ہمارے معاشرے میں کئی ایسے جملے سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے البتہ خوشآمد کے زمرے میں ضرور آتے ہیں ہمارے ہاں جب کوئی اقتدار میں ہوتا ہے یا کسی بڑے عہدے یا مقام پر ہوتا ہے تو لوگ اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں وہی بندہ جب بے اختیار ہو جاتا ہے تو پرانے شناسا لوگ نظر بچا کر گزر جاتے ہیں اگر کسی کو کسی سے کوئی مطلب ہوتا ہے تو اس وقت کے رویے اور جب مطلب نکل جائے یا پورا نہ ہو تو اس وقت کے رویے میں زمین آسمان کا فرق ہو جاتا ہے۔
دوسری مثال مذہبی حوالے سے ہے ہمارے ہاں جتنے مذہبی پروگرام منعقد ہوتے ہیں اتنے دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہوتے،ان پروگراموں کے اندر نیکیوں کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں خوبصورت انداز میں تقاریر اور خطابات ہوتے ہیں برائیوں سے دور رہنے اور نیکیاں ہی نیکیاں کرنے کی تلقین ہوتی ہے سروں پر رنگ برنگی ٹوپیوں، پگڑیوں، کی بہار ہوتی ہے،اُجلے خوبصورت لباس اور ہاتھوں میں تسبیح اور زبان پر ذکر الٰہی ہوتا ہے لیکن پھر معاشرتی معاملات میں سب کچھ الٹ جاتا ہے، کسی بھی دکان والے پر کسی کو اعتبار ہوتا ہے نہ کسی سرکاری دفتر میں کوئی کام رشوت کے بغیر ہو سکتا ہے، کوئی اپنی بہن بیٹی کو کہیں اکیلے میں بھیج سکتا ہے نہ کوئی کسی رشتے پر اعتماد کرتا ہے۔
ہماری خیراتی تنظیمیں لوگوں سے خیرات کی اپیل کرتی ہیں اور جب کوئی پیسہ دیتا ہے تو پھر اس کی تعریف اس انداز سے کی جاتی ہے کہ وہ بندہ انسان کی بجائے فرشتہ لگنے لگتا ہے۔ (نیک، ملنسار، خوش اخلاق، درد دل رکھنے والا، انسانیت کی خدمت میں پیش پیش وغیرہ وغیرہ) یہ تو تھی ہلکی سی جھلک ہمارے معاشرے کی اب ذرا کافر معاشروں کے طرز زندگی پر ایک نظر کرتے ہیں۔ان معاشروں کے اندر جا کر جائزہ لینے سے پہلے اسی بات سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ہمارے ملک کے جس بھی نوجوان لڑکے یا لڑکی کو ان کافر ممالک میں سے کسی بھی ملک میں داخل ہونے کا قانونی یا غیر قانونی موقع میسر آئے تو وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر جانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے چاہے اس کے لئے اپنی ساری جائیداد ہی کیوں نہ بیچنی پڑ جائے،نہ صرف نوجوان بلکہ ہمارے سارے سیاستدان، علماء، بیوروکریٹس بھی انہی کافر ممالک میں رہنا پسند کرتے ہیں پاکستان میں صرف عہدے، اقتدار اور اپنی شہرت کا مزہ لیتے ہیں رہنے کا مزہ انہیں بیرون ملک ہی آتا ہے اِس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے اسلامی معاشرے کی نسبت وہ غیر اسلامی معاشرے رہنے کی بہتر جگہ ہیں اب ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ ان کافر ممالک میں کیا چیز ہے،جو ہمیں اپنی طرف کھینچ لے جاتی ہے؟ شاید بے حیائی یا کھلی جنسی آزادی؟ نہیں نہیں، توبہ توبہ ہم مسلمان تو بے حیائی اور جنسی آزادی کو بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں اور ہم ایسی بے راہ روی کا تصور بھی اپنے ذہن میں نہیں آنے دیتے یہ جو ہمارے ملک میں جنسی زیادتیاں ہوتی ہیں یہ تو شیطان مردود کروا دیتا ہے، لیکن پھر بھی یہ سب کھلے عام نہیں، بلکہ پردوں کے پیچھے ہوتا ہے۔
تو پھر مغربی معاشرے میں کون سی کشش ہے جو ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ یورپ، امریکہ، کینیڈا، جاپان، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا نظام ہمیں متاثر کن لگتا ہے ان کے معاشی حالات بہت بہتر ہیں، وہاں روزگار بھی ملتا ہے اور بہت اچھا معاوضہ بھی مل جاتا ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ ان تمام کافر ممالک میں سب کو برابر انصاف ملتا ہے، وہاں ہر کسی کو روٹی کپڑا مکان، عزتِ نفس اور تحفظ جان کی گارنٹی ملتی ہے وہاں جھوٹ بہت ہی کم ہے، وہاں دکاندار اور کاروباری لوگ کسی چیز میں ملاوٹ کرتے ہیں نہ جھوٹ بول کر غلط مال فروخت کرتے ہیں، وہاں ہماری خواتین جہاں مرضی کام کریں یا ویسے پھرتی رہیں انہیں کوئی خوف نہیں ہوتا نہ انہیں کوئی ہراساں کرتا ہے کوئی خاتون جہاں مرضی پھرے اور جیسا مرضی لباس زیب تن کرے مردوں کی نظریں ان کا پیچھا کرتی ہیں نہ کوئی آوازہ کستا ہے اس کی وجہ کیا ہے کہ وہاں بھی تو ہماری ہی طرح کے انسان رہتے ہیں پھر ان کا اتنا اچھا نظام کیسے بن گیا، وہاں ٹریفک منظم اور ہر جگہ صفائی نظر آتی ہے وہاں کوئی کسی کا شریک ہے نہ دشمن ہے ہر بندہ اپنا کام کرتا ہے اور اجتماعیت میں پورا حصہ ڈالتا ہے اب ہم کہتے ہیں کہ کافروں نے ہمارے اصول چرا کر ترقی کر لی ہے سوال یہ ہے کہ کیا اصول چرا لینے سے ختم ہو جاتے ہیں؟ اگر یہ اصول واقعی ہمارے تھے تو ہم نے خود کیوں نہیں اپنائے؟ کیا برصغیر میں کبھی ان اصولوں پر عمل کیا گیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہمارے کیسے ہوئے؟ یا پھر ہمارے اوپر منافقت کا سایہ ہے۔
اگر یہ اصول اسلام کے ہیں تو پھر ہمیں بھی اسلام کے اندر پورا پورا داخل ہو جانا چاہئے۔