قربانی کا پیغام

Jun 05, 2025

محسن گواریہ

 میرے اللہ کا فرمان عالیشان ہے”ہر امت کیلئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کیا ہے، تاکہ(اس امت کے)لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں،(ان مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے)پس تمہارا خدا ایک ہی ہے اور اسی کے تم مطیع بنو،اے نبیؐ بشارت دے دو عاجزی اختیار کرنے والوں کو“ (القراٰن)

عیدالالضحیٰ کے موقع پر قربانی کا جو حکم دیا گیا وہ محض ایک روائت نہیں بلکہ ایک مشن اور مقصد ہے، اس ذریعے سے مخلوق خدا میں سے صاحبان ثروت کو محروم الوسائل افراد کی مدد کرنے کا سبق دیا گیا،یوں تو ہر مذہب میں مفلوک الحال لوگوں کی مدد کا حکم موجود ہے مگر اسلام نے اسے ایک باقاعدہ تحریک کی شکل دی اور میکنزم بنایا، فرمان ہے ”تمہاری قربانی کا گوشت یا خون اللہ کو نہیں پہنچتا مگر تقویٰ“ اس ذریعے سے انفاق،ہمدردی،ایثار کا درس دیا گیا،فرمایا”(قربانی کے جانور کا گوشت) خود بھی کھاؤ ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کئے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں (یعنی سوالی کو بھی)ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لئے مسخر کیاتاکہ تم شکریہ ادا کر سکو“(القرآن)

حج اسلام کے پانچ بنیادی فرائض میں سب سے آخری فرض ہے مگر یہ فرض کیا گیا صاحب استطاعت لوگوں پر،تنگیء رزق کا شکار معاشرے کے افراد کی مدد اور اعانت کی تعلیم ہر مذہب میں ہے،عید الالضحیٰ بھی دراصل اسی جذبہ کو مہمیز دینے کیلئے ہے اسی لئے اسے عید قربان بھی کہا جاتا ہے،اس روز مذہبی فریضے کا مقصد صرف جانور ذبح کر کے خون بہانا مقصد نہیں بلکہ گوشت عزیزوں دوستوں ہمسایوں کو بطور تحفہ اور سوالی یا مفلس کو بطور امداد دینے کا حکم دیا گیا،اس میں بھی مساوات رکھی گئی اور حکم دیا گیا کہ بہترین گوشت اپنے لئے ذخیرہ کر کے ناپسندیدہ گوشت کی تقسیم نہیں ہونی چاہئے بلکہ برابر کے حصے کئے جائیں،یعنی ایک ہی قربانی میں دوسرا سبق،پہلا سبق مخلوق خدا کی اعانت، دوسرا مساوات۔

سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کا بیٹے کی قربانی دینے کے خواب کے جواب میں سر جھکا دینا او سید نا اسمعیٰل کا باپ سے کہنا کہ ”جو حکم ملا ہے اس پر عمل کیجئے آپ مجھے صابر پائیں گے“اللہ ذوالجلال کو باپ بیٹے کارب کی رضا پر راضی ہونے کاانداز اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کیلئے قربانی کی روائت جاری کر دی،ورنہ پہلے مناسک کی ادائیگی تھی،مگر باپ بیٹے کی رضا و رغبت کے بعد اذن عام دیدیا گیا، یوں تو ہر مذہبی روائت،تہوار،عبادت و ریاضت کے پس منظر میں ایک گہرا فلسفہ کار فرما ہے مگر عید قربان پر قربانی کا فلسفہ دراصل انسانی اور اسلامی معاشرے میں برابری کے ساتھ انفاق کا حکم ہے اور یہ صرف روزعید تک محدود نہیں بلکہ ہر مذہب میں صاحبان ثروت کو غریب،محتاج، نادار، بیمار، مسافر، اسیر،یتیم،یسیرسے تعاون کا حکم ہے وہ بھی خفیہ طریقے سے اور اس طرح کہ لینے والے کی ذلت اور رسوائی نہ ہو،مدد کر کے احسان جتانے کو بھی ناپسندیدہ عمل شمار کیا گیا۔

آج ہمیں اپنی قربانی کا جائزہ لینا ہو گا کیا واقعی ہم قربانی کے وہ تقاضے پورے کرتے ہیں جن کا حکم دیا گیا؟کیا ہم گوشت کی تقسیم کیلئے وہی فارمولا اپناتے ہیں جو قراٰن و حدیث میں بیان کیا گیا؟کیا ہم غریبوں،محتاجوں،سوالی کیساتھ پسندیدہ سلوک روا رکھتے ہیں؟،بائد و شائد،معدودے چند لوگ ہوں گے جن کا اس روز سعید جانور ذبح کرنا قربانی کے زمرے میں آتا ہو گا باقی نمود و نمائش ہوتی ہے،قربانی نام ہی ایثار کا ہے جس قربانی میں ایثار نہیں وہ قربانی نہیں، اقبال نے”جواب شکوہ“میں اس صورتحال کی کیا خوب ترجمانی کی ہے:

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی شعلہء مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

اس روز سب سے زیادہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہم تب کرتے ہیں جب قربانی کے جانور کی باقیات ہم گلی کے نکڑوں،گندی نالیوں یا سیوریج سسٹم کی نذر کر دیتے ہیں،نتیجے میں نالیاں گٹر لائنیں بند ہو جاتی ہیں اور تعفن زدہ گندہ پانی گلیوں میں پھیل کرگھروں میں گھس جاتا ہے،دوسری بے ہودگی سری پائے کی ویلڈنگ راڈز کے ذریعے صفائی کے ضمن میں کی جاتی ہے حالانکہ حکومت ہر سال اس پر پابندی عائد کرتی ہے مگر لوگ باگ پابندی کی پروا کئے بغیر گلی محلوں میں سری پائے جلا کر صاف کر کے فضائی آلودگی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں،جبکہ قربانی ہمیں نظم و نسق کے قیام کا درس دیتی ہے، مخلوق خدا کیلئے آسانی پیدا کرنا ہماری دینی تعلیمات کا حصہ ہے،مگر ایک دینی فریضہء کی ادائیگی میں چشم پوشی ہمیں دہرے گناہ کا مرتکب بناتی ہے۔

پیارے قارئین اس مرتبہ عید الالضحیٰ کینیڈا میں منا رہا ہوں،یہاں مئی میں اس بار روٹین سے ہٹ کر موسم سرما نے موسم گرما کو جگہ نہ دی جس کے باعث یہاں کا موسم ٹھنڈا رہا مگر اب بہت سہانا موسم شروع ہو چکا ہے،جی چاہتا ہے اس خوشگوار موسم کی شامیں چرا کر پاکستان لے آؤں،دن چڑھتے ہی باد صبا کی ہلکی خنکی دل موہ لیتی ہے،دوپہر کو بھی سورج کی حدت بدن جلاتی نہیں بلکہ خوشگوار تازگی کا احساس دلاتی ہے اور شام توایسی کہ جی چاہتا ہے اونچے نیچے سر سبز درختوں سے ڈھکی سڑکوں پر مٹر گشت کیا جائے،کسی کنج میں بیٹھ کر چائے اور کافی کے سپ لئے جائیں،لگتا ہے موسم کی یہ دل فریبی ابھی ستمبر تک متوالوں کے جی کو گرمائے گی،اس سہانے موسم میں عید قربان کے مزے دوبالا ہو جائیں گے خاص طور پر جب بار بی کیو بنے گا اور گرما گرم تکے کباب سے ذائقہ دہن کو دو آشتہ کیا جائے گا،

اگر چہ یہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے مگر سچ یہ کہ یہاں کی معاشرتی روایات سے اسلامی تعلیمات کی خوشبو آتی ہے،بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ کینیڈا کے باسیوں نے اسلامی تعلیمات کو اپنا لیا ہے جبکہ ہم مسلمان جانتے بوجھتے ان سے بیگانہ ہو چکے ہیں۔

کینیڈا میں مقیم ہر رنگ نسل،ملک کے لوگ ترک وطن کر کے مستقل سکونت اختیار کر چکے ہیں،مذہبی روایات کی پابندی بھی کرتے ہیں،قربانی کا فریضہ گھروں کی بجائے بڑے سٹورز کو منتقل ہو گیا ہے،کوئی کسی دوسرے کیلئے مصیبت کا سبب نہیں بنتا،ہر شہری اپنی ذمہ داری سمجھ کر مہذب لوگوں کی طرح گھر گلی محلے کی صفائی کا دھیان رکھتا ہے، فضائی، سمعی،بصری آلودگی پھیلانا اخلاقی جرم تصور کیا جاتا ہے،دل سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے کہ یا رب ہمارے دین کی تعلیمات پر وہ عمل کر رہے ہیں جو دین اسلام کے کے پیروکار بھی نہیں،لیکن جو اس دین کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں ان میں بھی ایسی جرائت رندانہ پیدا کر کہ اپنے دین کی تعلیمات کو اپنا سکیں،مذہبی تہوار کو ان کی روح کے مطابق منائیں، ایثار کریں، ہمدردی کریں، نفاق کریں، مگر کسی کی دل آزاری کاسبب بنیں نہ کسی کیلئے تکلیف کا باعث۔

مزیدخبریں