دس سا ل پہلے دہشتگردی کا منظر کچھ اور تھاآج کچھ اور ہے،کسی نے تو عدالت کو سمجھانا ہے کہ ہو کیا رہا ہے،جسٹس محسن اختر کیانی، لاپتہ شہری کی بازیابی سے متعلق ان کیمرہ بریفنگ طلب

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ شہری کی بازیابی سے متعلق ان کیمرہ بریفنگ طلب کرلی،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ 10 سا ل پہلے دہشتگردی کا منظر کچھ اور تھاآج کچھ اور ہے،کسی نے تو عدالت کو سمجھانا ہے کہ ہو کیا رہا ہے،آج تک کوئی عدالت کو نہیں سمجھا سکا،کسی سٹیج پر یہ کرمنل کارروائی کی جانب معاملات جائیں گے،یہ تو پارلیمنٹ کا کام ہے جنہوں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں،اب آپ نے بتانا ہے کہ کس نے آکر بریفنگ دینی ہے،کون سا افسر پیش ہوگا۔
نجی ٹی وی چینل’’ جیو نیوز‘‘ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ شہری عمر عبداللہ کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی،حکومت کی جانب سے لاپتہ شہری کی فیملی کے اکاؤنٹ میں 50لاکھ روپے کی امدادی رقم منتقل کر دی گئی، وزارت دفاع اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے رقم آن لائن منتقل کرنے کی رسید عدالت میں پیش کردی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتہ شہری کے والد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ رقم منتقل ہو گئی ہے کل تک آپ کو مل جائے گی،فیملی کے دکھوں کا مداواان پیسوں سے نہیں ہوسکتا۔
عدالت نے لاپتہ شہری کی بازیابی سے متعلق ان کیمرہ بریفنگ طلب کرلی،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ بے شک 5افسر آ جائیں ، ہو سکتا ہے ہمیں ایک افسر کی بات سمجھ نہ آئے،چھ اکتوبر کو بریفننگ ان کیمرا ہوگی، آپ نے بتانا ہے کہ کون ساافسر پیش ہوگا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے نمائندہ وزارت دفاع سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ سب قابل احترام ہیں، جو بات ہوگی عدالت میں ہوگی،یقین کریں میں کسی کو کھاؤں گا نہیں ، 7 سال سے ججمنٹ دی ہوئی ہے،عدالت نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن میں افسر پیش ہوتے ہیں، انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا،جب عدالت بلاتی ہے تو سب افسر ناراض ہو جاتے ہیں،پتہ نہیں کورٹ سے کیوں ناراض ہو جاتے ہیں جبکہ وہی افسران کمیشن میں پیش ہوتے ہیں،پتہ نہیں کیوں ریٹائرڈ جج کے پاس تو وہ پیش ہو جاتے ہیں اور عدالت میں پیش نہیں ہوتے،ہم تو لا ء افسران کا آرڈر لکھ دیتے ہیں جو وہ کہتے ہیں ، پھر بھی یہاں افسران پیشی سے کتراتے ہیں۔
نمائندہ وزارت دفاع نے کہاکہ عدالت کسی افسر کا نام نہ لکھے،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ میں کسی افسر کا نام نہیں لکھا رہا، صرف عہدہ لکھ رہا ہوں،10 سا ل پہلے دہشتگردی کا منظر کچھ اور تھاآج کچھ اور ہے،کسی نے تو عدالت کو سمجھانا ہے کہ ہو کیا رہا ہے،آج تک کوئی عدالت کو نہیں سمجھا سکا،کسی سٹیج پر یہ کرمنل کارروائی کی جانب معاملات جائیں گے،یہ تو پارلیمنٹ کا کام ہے جنہوں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں،اب آپ نے بتانا ہے کہ کس نے آکر بریفننگ دینی ہے،کون سا افسر پیش ہوگا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ نے عدالت کو 6اکتوبر سے پہلے بتانا ہے کہ کونسا افسر ان کیمرہ بریفنگ دے گا، کمیشن آف انکوائری نے پورا ڈیٹا دیا ہے ،572مسنگ پرسن ہیں،سوال اب بھی وہیں کھڑا ہے، لاپتہ شہری کہاں ہے،کب پیش کریں گے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ا دارے کوشش کررہے ہیں، پوری جدوجہد کررہے ہیں ،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ مسنگ پرسن کی درخواست کو 10سال ہو گئے ہیں،میں نے لارجر بنچ میں کہا ان کیمرہ آ جائیں، کہا تھا ڈی جیز آئیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ سینئر کو نہ بلائیں، ڈپٹی ڈی جی کو بلائیں۔
عدالت نے کہاکہ ریاست کے پاس پیسوں کی کمی نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے مسئلہ حل نہیں ہوگا، افسران آکر عدالت کو یہ بتادیں کہ بندہ مارا گیا ، ملک چھوڑ گیا یاچھپ کر بیٹھا ہواہے،ان چیزوں پر کورٹ کو ان کیمرہ بریف کریں، ریاست کے ادارے مختلف پوزیشن پر کھڑے ہیں،ہم ججمنٹس پھاڑ کر پھینک نہیں سکتے، آپ بتائیں گے کہاں ہے مسنگ پرسن،کیا وہ افغانستان کی جیل میں ہے، یہ بتانا ہے وہ زندہ ہے یا مرگیا ہے،جس کو مرضی آپ بھیج دیں، صرف آکر سمجھا دیں کہ مسنگ پرسن کہاں ہے،ریکارڈ کےسا تھ آ جائیں ، جیسے مرضی آپ آ جا ئیں، کسی کا آرڈر میں نام نہیں لکھ رہا، ہم نے یہ معاملہ ویسے لارجر بنچ میں رکھا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں جج صاحب معذرت کرگئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ6 اکتوبر سے پہلے لاء افسرعدالت کو بتائیں کہ کونسے افسران ان کیمرہ بریفنگ دیں گے،کیس کی سماعت 6اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔