نیلی حویلی پر چھائے ،آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 1
”آج رات کا کیا پروگرام ہے؟“
”پروگرام؟.... کیسا پروگرام؟“
وارث نے اکرم کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
اکرم نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ آس پاس کوئی نہیں تھا۔ اُس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور سگریٹ کی ڈبیہ وارث کو دِکھاتے ہوئے کہا :
”میں اِس پروگرام کی بات کر رہا ہوں۔“
”نہیں یار....!“
وارث نے اکرم کے ڈبیا والے ہاتھ کو واپس اس کی جیب میں ڈالتے ہوئے پُرزور آواز میں کہا۔ ”میں نشہ بازی سے توبہ کر چکا ہوں۔“
”میں کب کہہ رہا ہوں تم توبہ توڑ دو۔“
اکرم نے وارث کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”اتنی دیر ہم نے ایک ساتھ نشہ کیا ہے۔ آخری بار نشہ کرنے سے کچھ بگڑ نہیں جائے گا۔“
”یہ ممکن نہیں اکرم۔“
وارث نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔
”میں نشہ کرنا چھوڑ چکا ہوں۔ اماں اور تیری بھابی سے میں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ اب کبھی نشہ نہیں کروں گا۔“
”میری بات غور سے سن وارث۔ میں نے بھی اپنے ابا سے نشہ نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر آج....“
اکرم نے بات کرتے رُک کر ادھر ادھر دیکھا۔
”گاﺅں میں ’وہ‘ آیا تھا یار۔“
”وہ کون ؟“
وارث نے تجسس سے پوچھا۔
”وہی یار .... جو پورے گاﺅں میں ’مال‘ سپلائی کرتا ہے۔ اُس نے کہا آج بڑا اعلیٰ کوالٹی کا ’مال‘ ہے مگر میں نے منہ پھیر لیا کیونکہ میں نے ابا سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اب نشے کو کبھی ہاتھ نہیں لگاﺅں گا۔ وہ بھی بڑا عجیب آدمی نکلا۔ اس نے ہیروئن کی ایک نہیں کئی پڑیاں میری جیب میں ڈال دیں اور پیسے بھی نہیں لیے۔“
اکرم نے رازداری سے کہا۔
اس کی بات سن کر وارث چند لمحوں کے لیے سوچ میں پڑ گیا۔ اسے نشے کی لت میں مبتلا ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ نشے نے اس کے جسمانی اور روحانی احساسات پر نہایت برے اثرات مرتب کیے تھے۔ اس کی تباہ کاریوں کا احساس ہونے پر اگرچہ وہ توبہ کر چکا تھا لیکن ہیروئن بھرے سگریٹ دیکھ کر اس کا جی للچانے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ رضامندی کا اظہار کرتا اس کی آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگرے اس کی اماں، بیوی اور بچوں کے چہرے گھومنے لگے۔
”میں کچھ نہیں جانتا اکرم۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ نشے کی لت پہلے ہی میری صحت اور زندگی دونوں کو تباہ کر چکی ہے۔ مجھے کچھ ہو گیا تو میرے گھر والوں کو کون سنبھالے گا؟ میرے علاوہ میری ماں اور بیوی بچوں کا خیال رکھنے والا بھی کوئی نہیں۔“
وارث اتنا کہہ کر جانے کیلئے آگے بڑھا مگر اکرم آڑے آ گیا۔
”وارث ایک منٹ رُک تو سہی۔ میں بھی بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں۔ مجھ پر بھی گھر کی بہت ذمہ داریاں ہیں مگر اتنا تو سوچ ایک بار نشہ کرنے سے ہم مر تو نہیں جائیں گے۔ آج اگر وہ مجھے یہ نہ دے کر جاتا تو میرے دل میں نشہ کرنے کا خیال بھی نہ آتا۔ اوپر سے یہ ہے بھی بالکل مفت۔ اس لیے میری بات مان لے آخری بار نشہ کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔“
اکرم کسی صورت وارث کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔
”تمہیں یاد ہے ہم نشہ کرنے کے بعد ہربار یہی عہد کرتے ہیں آج کے بعد کبھی نشہ نہیں کریں گے مگر وہ کل آئی ہے نہ کبھی آئیگی۔“
وارث کے لہجے میں مایوسی نمایاں تھی۔
”تم ٹھیک کہتے ہو میرے یار! لیکن یقین مانو۔ آج واقعی ہم آخری بار نشہ کریں گے۔ اس کے بعد میں تمہیں کبھی مجبور نہیں کروں گا۔“
اکرم نے التجائیہ لہجے میں کہا۔
اس بار وارث نے اکرم کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ تذبذب کا شکار ہو گیا۔
”ہم دونوں نئی زندگی شروع کریں گے۔ نہ کبھی نشہ کرینگے نہ نشہ کرنے والوں سے تعلق واسطہ رکھیں گے۔“
اکرم نے تیر ٹھیک نشانے پر لگتا دیکھا تو مزید اُکسایا۔
”تم ہر بار یہی بات کہتے ہو۔“ وارث نے بے بسی سے کہا۔
”مجھ پر اعتماد رکھو۔ کچھ نہیں ہو گا۔“
اکرم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”میں اتنا اصرار اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ ہم دُکھ سکھ میں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں اس لیے اس کو ترک بھی اکٹھے ہی کریں گے۔“
”اماں اور تیری بھابی کو پتا چل گیا تو میں کس منہ سے ان کا سامنا کروں گا؟“
وارث کے چہرے پر فکرمندی کے آثار اُبھر آئے۔
”انہیں پتا نہیں چلے گا۔“
اکرم نے پرجوش لہجے میں کہا۔
”میں تمہیں گارنٹی دیتا ہوں۔ ایک جگہ ایسی ہے جہاں ہم آرام سے نشہ کر سکتے ہیں اور تب واپس آئیں گے جب نشہ اُتر چکا ہو گا۔ اس طرح کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔“
”کون سی جگہ ؟“
وارث نے چونک کر پوچھا۔
”نیلی حویلی ۔“
اکرم نے سرگوشی کی۔
”کیا....! نیلی حویلی؟“
وارث کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ نیلی حویلی کا نام سن کر وہ بری طرح سہم گیا تھا۔
”آواز دھیمی رکھ یار۔“
اکرم نے سرگوشی کی۔
”وہ محفوظ ترین جگہ ہے اس کام کیلئے۔ نہ وہاں کوئی جاتا ہے نہ کوئی ہمیں دیکھے گا۔“
”تمہیں پتا ہے وہ جگہ آسیب زدہ ہے۔“
وارث گھبرا کر بولا۔
”ہم نے کون سا آسیب کو تنگ کرنا ہے یار۔ نشہ کریں گے اور واپس آ جائیں گے۔“
اکرم نے جھنجھلا کر کہا۔
بادل نخواستہ وارث راضی ہو گیا۔ دونوں میں اچھی دوستی تھی مگر نشے کی بری لت پڑ چکی تھی۔ نشہ منشیات کا ہو یا بری عادت کا انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ انسان اگر اس لعنت سے چھٹکارے کا پختہ ارادہ نہ کرے تو ہر مرتبہ آخری بار کہہ کر نفس کو لذت پہنچاتا ہے مگر کبھی آخری باری نہیں آتی۔ انسان رفتہ رفتہ اپنے انجام کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ موت مقدر ہو جاتی ہے۔
نشے کا عادی فرد یہ بھی نہیں سمجھتا کہ اس کے پیچھے اس کا گھربار ہے۔ پورا نظام زندگی ہے۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو پھر سارا آشیانہ ہی برباد ہو جائے گا مگر نفس کی لذت اسے یہ بات یاد کہاں آنے دیتی ہے۔ برا انجام آخر کار اس کی طرف لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جاتا ہے مگر وارث اور اکرم کا انجام اتنا اچانک اور بھیانک ہو گا خود ان دونوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔(جاری ہے)
نیلی حویلی پر چھائے ،آسیب کے سائے ۔۔۔ قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں