارکان اسمبلی کی تو دور کی بات اپنے وزرا کی بات بھی کم ہی سنتے ہیں، سپیشلائزڈ ہیلتھ کے سیکرٹری عظمت محمود،اپنے وزیر خواجہ سلمان کی کچھ باتیں سن بھی لیتے ہیں اور ارکان اسمبلی کے بھی کچھ کام کر دیتے ہیں مگر ہیلتھ اینڈ پاپولیشن کی سیکرٹری نادیہ ثاقب اور ان کے وزیر خواجہ عمران نذیر کے مابین سب اچھا نہیں ہے،دونوں ایک دوسرے کے محکمے تبدیل کرانے کی کوشش میں ہیں،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
پنجاب میں صحت کے نظام کو دیکھیں تو سرکاری طور پر بڑے بڑے دعوے سامنے آتے ہیں، ہر حکومت اپنے دور میں صحت کی سہولتوں کو اولین ترجیح قرار دیتی ہے۔ کبھی ”ہیلتھ کارڈ“ کا نعرہ لگایا جاتا ہے، کبھی ”فری میڈیسن“ کی بات کی جاتی ہے، تو کبھی ”ہر تحصیل میں ہر سہولت“ کا اعلان ہوتا ہے، لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ عوامی شکایات کے انبار لگے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات ناپید ہیں،سرکاری ڈاکٹر صرف وہی دوا دیتے یا لکھتے ہیں جو ان کے سٹور میں موجود ہو، ایمرجنسی وارڈز میں رش اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ایک ڈاکٹر کو درجنوں مریض دیکھنا پڑتے ہیں، دیہی مراکز صحت میں اکثر اوقات ڈاکٹر موجود نہیں ہوتے، اگر ڈاکٹر تعینات بھی ہوں تو بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے باعث مریض شہر کے بڑے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں، نرسنگ سٹاف اور پیرا میڈیکل عملے کی کمی بھی شدید ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو مناسب دیکھ بھال نہیں ملتی، صحت کے شعبے کو دو الگ الگ محکموں میں تقسیم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک محکمہ بنیادی اور ثانوی سطح کے ہسپتالوں کی دیکھ بھال کرے، جبکہ دوسرا محکمہ بڑے اور اسپیشلائزڈ ہسپتالوں کو سنبھالے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فنڈز کی تقسیم میں مسائل ہیں، چھوٹے ہسپتالوں اور دیہی مراکز صحت کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جبکہ بڑے شہروں کے ہسپتال زیادہ بجٹ لے جاتے ہیں،ایک حکومت آ کر منصوبہ شروع کرتی ہے، دوسری حکومت آ کر اسے بند کر دیتی ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام بنیادی سہولت سے محروم رہتے ہیں، ہر حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ دوائیں مفت فراہم کی جائیں گی، لیکن اسٹورز خالی رہتے ہیں، کئی ہسپتالوں میں ایکسرے، الٹراساؤنڈ، سی ٹی اسکین اور ڈائیلاسز مشینیں خراب پڑی رہتی ہیں، مرمت یا پرزے منگوانے کے لئے مہینوں لگ جاتے ہیں، بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں مریضوں کا رش اتنا زیادہ ہے کہ کئی مریض فرش پر یا راہداریوں میں لیٹے نظر آتے ہیں، ہسپتالوں میں صفائی کی صورتحال ناقص ہے، جس کے باعث انفیکشن کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
ان حالات میں ایک عام شہری کے لئے سرکاری ہسپتال جانا ایک بڑا امتحان بن چکا ہے، اگر کوئی غریب شخص اپنے مریض کو ہسپتال لے کر جائے تو کئی کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے،اگر ٹیسٹ تجویز کیا جائے تو ہسپتال کی مشین خراب ملتی ہے، یہ تمام صورتحال عوام میں شدید مایوسی اور بد اعتمادی کو جنم دے رہی ہے۔لوگ سمجھتے ہیں کہ دو محکمے بنانے کے باوجود ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، دیہی مراکز صحت میں ڈاکٹر ڈیوٹی دینے کی بجائے شہروں میں پرائیویٹ پریکٹس کو ترجیح دیتے ہیں،پنجاب کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ہسپتالوں کی تعداد اور سہولتیں اسی رفتار سے نہیں بڑھ سکیں۔
اگر پنجاب کے صحت کے نظام کو بہتر بنانا ہے تو چند بنیادی اقدامات کرنا ہوں گے، ڈاکٹرز اور نرسز کی کمی دور کرنے کے لیے بھرتیوں میں اضافہ کیا جائے اور دیہی علاقوں میں خدمات دینے والوں کو خصوصی مراعات دی جائیں، مشینری اور ادویات کی فراہمی کو مستقل بنیادوں پر یقینی بنایا جائے، پرائیویٹ پریکٹس پر کنٹرول ہونا چاہیے تاکہ ڈاکٹر اپنی سرکاری ذمہ داری پوری کریں مگر دوسری طرف ڈاکٹروں کے پے پیکیج بھی بہتر بنائے جائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحت کے نظام کو سادہ، موثر اور عوام دوست بنایا جائے، ایک مربوط حکمت عملی کے بغیر نہ تو عوام مطمئن ہو سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کر سکتی ہے،موجودہ سیلاب کے دوران پنجاب میں صحت کے دونوں محکموں کا کردار نہایت اہم ہو جاتا ہے، کیونکہ سیلاب نے صرف مکانات اور زمینوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ براہِ راست انسانی صحت کو بھی نشانہ بنایا ہے، پانی کھڑا ہونے سے بیماریاں پھیلتی ہیں، ایمرجنسی کیسز بڑھ جاتے ہیں اور متاثرین کو فوری علاج و ادویات کی ضرورت ہوتی ہے، سیلاب کے دوران محکمہ صحت کو سب سے آگے ہونا چاہئے،ایمرجنسی میڈیکل کیمپس میں سہولیات دی جائیں تاکہ متاثرین کو فوری طبی امداد مل سکے۔ صاف پانی اور حفاظتی اقدامات کی آگاہی، ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو متاثرہ علاقوں میں تعینات کرنا ہو گا، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اکثر جگہوں پر یہ کیمپس تاخیر سے لگے، ادویات ناکافی ہیں اور دیہی علاقوں میں عملہ پہنچ ہی نہیں پا رہا۔سیلاب کے دوران بڑے ہسپتالوں میں ایمرجنسی وارڈز کو ریڈ الرٹ رہنا چاہئے تاکہ زخمیوں اور شدید بیمار مریضوں کو فوری علاج مل سکے،ا یمبولینس سروس کو متاثرہ علاقوں میں فعال کرنا ہوگا،اگر یہ دونوں محکمے اپنے وسائل کو یکجا کر کے ایک متحدہ ایمرجنسی نظام بنا لیں تو ہزاروں قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں، لیکن موجودہ صورتحال عوامی مایوسی کو بڑھا رہی ہے۔
٭٭٭٭٭