نیلی حویلی پر چھائے ،آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 2

Feb 05, 2020 | 11:47 AM

اصغر علی عطاری

سیالکوٹ میں ڈسکہ سے سمبڑیال کی طرف تقریباً وسط میں جس مقام پر آپ کو ٹھنڈک کا احساس ہونے لگے اور تازگی کا خوشگوار احساس آپ کو تروتازہ کر دے، فوراً سمجھ جائیں آپ نہر کنارے واقع سرسبز و شاداب گائوں روشن نگر کی حدود سے گزر رہے ہیں۔ یہیں پر علاقے کا تھانہ بھی آباد ہے جس کی حدود میں روشن نگر اور آس پاس کے دیگر دیہات آتے ہیں۔ یہاں کھڑے تانگے اور پک اپ گاڑیاں مسافروں کو روشن نگر گائوں لے جانے کے لیے سورج ڈھلنے تک کھڑی رہتی ہیں۔
یہی روشن نگر وارث اور اکرم کا گائوں تھا جس کی آبادی کے باہر کھیتوں کے بیچوں بیچ نیلی حویلی واقع تھی۔ نیلی حویلی کو یہ نام اِس کے نیلے رنگ کی وجہ سے ملا تھا۔ حویلی چاندنی راتوں میں چہارسو اپنا نیلا رنگ بکھیرتی تو دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ دُور سے دیکھنے پر ایسا معلوم ہوتا جیسے کھیتوں میں خوبصورت نیلا پھول کھلا ہوا ہے۔ دن کی روشنی میں تو یہ ایک عام سی حویلی دکھائی دیتی مگر رات کے وقت یہ خوبصورت شاہکار نظر آتی تھی۔کسی زمانے میں یہ بہت خوبصورت اور عالیشان ہوا کرتی تھی مگر رفتہ رفتہ اس کا حسن گہنا گیا۔
کہا جاتا ہے تقسیم ہند سے بھی پہلے پرانے وقتوں میں اس حویلی میں علاقے کا نواب ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی گزارتا تھا۔ انیسویں صدی میں برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے قدم جمائے تو دیگر علاقوں کی طرح اس حویلی پر بھی انگریز قابض ہو گئے۔ بہرحال برصغیر سے انگریز اپنی بساط لپیٹ کر رخصت ہوا تو وقت کا پہیہ گھومنے کے ساتھ ہوتے ہوتے نیلی حویلی چوہدری عمردراز کے آباﺅاجداد کے حصے میں آ گئی۔

نیلی حویلی پر چھائے ،آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 1 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
چوہدری عمردراز کا باپ چوہدری حاکم ایک نیک نام اور نیک دل انسان تھا۔ روزانہ رات کو حویلی کے بڑے صحن میں بیٹھک جمتی، گاﺅں کے بڑے بوڑھے اکٹھے ہوتے۔ ہر قسم کے موضوعات پر تبصرے ہوتے‘ قہقہے بکھرتے مگر چوہدری حاکم کی وفات کے بعد یہ سلسلہ دم توڑ گیا۔ اس کی وفات کے بعد بھی چوہدری عمردراز کی ماں اور بیوی حویلی کے دروازے ہمیشہ گاﺅں کے لوگوں کیلئے کھلے رکھتے۔ سارا دن گاﺅں کی عورتوں کا اُن کے ہاں آناجانا رہتا لیکن رفتہ رفتہ حویلی کی رونق کی وجہ بننے والے مکین مر گئے۔ پہلے چوہدری عمردراز کی ماں پراسرار حالات میں موت کا شکار ہوئی اور پھر اس کی بیوی بھی ایک دن اچانک زندہ جل مری۔
حویلی سے متعلق عجیب و غریب کہانیاں گاﺅں میں پھیلنے لگیں۔ مشہور ہو گیا کہ حویلی آسیب زدہ ہو گئی ہے۔ اس سے متعلق عجیب و غریب واقعات زبان زد عام ہو گئے۔ اب یہ وہ حویلی نہیں رہی تھی جو کبھی گاﺅں والوں کی آنکھوں کا تارا ہوا کرتی تھی۔ وہاں جانے کے لیے بے چین رہنے والے لوگ اب اس سے کنّی کترانے لگے۔ بہرحال چوہدری عمردراز حویلی کا واحد مکین تھا جو بچ گیا لیکن اسے بھی ہرے بھرے کھیتوں میں گھری نیلی حویلی میں رونما ہونے والے پراسرار واقعات نے وہاں سے بوریابستر گول کرنے پر مجبور کر دیا اور وہ گاﺅں کی آبادی کے سرے پر واقع ایک نئی حویلی میں مقیم ہو گیا۔
نیلی حویلی ویران ہو گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوف اور دہشت کی علامت بنتی گئی۔ گاﺅں جو کبھی امن و امان اور خوشحالی کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اسے خوف اور دہشت کے سائے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گاﺅں کے کئی لوگوں کا کہنا تھا انہوں نے رات کے وقت حویلی سے عجیب و غریب آوازیں سنی ہیں۔ بہت سوں نے گواہی دی کہ رات کے وقت کبھی کالے اور کبھی سفید کپڑوں میں ملبوس سائے حویلی سے نکلتے دکھائی دیے ہیں جس سے خوف اور دہشت دن بدن مزید بڑھتی گئی۔ رات کے وقت کھیتوں کے قریب سے گزرنے والے کئی افراد نے بتایا اُنہیں ایسے لگتا ہے جیسے کوئی گھنگھرو باندھے اُن کا پیچھا کر رہا ہے۔
غرض نیلی حویلی کے آسیب سے لوگ ڈرنے لگے۔ ہر کوئی ادھر کا رُخ کرنے سے گھبرانے لگا۔ اکرم اور وارث گاﺅں کے باسی ہونے کے ناطے اِن باتوں کو بخوبی جانتے تھے۔ یہ گاﺅں کی واحد جگہ تھی جہاں گاﺅں والے دن کے اُجالے میں نہیں جاتے تھے لیکن نفس کی تسکین کے خیال نے انہیں آج ہر ڈر سے آزاد کر دیا تھا۔
رات کا اندھیرا گہرا ہوتے ہی اکرم وارث کے گھر کے باہر جا کر کھڑا ہو گیا اور مخصوص انداز میں سیٹی بجائی۔ دونوں ایک دوسرے کو اسی طرح سیٹی بجا کر بلایا کرتے تھے۔ گویا یہ ان کا کوڈ ورڈ تھا۔ اکرم کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ دروازے کی کنڈی کھلنے کی ہلکی سی آواز آئی اور وارث دروازے پر نمودار ہو گیا۔ گھر والے سب صحن میں سو رہے تھے۔ دروازہ بند کرنے سے پہلے اس نے ایک نظر ان پر ڈالی جیسے اس بات کی تصدیق کر رہا ہو کہ کوئی اسے رات کے اس وقت باہر جاتے دیکھ تو نہیں رہا۔
اچھی طرح اطمینان کر لینے کے بعد اس نے آہستگی سے دروازہ بند کیا اور دونوں دوست تیزی سے اندھیری گلی طے کرنے لگے۔ گلی سے باہر آ کر دونوں مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے نیلی حویلی کی جانب گامزن ہو گئے۔ راستے میں گاﺅں کے کئی لوگوں سے ان کی سلام دعا بھی ہوئی لیکن کسی کو کچھ بتائے بغیر وہ خاموشی سے چلتے رہے۔
گاﺅں سے باہر نکل کر اب وہ کھیتوں کے بیچوں بیچ نیلی حویلی کی جانب جانے والی پگڈنڈی سے گزر رہے تھے۔ چونکہ رات کا وقت تھا اس لیے اب انہیں یہ ڈر نہیں تھا کہ کوئی انہیں دیکھ نہ لے۔ چلتے چلتے بالآخر وہ منزل مقصود پر پہنچ گئے۔
نیلی حویلی کسی سیاہ بھوت کی مانند کھڑی ان کو گھور رہی تھی۔ وارث اس پر اپنی نظریں نہیں جما پا رہا تھا۔ اکرم کے زور دینے پر وہ یہاں تک آ تو گیا تھا لیکن اس کی اندرونی حالت کیا تھی یہ صرف وہی جانتا تھا۔ اکرم سارے معاملے میں اس کی رہنمائی کر رہا تھا۔ اس نے اندر گھسنے سے پہلے ایک نظر حویلی کا جائزہ لیا۔ اندر جانے کا راستہ تلاش کرنے میں اسے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی۔ ایک مقام پر دیوار شکستہ ہونے کی وجہ سے گر پڑی تھی جس سے اس کی بلندی اس قدر رہ گئی تھی کہ وہ اسے آسانی سے پھلانگ کر وہ اندر جا سکتے تھے۔
سب سے پہلے اکرم نے دیوار پھاندی اور پھر وارث دیوار سے کود کر حویلی کے اندر جا گھسا۔ دیوار چونکہ چھوٹی تھی اس لیے حویلی کا دروازہ کھولنے کی نسبت یہ زیادہ آسان کام تھا۔ ویسے بھی لوہے کی موٹی موٹی سلاخوں سے بنا مرکزی دروازہ عرصہ دراز سے بند رہنے کی وجہ سے زنگ آلود ہوچکا تھا اور پھر بھاری بھرکم اتنا تھا کہ اسے ہِلانا جُلانا اِن دونوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ بہرحال وہ اندر داخل ہوئے۔
پوری حویلی میں گہرا سناٹا چھایا تھا۔ انہوں نے صحن میں نظر دوڑائی۔ پیپل کے بکھرے خشک پتوں اور خودرَو لمبی گھاس کے علاوہ انہیں کچھ دکھائی نہ دیا۔ ہر جانب ویرانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ چونکہ برسات کا موسم تھا اس لیے آسمان پر بادل بھی چھائے ہوئے تھے۔ سرخی مائل سیاہ آسمان پر چاند کبھی کبھار بادلوں کی اَوٹ سے نکل کر رُونمائی کراتا اور پھر یکدم غائب ہو جاتا۔ ہوا کے تیز جھونکوں سے بکھرے پتے ادھر ادھر اُڑتے پھر رہے تھے۔
دونوں دوست پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے حویلی کے صحن سے اندر جانے کے لیے دروازے کی جانب بڑھنے لگے۔ ہوا کا کوئی تیز جھونکا آتا تو وہ چلتے چلتے رک جاتے جیسے کوئی انہیں خاموش پیغام دے رہا ہو کہ یہاں سے واپس لوٹ جاﺅ۔ تمہارے لیے یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس حویلی کی ویرانی سے عبرت حاصل کرو، ابھی واپسی کا راستہ موجود ہے۔ وقت گزر گیا تو بھاگنے کے لیے راہ ملے گی نہ کوئی دروازہ مگر نشے کی ہوس نامعلوم قوت کے اس خاموش پیغام کو ان کے دل و دماغ تک نہیں پہنچنے دے رہی تھی۔
وارث ویسے بھی کچھ ڈرپوک تھا۔ اس کی حالت بہت پتلی ہو رہی تھی۔ اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اکرم کے علاوہ کوئی تیسرا بھی اُن کے اردگرد موجود ہے جو نہایت خاموشی سے ان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ وارث کو وہ نظر تو نہیں آ رہا تھا لیکن وہ اسے محسوس ضرور کر رہا تھا۔ اس نے اکرم کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔
”اکرم ! پپ.... پتا نہیں کیوں مجھے یہ جگہ ٹھیک نہیں لگ رہی۔“
وارث نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔
”یہ تمہارا وہم ہے یار۔ گھبراﺅ مت، کوئی بھوت آئے گا تو اسے میں سنبھال لوں گا۔“
اکرم نے مسکراتے ہوئے اُسے تسلی دی۔ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے چلتے رہے۔ وارث نے پھر اس سے کوئی بات نہ کی۔ صحن ختم ہوا تو انہیں اندر جانے کا دروازہ نظر آیا۔ اکرم نے آگے بڑھ کر دروازے پر دباﺅ ڈالا تو چڑچڑاہٹ کی تیز آواز فضا میں گونجی اور دروازہ بغیر کسی مزاحمت کے کھلتا چلا گیا۔

نیلی حویلی پر چھائے ،آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 3 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں