جوانسان اپنے ماضی سے راضی، حال سے شاکی اور مستقبل سے بے نیازہو، اُسے عرف عام میں شوہر کہاجاتاہے۔ شوہر کو اور بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن شوہر بیچارہ کسی کو کچھ کہہ نہیں سکتا۔ میرے ایک نشترین دوست کا کہنا ہے ”شوہر اگر رازی ہال میں بھی رہے تب بھی ناراض ہی رہے گا۔ عموماً نشترین ہرحال میں خوش رہتے ہیں۔ بھلے وہ اقبال ہال ہوکہ رازی ہال۔ شوہر بنتے ہی مگرنشترین کے بھی حالات اورخیالات بدل جاتے ہیں“۔ ایک محقق کا کہنا ہے پُرانے دور کے لوگ بہت سمجھدار ہوتے تھے۔ اس لیئے وہ کہتے تھے ”میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی“۔ اُن کو پتہ تھا کہ میاں بیوی کاراضی ہونا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ میاں بیوی ناراض ہوں یاراضی، اُس دور میں اکثر قاضی گفتار کے غازی ہوتے تھے۔ عموماًکچھ کرتے کراتے نہیں تھے۔ویسے بھی اُس وقت جو کرتے تھے، ظلِ الٰہی کرتے تھے۔ الزام کبھی کبھی قاضی پر دھرتے تھے۔ ظلِ الٰہی پر کبھی کوئی الزام دھرا جاتا تھا تو قاضی صاحب کچھ نہیں، بہت کچھ کر گزرتے تھے۔ میاں بیوی راضی ہوں یا نہ ہوں، یہ قاضی صاحب کامسئلہ نہیں تھا۔ قاضی صاحب کاواحد مسئلہ ظلِ الٰہی کو راضی رکھنا تھا اور یہ مسئلہ حل کرنا قاضی صاحب خوب جانتے تھے۔ اس مسئلے کے تمام ممکنہ حل ہمیشہ قاضی صاحب کی دسترس میں ہوتے تھے۔ اراضی کے تمام معاملات ظلِ الٰہی کی دسترس میں ہوتے تھے۔ ظلِ الٰہی راضی تو اراضی ہی اراضی ورنہ بندہ فقط ماضی ہی ماضی۔ جوظلِ الٰہی کے آگے پاؤں پھیلاتا تھا، ظلِ الٰہی اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لیتے تھے۔
ظلِ الٰہی کاعملہ اُس ناہنجار کو کھینچ لیتاتھا۔ قبرستان کی اراضی اپنا منہ کھول دیتی تھی اور عملہ ہر کسی کا منہ بند کرنے کاماہر تھا۔ظلِ الٰہی ہر طرح کی بازی پسند کرتے تھے مگر اُن کا پسندیدہ کھیل جان کی بازی تھا۔ لوگوں کی جان کی بازی لگوانے سے ظلِ الٰہی کبھی باز نہ آتے تھے۔ لوگ بھی ظلِ الٰہی کی رضا کو اپنی جان سے مقدم جانتے تھے۔ ہماری شاعرہ بڑے مان سے اپنے پیا کو یہ کہہ سکتی تھیں کہ وہ پیار کی بازی شرطوں پر کھیلیں گی۔ جیت گئیں تو پیا اُن کے۔ ہار گئیں تو وہ پیا کی۔ ان شرائط کے بعد پیار کی بازی کوئی کھیلتا بھی تھا یا نہیں اس بابت راوی خاموش ہے۔ ظلِ الٰہی بھی کبھی کبھی پیار کی بازی کھیلتے تھے۔ اُس میں شرائط اُن کی اپنی ہوتی تھیں کیونکہ ظلِ الٰہی کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا تھا۔ راوی تو ویسے بھی لکھنے کا کام کرتا تھا۔ ہاتھ میں قلم ہونا ہاتھ قلم ہونے سے بہتر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیئے راوی کو جو دکھایا جاتا تھا وہی دِکھتا تھا اور وہ وہی لکھتاتھا۔ ظلِ الٰہی ہربازی جیت جاتے تھے مگر قسمت کی بازی کی بات الگ ہے۔ بازی پلٹ جاتی تھی۔ تدبیر کبھی بھی تقدیر کو مات نہیں دے سکتی۔ بعض اوقات ظلِ الٰہی کی تدبیر پر تقدیر مسکرا رہی ہوتی تھی۔ ظلِ الٰہی کی تباہی سب کو نظر آرہی ہوتی تھی۔ ظلِ الٰہی مگر نظریں چُرا رہے ہوتے تھے۔ خود سے ہی شرما رہے ہوتے تھے۔ حقیقی الٰہی کا کوڑا جب کبھی برستا تھا تو خود کو ظلِ الٰہی سمجھنے والا سکون کی ایک سانس کو ترستا تھا۔ زمانہ اُس پر ہنستا تھا۔ آوازیں کستا تھا۔ زمین کا دامن تنگ ہو جاتا تھا۔ کل کا سلطان آج باعثِ ننگ ہو جاتا تھا۔
انسان کا ماضی اس بات کاشاہد ہے کہ اصل قاضی تقدیر کا قاضی ہے۔ باقی سب ڈرامے بازی ہے۔ اگر وہ راضی ہے تو جگ راضی ہے۔ اُسی کے ہاتھ میں ہر بازی ہے۔ اُسی کی رضا سے بندہ ہر جنگ کا غازی ہے۔ تقدیر کے قاضی کے فتوے ابدیٰ ہیں۔ اُس کی سنت کبھی بدل نہیں سکتی۔ ارض و سما اُس کی رضا میں راضی ہیں۔ کائنات کی کوئی بھی مخلوق اُس سے بغاوت کا تصوربھی نہیں کر سکتی۔ انسان کو اُس نے صاحبِ اختیار ضرور بنایا ہے مگر سزاو جزا کا ہتھیار اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ وہی روزِ جزا کا مالک ہے۔ اگر رحیم ہے تو قہار بھی ہے۔ اگر رحمان ہے تو جبار بھی ہے۔ اُس نے جن وانس کو ہر نعمت دی۔ جن وانس چاہیں بھی تو اُس کی نعمتوں کو جھٹلا نہیں سکتے۔ حقیقی سلطان وہی ہے۔ وہ امان دے تو دے۔ کسی کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں۔وہ ایسی ذات ہے جس کا کوئی مثل ہو ہی نہیں سکتا۔ انسان کی حیثیت اپنے خالق کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ انسان مگر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے۔ خود کو ظلِ الٰہی اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھتا ہے لیکن سچ صرف ایک ہے۔ ہر نامی کا نشان تک مٹ جاتا ہے۔ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ صرف اُس کی ذات باقی رہنے والی ہے۔ اراضی بھی اُسی کی ہے اور اراضی پر بسنے والی تمام مخلوقات بھی اُسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ غافل انسان تو صرف اپنی نیت اور عمل کا مکلف ہے۔
وہ ساعت بہت قریب ہے جب انسان کو کہا جائے گا کہ وہ اپنے دفتر میں موجود اعمال پیش کرے۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور ذرے سے باریک بُرائی بھی درج کی جا رہی ہے۔ انسان کے اعمال کے حساب کتاب کا دن مقرر ہے۔ غافل انسان ساری زندگی دوسروں کے احتساب میں لگا رہتاہے۔ اُس کے اپنے احتساب کادن اس کے تصور سے بھی زیادہ قریب ہے۔زندگی، انسان اور شیطان کے درمیان ایک بازی ہے۔ ہر ساعت ابلیس کی نئی قلابازی ہے۔ اس معرکے میں وہی انسان سچا غازی ہے جو رب کی رضا میں راضی ہے۔ انسان کی بقاء اسی میں ہے کہ وہ زندگی کی ہر ساعت اللہ کو راضی کرنے کیلئے وقف کر دے۔ اللہ پاک نے دلوں کا اطمینان فقط اپنے ذکر میں رکھ چھوڑا ہے۔ اپنے وقت کے کئی ظلِ الٰہی اس وقت تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہوئے ہیں۔ اُن کانشان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ امر الٰہی پر راضی رہنا اور الٰہی کو راضی رکھنے کیلئے زندگی وقف کر دینا ہی علم کی معراج ہے۔ پیغمبر خدا ؐ کی زندگی اس بات کی عملی مثال ہے۔ آپ ؐ کی زندگی کا ہرلمحہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ فرشتوں سے انسان بننا بہت بہتر ہے۔ آپؐ کی ذات پر خود خالقِ کائنات اور اُس کی تمام مخلوقات درود و سلام بھیجتی ہیں۔ ہماری سلامتی اسی میں ہے کہ ہم بھی محبوب خداؐ کے نقش قدم پر چلنے کی پوری کوشش کریں۔الہامی کتاب واضح الفاظ میں کہتی ہے کہ رب کا محبوب بننے کا واحد راستہ پاک پیغمبرؐکی اتباع ہے۔
وہ دانائے سُبل، ختم الرسل، مولائے کُلؐ جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہ عشق مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسین، وہی طٰہٰ